Posts

Showing posts from January, 2022

گودار پھر سے خبروں کی زینت بنے گا؟

Image
عبدالحلیم  گوادر پھر سے خبروں کی زینت بننے جارہا ہے۔ گوادر تو ہمیشہ سے خبروں کی زینت میں ہے۔ پھر ایسا کیا ہونے جارہا ہے کہ گوادر خبروں کی شہہ سرخیوں میں آرہا ہے؟۔ گوادر سنیٹر محمد اسحاق کرکٹ اسٹیڈیم کی جلوہ نمائی کے بعد اب بابائے استمان میر غوث بخش بزنجو فٹبال اسٹیڈیم کی خوبصورتی کے چرچے شروع ہوگئے ہیں۔ آجکل یہ فٹبال اسٹیڈیم اپنے سبزہ زار اور فلڈ لائٹس کی وجہ سے خبروں میں چھا جانے والا ہے۔ فٹ بال سٹیڈیم کی تعمیر نو ادارہ ترقیات گوادر یعنی جی ڈی اے نے کی ہے۔ اسٹیڈیم کی تزئین و آرائش پر ایک کروڑ 63 لاکھ روپے کی لاگت آئی ہے۔ گوادر کا خوبصورت کرکٹ اسٹیڈیم اور نو تعمیر شدہ فٹبال اسٹیڈیم قریب قریب واقع ہیں۔ کرکٹ اسٹیڈیم گوادر پورٹ کو جانے والی سڑک کے مغربی جانب کوہ باتیل کے عین دامن میں واقع ہے جبکہ فٹبال اسٹیڈیم منی پورٹ (جی ٹی) کو جانے والی سڑک کے بغل میں مشرق کی طرف  پڑتا ہے۔ گوادر کرکٹ اسٹیڈیم کا سحر دنیا بھر میں چھایا ہواہے۔ بالخصوص سوشل میڈیا پر گوادر کرکٹ اسٹیڈیم کی خوبصورتی کے بڑے چرچے ہیں۔ اب گوادر فٹبال اسٹیڈیم کی سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی تصویروں کے بعد اس کے چرچے شروع ہونگے اور ف

24 نکاتی معاہدہ؟

Image
 عبدالحلیم  بی این پی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کا کہنا ہے کہ" وہ جام صاحب کو نکالنے کے ثواب میں شامل ضرور ہیں لیکن قدوس بزنجو کے لانے کے گناہ میں شامل نہیں۔" سردار صاحب نے یہ جملے اپنے ایک حالیہ گفتگو کے دوران ادا کئے ہیں جس کی کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں غالبا سردار صاحب میڈیا کے نمائندوں کی جانب سے پوچھے گئے سوالوں کے جواب دے رہے ہیں۔ سردار صاحب کی گفتگو کے اس کلپ کو بی این پی کے ایم پی اے ثناء بلوچ کی کوئٹہ پریس کلب میں منعقدہ ایک تقریر کے کلپ کے ساتھ جوڈ کر متضاد بیانیئے کے طورپر بھی پیش کیا جارہا ہے جس میں ثناء بلوچ قدوس بزنجو کو لانے کا برملا اعتراف کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں "ہم نے پارلیمانی ہنر کا استعمال کرکے جام کو نکالنے اور قدوس کو لانے میں کردار اداکیا تھا۔" بلوچستان میں صوبائی حکومت کی تبدیلی کے بعد سیاسی ناقدین متحدہ اپوزیشن کو یہ کہکر تنقید کا بھی نشانہ بنارہے تھے کہ عبدالقدوس بزنجو کو لانے میں بی این پی اور جمعیت علمائے اسلام نے کلیدی کردار اداکیا ہے۔ یہ کنفیوژن موجود تھی کہ 18 جنوری کے اسمبلی اجلاس میں ثناء بلوچ نے  اپنی تقریر کے دور

نمدی

Image
 احمد داد بلوچی: اے آرداد اردو: عبدالحلیم حیاتان  عرصہ ہوا ہے میں اپنے آپ سے بیگانہ بن بیٹھا ہوں۔ پھر تمھیں کیسے یاد رکھوں۔ یہاں کوئی کسی کو یاد نہیں کرتا۔ جو بھی گیا سو گیا۔ تم لوگوں نے کیا سوچھا تھا کہ تم لوگوں کے جانے کے بعد یہ قوم تمھیں یاد کریگی۔ نہیں۔ نہیں۔ اگر تم یہاں موجود ہوتے پھر میں تم سے کہتا نئے دلوں کے شیشے ذرہ برابر بھی گزرے ہوئے موسموں کے غموں سے اپنے آپ کو داغ دار کرنا نہیں چاہتے۔ میں وہ ہوں کہ جس نے تیری پرورش کی اور تمھیں نکھارا بھی۔ تم میرے بیٹے جیسے تھے، میں تم کو بھلا بیٹھا ہوں۔ پھر غیروں سے گلہ کیوں؟ نہ پہ دوستاں نہ پہ دژمناں تاوان اچ تلائیں برچانکءَ پرشتگیں سگاراں من مجھے رفیق (میرا بھائی، احمد داد سے بڑاہے) اس نے کچھ لمحہ پہلے مجھے یاد دہانی کرائی۔ ہاں میں گوادر میں ہی موجود ہوں۔ جب میں نے صبح کی چہل قدمی مکمل کی اور واپس گھر لوٹا اور ارادہ ظاہر کیا کہ استاد پر اپنی تحریر کا دوسرا حصہ مکمل کروں کیونکہ محسن امام یہاں آیا ہوا تھا اور مجھے فرصت نہیں ملا تھا۔ جیسے ہی میں نے کاغذ اور کتاب نکالے تھے اسی اثناء میں رفیق نے مجھ سے پوچھا کہ آج کونسا دن؟۔ میں نے سر اٹھاکر

بُزی کی حیرت کدہ پہاڑیاں 

Image
عبدالحلیم  کوسٹل ہائی وے پر دوران سفر بُزی کی پہاڑیاں حیرت کدہ کی مانند ہیں۔ یہ پہاڑیاں شمالی علاقہ جات یا کشمیر کی طرح ہریالی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں اور نہ ہی اِن میں سے آبشار پھوٹتے ہیں لیکن قدرت نے جس ترتیب سے اِن کو رکھا ہے یہ دیکھنے والوں کو حیرت زدہ ضرور کرتے ہیں۔  بُزی کی پہاڑوں کے درمیان جب سڑک ناگن کی طرح بل کھاتی ہوئی گزرتی ہے تو پہاڑوں کی ساخت مختلف مناظر کا عکس منکشف کرتے ہیں۔ بُزی کی پہاڑیاں پتھروں اور مٹی کے امتزاج پر مبنی ہیں۔لیکن اِن پہاڑوں کی ساخت غیر معمولی عکس کشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ پہاڑوں کے ٹیلوں پر کسی بادشاہ کے محل اور قلعہ کی شبیہہ کا گمان ہوتا ہے۔ قلعہ کی حفاظت کے لئے سپاہ کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے۔ پہاڑوں کے اونچے ٹیلوں پر بیٹھے ہوئے ببر شیر کا مجسمہ سر اٹھائے ہوئے نظر آتا ہے۔ ٹیلوں پر کسی بادشاہ کا مجسمہ طمطراق سے کھڑا نظر آتا ہے اور ایسا لگتا ہے ان مجسموں میں سے کوئی ملکہ یا شہزادی محل سے باہر نکل کر قدرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہورہی ہے۔ اِن پہاڑوں کے ٹیلوں پر عمارتوں کی شبیہہ کا تصور بھی ذہن میں ابھرتا ہے۔ ہوا کی رگڑ نے تراش تراش کر ان ٹیلوں کو

