طارق فیض کی فوٹو گرافی کا پروجیکٹ "بشنو"

 


عبدالحلیم حیاتان 


نوجوان فوٹوگرافر طارق فیض کا تعلق گْوادر سے ہے۔ طارق فیض پیشے کے لحاظ سے آرکیٹکٹ ہیں۔ طارق فیض نے آرکیٹکٹ میں اپنی گریجویشن کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی لاہور سے حاصل کی ہے۔ لیکن اُن کا میلان فوٹو گرافی کی طرف بھی ہے۔ وہ اپنے کیمرے سے غیر معمولی تصاویر کیھنچ کر فریم کی زینت بناتے ہیں۔

آر سی ڈی کونسل گْوادر کے زیرِ اہتمام منعقد شدہ گْوادر کتاب میلے کے آٹھویں ایڈیشن میں طارق فیض کی فوٹو گرافی کی نمائش بھی آرٹ گیلری کی زینت بنے رہے جو سب کی توجہ کا مرکز بنا رہا تھا۔ 

طارق فیض نے اپنے فوٹوگرافی کے پروجیکٹ کو "بشنو" کے نام سے منسوب کرکے نمائش میں پیش کیا تھا۔ بشنو فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں "سنو"۔ بشنو کو مولانا رومی کی حکایت سے لیا گیا ہے۔ طارق فیض نے جن شخصیات کی تصاویر لی ہیں اُن میں زیادہ تر ادبی شخصیات شامل ہیں۔

طارق فیض سے جب پوچھا گیا کہ اُس نے اپنے پروجیکٹ کا نام "بشنو" کیوں رکھا ہے؟۔ تو اِس پر اُن کا جواب یہ تھا "بولنا ہر ایک کی عام فطرت میں شمار ہوتی ہے لیکن  کسی کو سننا بھی چاہیئے۔ اِس لئے میں نے اپنے اِس پروجیکٹ کو "بشنو" کا نام دیا ہے۔ 

طارق فیض نے جن شخصیات کی تصاویر نمائش میں پیش کئے تھے اُن کے ساتھ مذکورہ شخصیات کے ہاتھ سے لکھا گیا تحریری نوٹ بھی الگ سے تصویر کے ساتھ چسپاں کیا گیا تھا۔ تحریری نوٹ کے چسپاں کرنے کی ضرورت کے بارے میں طارق فیض کا کہنا تھا "جب میں نے مزکورہ شخصیات کی تصویریں لی تھیں تو اُن سے یہ بھی گزارش کی تھی کہ وہ دوسروں کے لئے ادب تخلیق کرتے ہیں اور وہ خود ادبی لحاظ سے اپنے آپ کو کِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں، اور مزکورہ شخصیات نے ادبی اسلوب میں اپنے احساسات کا اظہار تحریری نوٹ میں لکھ کر دیا ہے تاکہ دوسرے بھی اُن کو سنیں ۔" 

طارق فیض نے آرٹ گیلری جہاں اُن کی تصاویر کی نمائش ہورہی تھی تو وہاں ایک ٹوٹا ہوا آئینہ بھی آویزاں کیا تھا اور ساتھ میں یہ نوٹ بھی لکھا گیا تھا کہ آئینہ دیکھنے کے بعد آپ اپنے آپ کو کیسے بیان کرتے ہیں۔ طارق فیض کا کہنا تھا کہ اِس کا مقصد نمائش میں تصاویر دیکھنے والوں کو یہ بتانا تھا کہ جب وہ ٹوٹے ہوئے آئینے کے سامنے جاکر اپنے آپ کو دیکھتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو کیسا پاتے ہیں اپنے اِس احساسات کو وہ اپنے ہی الفاظ میں قلمبند کریں"۔ 

آرٹ گیلری میں تاثرات قلمبند کرنے کے لئے ایک رجسٹر بھی رکھا گیا تھا۔ ٹوٹا ہوا آئینہ دیکھنے کے بعد لوگوں نے بڑی تعداد میں اِس میں اپنے تاثرات بھی قلمبند کئے۔ تاہم طارق فیض کی اِس تصویری نمائش میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی، طارق فیض کے پروجیکٹ کو زبردست پزیرائی بخشی گئی اور اِس میں گہرے دلچسپی کا بھی اظہار کیا گیا۔ 

طارق فیض کہتے ہیں کہ وہ اپنے اِس فوٹوگرافی کے پروجیکٹ کو کتابی شکل دینے کی خواہش رکھتے ہیں، اگر اِس ضمن میں کوئی پبلشر تعاون کرے تو بہتر ہوگا۔ طارق فیض کی فوٹو گرافی کے پروجیکٹ کی ایڈیٹنگ ماجدہ اکبر نے کی ہے۔ تحریر نوٹ کا بلوچی سے انگریزی میں ترجمہ شہاب اکرم نے کیا ہے۔ 

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں