نمدی
احمد داد
بلوچی: اے آرداد
اردو: عبدالحلیم حیاتان
عرصہ ہوا ہے میں اپنے آپ سے بیگانہ بن بیٹھا ہوں۔ پھر تمھیں کیسے یاد رکھوں۔ یہاں کوئی کسی کو یاد نہیں کرتا۔ جو بھی گیا سو گیا۔ تم لوگوں نے کیا سوچھا تھا کہ تم لوگوں کے جانے کے بعد یہ قوم تمھیں یاد کریگی۔ نہیں۔ نہیں۔ اگر تم یہاں موجود ہوتے پھر میں تم سے کہتا نئے دلوں کے شیشے ذرہ برابر بھی گزرے ہوئے موسموں کے غموں سے اپنے آپ کو داغ دار کرنا نہیں چاہتے۔
میں وہ ہوں کہ جس نے تیری پرورش کی اور تمھیں نکھارا بھی۔ تم میرے بیٹے جیسے تھے، میں تم کو بھلا بیٹھا ہوں۔ پھر غیروں سے گلہ کیوں؟
نہ پہ دوستاں نہ پہ دژمناں تاوان
اچ تلائیں برچانکءَ پرشتگیں سگاراں من
مجھے رفیق (میرا بھائی، احمد داد سے بڑاہے) اس نے کچھ لمحہ پہلے مجھے یاد دہانی کرائی۔ ہاں میں گوادر میں ہی موجود ہوں۔ جب میں نے صبح کی چہل قدمی مکمل کی اور واپس گھر لوٹا اور ارادہ ظاہر کیا کہ استاد پر اپنی تحریر کا دوسرا حصہ مکمل کروں کیونکہ محسن امام یہاں آیا ہوا تھا اور مجھے فرصت نہیں ملا تھا۔ جیسے ہی میں نے کاغذ اور کتاب نکالے تھے اسی اثناء میں رفیق نے مجھ سے پوچھا کہ آج کونسا دن؟۔
میں نے سر اٹھاکر جواب دیا کہ "پیر کا دن اور 18 کی تاریخ ہے۔ "اس نے ناپسندیدہ مسکراہٹ کا اظہار کرتے ہوئے کہا 18 ہے 17"؟۔
میں اب بھی اس کے باتوں پر دھیان نہیں دے رہا تھا۔
آج 17 تاریخ ہے۔ کیا آپ سب بھول گئے ہو۔؟
میں اپنی جگہ سے اٹھا اور اس کے قریب پہنچا۔ "آج کونسا دن ہے؟"
رژنا کی والدہ بھی کھڑی تھی اور مجھے اس طرح دیکھ رہی تھی کہ میں کیا کہونگا۔
دونوں میں سے کسی ایک کی زبان سے نکلا۔ احمد۔
اڑے، اڑے، اڑے۔
دیکھ۔ ہم نے تم کو کس قدر بھلا دیا ہے۔ احمد شیھک کا نواسہ
17 جنوری 2011 کو جب ہم نے تم کو کوہ باتیل کے سائے کے حوالے کیا اس کے بعد مجھے یاد نہیں پڑتا کہ تمھارے دیدار بینی کے لئے آیاہوں۔ زمانے کو دکھانے کے لئے دوسروں کے مقبروں پر بہت بار گیا ہوں لیکن تمھاری طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھا۔
مبارک جیسا دل میرے پاس نہیں۔ وہ ہر روز شہید کمبر کو یاد کرتا ہے۔ مبارک دوسروں کو آڑے ہاتھوں بھی لیتا ہے۔ مجھے یہ بھی یاد نہیں پڑتا کہ میں نے کسی مجلس میں تیرا نام بھی لیا ہو۔
تھجے کیا یاد کروں۔ تم اپنی خواہش اور ارمانوں کے تابع ہوکر گرج چمک کے موسموں کی طرح یہاں سے روانہ ہوئے تھے۔ تم اپنے عمل پر پشیماں نہیں تھے پھر میں کیوں پشیماں رہوں؟۔
اوروں کو میں نہیں جانتا۔ اس شہر میں اب شہید عارف نور اور نہ ہی شہید عبدالرحمن عارف کو یاد کیا جاتاہے۔ لالہ حمید کو کبھی کبھبار حلیم حیاتان ضرور یاد کرتا ہے۔
اڑے! اب شہداء کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ اتنے زیادہ ہیں کہ شمار بھی نہیں ہوسکتے۔ کوئی نہیں جانتا کہ ان کی بیوائیں اور یتیم بچے کس حالت میں ہیں؟ کہاں بھیک مانگ رہے ہیں اور کس در کے سوالی ہیں۔ کوئی بھی نہیں جانتا۔
اچھا ہوا ماں تجھ سے پہلے گزرگئی۔ اب تم اس کے روبرو ہو۔ اب وہ راتوں کو اٹھنے کی زحمت نہیں کرے گی اور نہ ہی مجھے گہری نیند سے جگاکر کہے گی کہ "ابا احمد کا پتہ کرو، بہت رات ہوچکی ہے اور وہ اب تک نہیں لوٹا ہے۔"
ابا سے کہنا میں نے داد محمد کو جنم دیا ہے اور اس وقت بھی میرے پاس بیٹھا ہوا ہے اور موبائل پر کارٹون دیکھنے کی زد کررہا ہے۔ اور ہاں حبیبہ (میری بہن) کی دیدار بینی کے لئے بھی کبھی کبھار جایا کریں۔
میری نیک خواہشات اور تمنائیں تمام نوجوان اور بوڑھے شہداء تک بھی پہنچائیں۔
اور خیریت ہے۔ خیریت نہیں بھی۔
انسانوں کو فنا کرنے والی بستی سے امید اور یاس رکھنے والا
آپ کا اے آرداد
Comments
Post a Comment