گْوادر بُک فیسٹیول کا پہلا دن

عبدالحلیم حیاتان 

 آر سی ڈی کونسل گوادر کے زیرِ اہتمام چار روزہ گْوادر بک فیسٹیول کے نویں ایڈیشن کا آغاز ہوگیا ہے۔ بُک فیسٹیول کے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلوچی زُبان کے معروف ادیب ڈاکٹر اے آر داد نے کہا کہ کتاب میلے کی ایک جُداگانہ اہمیت ہوتی ہے اِس سے کتب بینی کے رجحانات کو تقویت ملتی ہے۔ گْوادر کتب میلے میں کتابوں کے جو اسٹال لگائے گئے ہیں یہاں پر وافر مقدار میں بلوچی زبان میں چھاپی گئی کتابیں بھی موجود ہیں جو بلوچ زُبان اور ادب کے فروغ کے لئے نیک شگون ہے۔ کتابوں سے رغبت رکھنا بے حد ضروری ہے کتابوں سے شعور بڑھتا ہے۔ اُنہوں ایک کتاب سے ایک آدمی کے واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اِس آدمی کو ایک ہفتہ کے لئے قید میں ڈالا جاتا ہے اور جب وہ رہا ہوکر آئینہ کے سامنے کھڑے ہوکر اپنا چہرہ دیکھتا ہے تو اسے اپنا چہرہ اِس لئے بدصورت دکھنے لگتا ہے وہ ایک ہفتہ تک کوئی کتاب نہیں پڑھ سکا۔

موسمیاتی تبدیلی پر کام کرنے والی سماجی کارکُن نفیسہ رشید نے کہا کہ گوادر کتاب میلہ کا موضوع موسمیاتی تبدیلیوں پر رکھ کر اِس کا آغاز کرنا خوش آئند ہے کیونکہ اِس وقت ہمارا خطہ شدید موسمیاتی تبدیلیوں کی زَد میں ہے۔ قدرتی آفات اپنی جگہ لیکن آج ہماری زمین جس تیزی سے تباہی کے دھانے پر پُنچ رہی ہے وہ موسمیاتی تبدیلیوں کا پیشہ خیمہ ہے اِس پر ہمیں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، ہمارا شعور یافتہ طبقہ اور بلوچ نوجوانوں کو اِس اہم مسئلہ کا اِدراک رکھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ہم کیسے موسمیاتی تبدیلیوں چیلنجز کا مقابلہ کریں۔

سیف پاکستان کے ایگزیٹیو ڈائریکٹر محمد تحسین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے منسوب یہ کتاب میلہ اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے جس سے پاکستان بھی متاثر ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی کے جس گھمبیر مسلے نے سر اٹھایا ہے اِس کی وجہ استحصالی طاقتیں اور اُن کی لوٹ مار ہے۔ کتاب میلے کا تھیم موسمیاتی تبْدیلیوں پر رکھنا اِس اہم مسلہ کو اُجاگر کرنے کی اور جستجو کرنے کی اچھی کاوش ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ کتابوں کا تبدیلی لانے میں اہم کردار ہے آج کی نوجوان نسل کتاب دوستی کو اپنا شعار بنائیں صرف ایک فیکٹر سوشل میڈیا پر انحصار مت کریں بل کہ کتاب سے بھی لگاؤ رکھیں کتابوں سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع میسر آئے گا جو آپ کی سوچ بدل سکتی ہے۔

آر سی ڈی کونسل گْوادر کے سرپرست اعلی خدابخش ھاشم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کتاب سے دوستی مہذب اور ترقی پسند قوم ہونے کی نشانی ہے کتاب ماضی اور مستقبل سے روشناس کراتی ہے اگر کتابیں نہ ہوتی تو انسان بھٹک جاتا۔ موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ انفرادی اور اجتماعی طور پر کرنے کی ضرورت ہے، اپنی فضا اور زمین کو بچانے کے لئے کوئ بھی شخص پودا اور درخت بھی لگاسکتا ہے۔

سابقہ ایم پی اے گْوادر میرحمل کلمتی نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ آج کا دور مقابلے کا دور ہے جس میں صرف ڈگری یافتہ ہونا ضروری نہیں ہے گْوادر کے نوجوان مقابلوں کے امتحانات میں شرکت کریں ہمیں جدت پسندی کی طرف مراجعت کرنا ہوگا تاکہ ہم اپنی قوم اور علاقے کی بہتر سے بہتر خدمت کرسکیں۔ اُنہوں نے کہا کہ کتاب میلہ کے دورس اور مثبت اثرات ہوتے ہیں جس سے نئی جہت اور رائیں کھلتی ہیں۔

یونیورسٹی آف گْوادر کے چانسلر ڈاکٹر عبدالرزاق صابر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کتب میلہ علم اور آگاہی کے سفر کو آسان بناسکتے ہیں۔ علم کے پھیلاؤ کے لئے کتب خانوں کا کردار بھی اہم ہوتا ہے، گوادر یونیورسٹی میں معیاری کتب خانہ موجود ہے، کتاب دوستی کا چلن اختیار کرنے سے ہم بہتر اور روشن مستقبل کی طرف مراجعت کرسکتے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر گْوادر حمودالرحمن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گوادر کتاب، دوستی، علم دوستی، آرٹ اور کلچر کے لئے زرخیز ہے یہاں ادب اور فن سے وارفتگی رکھنے والوں کی کثیر تعداد موجود ہے خواتین بھی اِس میدان میں پائے جاتے ہیں۔ بلوچستان میں سب سے زیادہ آرٹسٹ گوادر میں پائے جاتے ہیں۔ گْوادر آرٹ اور کلچر کے حوالے سے سی پیک سے پہلے بھی نمایاں تھا اور آج بھی نمایاں ہے اِس طرح کی خصوصیات گْوادر اور مکُران کے علاوہ پاکستان کے باقی کسی بھی علاقے میں نہیں ملینگی۔ اِن کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ 

افتتاحی تقریب کے موقع پر گْوادر سے تعلق رکھنے والے نوجوان گلوکاروں دیدگ اکبر اور یونس جی آر نے عطاء شاد کا لکھا گیا گیت گاکر شرکاء سے خوب داد و تحسین وصول کی۔ 

بعدازاں سیف پاکستان کے ایگزیٹیو ڈائریکٹر محمد تحسین نے فیتہ کاٹ کر بک فیسٹیول کا باقاعدہ افتتاح کیا۔ کتب میلے کے پہلے دن سات سیشنز منعقد کئے گئے۔ پہلے سیشن میں خیرجان آرٹ اکیڈمی کی طرف سے تھیٹر شو اور ٹیبلو پیش کئے گئے، دوسرے سیشن میں بدلتا عالمی نظام اور بلوچستان کے موضوع پر ڈاکٹر عمار علی خان نے اپنی جامع اور پرمغز پریزینٹیشن پیش کیا، شرکاء نے اُن سے موضوع کے حوالے سے سوال بھی پوچھے۔ اِس سیشن کے ماڈریٹر اسماعیل عمر تھے، تیسرے سیشن میں بلوچی میں گلزار گچکی لکھی گئی کتاب زھیروک کی رونمائی کی گئی، چوتھے سیشن میں عطاشاد کی فن و شخصیت پر منیر مومن اور اے آر داد نے بات کی۔ اِس سیشن کے ماڈریٹر صباء گلزار تھے، پانچویں سیشن میں موسمیاتی تبدیلیوں کے موضوع پر محمد تحسین اور ڈاکٹر عمار علی جان نے مباحثے میں حصہ لیا۔ اِس سیشن کے ماڈریٹر اصغر رمضان تھے، چھٹے سیشن میں بلوچی زُبان کے نام ور ادیب ڈاکٹر فضل خالق نے اے آر داد کی نظامت میں گفتگو کی، بک فیسٹیول کے ساتویں اور آخری سیشن میں بام فلمز پروڈکشن گْوادر کہ طرف سے مختصر دورانیے کی فلموں کی اسکریننگ کی گئی۔ 

یوں گوادر بُک فیسٹیول کا پہلا دن اپنی تمام تر رعنائیوں اور رنگینیوں کو سمیٹ کر اختتام پذیر ہوا۔ 

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر کا تاریخی "واچ ٹاور"

گْوادر بک فیسٹیول کا آخری دن