گوادر کا خوبصورت کپیسی بیچ

Image
عبدالحلیم  ضلع گوادر کا ساحل اپنے منفرد محل و وقوع کی وجہ سے دلفریب مناظر کا مجموعہ ہے۔ یہاں کے چمکتے ہوئے ساحل اور بیچز اپنے قدرتی حسن کی وجہ سے اپنے دیکھنے والوں کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں۔ ضلع گوادر کے ساحل پر متعدد بیچز واقع ہیں جہاں جانے کے بعد آپ اس کی خوبصورتی کا دلدادہ بن جاتے ہیں۔ آئیئے ہم آپ کو ایسی ہی ایک بیچ کے بارے میں بتاتے ہیں۔ یہ بیچ گوادر شہر کے جنوب میں واقع کوہ باتیل کے مشرق جنوب کی طرف پڑتا ہے۔ اس بیچ کو کپیسی کہتے ہیں۔ کپیس بلوچی زبان میں کچھوے کو کہتے ہیں اور مقامی لوگوں کے مطابق اس بیچ کا نام اس لئے کپیسی پڑا ہے کیونکہ یہاں پر کچھوے انڈے دیتے ہیں اور یہ بیچ کچھووں کی نایاب نسل کی محفوظ پناہ گاہ بھی ہے۔  کپیسی بیچ کا شمار ضلع گوادر کی خوبصورت ترین بیچز میں ہوتا ہے۔ یہ بیچ کوہ باتیل کی بہترین تفریح گاہ اور ساتھ ہی کچھووں کی محفوظ پناہ گاہ بھی ہے۔ میرین ایکسپرٹ کا کہنا ہے کہ جن بیچز پر تفریحی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہیں تو وہاں پر آبی حیات کی موجودگی معدوم ہوجاتی ہے۔   کپیسی بیچ واقعی دیکھنے کے قابل ہے۔ تفریحی سرگرمیاں کسی بھی علاقے کی مقامی معشیت پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہ

گوادر میں بارشوں نے شہری سہولیات کا پول کھول دیا۔

Image
عبدالحلیم گوادر اس وقت ترقی کے افق پر نمودار شہر مانا جاتا ہے۔ یہ شہر سی پیک کا مرکز بھی ہے اور دنیا کے منفرد اہمیت کے حامل گہرے بندرگاہ کا شہر بھی ہے۔ گوادر بندرگاہ کی تکمیل کا منصوبہ پندرہ سال پہلے مکمل کیا گیا ہے۔ گوادر بندرگاہ کو رابطہ سڑکوں سے ملانے کے لئے ایکسپریس وے کا منصوبہ بھی قریب تر پہنچ چکا ہے اور سی پیک منصوبے کے تحت بہت سے منصوبے مکمل کئے جارہے ہیں۔ اتنے اہمیت کے حامل منصوبوں کا شہر ہونے کے بعد ذہن میں یقینا یہی تصور ابھر کر سامنے آئے گا کہ یہ شہر، شہری اور بنیادی سہولیات کی حامل بہترین مثالی شہر ہے یا یہاں پر وسائل کی کوئی کمی نہیں۔ کیا گوادر واقعی ایسا شہر بن گیا ہے؟۔ گوادر شہر میں خوبصورت کرکٹ گراونڈ اور برقی قمقوں سے چمچماتی میرین ڈرائیو کی سوشل میڈیا پر تشہیر کے بعد کسی بھی شخص کے وہم و گمان میں یہ نہیں ہوگا گوادر روبہ ترقی کی بجائے روبہ زوال ہے۔ جب  آپ گوادر کے بارے میں تصوراتی خیال سے باہر نکل کر زمینی حقائق کا بہ نفس نفیس جائزہ لینگے تو آپ کے سارے خواب چکنا چور ہوجائینگے۔   حالیہ بارشوں نے گوادر شہر میں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ گوادر شہر تین