گْوادر، نام بڑے درشن چھوٹے
عبدالحلیم حیاتان
گْوادر کی وجہ شہرت گوادر بندرگاہ کی تکمیل کے بعد خوب ابھر کر سامنے آئی اور پھر سی پیک منصوبوں نے گْوادر شہر کی وجہ شہرت کو بلندیوں تک پہنچایا جس سے یہ گمان بڑھ گیا کہ اب گْوادر کو درپیش بنیادی مسائل جس میں پانی اور بجلی کا بحران جو کہ اہلیانِ گْوادر کو ورثے میں ملے تھے اُن سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گلو خلاصی مل جائے گی اور یہ شہر اب کبھی پانی اور بجلی کے حصول کے لئے سڑکوں پر نہیں نکلے گا۔
لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا گْوادر میں شہری سہولیات کی فراوانی کی بجائے اِس میں مزید کمی آگئی۔ آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوتا گیا اور تعمیرات کی لہر نے گْوادر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پہلے گْوادر شہر جو شمبے اسماعیل تک محدود تھا اب اِس کا پھیلاؤ مزید بڑھ گیا ہے اور نئی آبادیاں قائم ہوگئی ہیں جس کے لئے شہری سہولیات میں اضافہ کی ضرورت پیش آگئیں۔
گْوادر شہر کی آبادی میں اضافہ کے باوجود شہری سہولیات میں اضافہ کے لئے منصوبہ بندی کا وہ معیار نظر نہیں آیا بل کہ بڑی آبادی کے لئے موجود سہولیات پر قناعت کیا گیا جس سے شہری گوں نا گوں مسائل سے دوچار ہوتے ہوگئے۔
پانی جو اہم انسانی ضرورت ہے اِس وقت گْوادر شہر کے باسی پانی کے بحران کا شکار ہیں کیوں کہ طویل خشک سالی کے باعث آبی ذخیرہ ختم ہونے جارہے ہیں جِس سے پانی کی وافر مقدار میں فراہمی متاثر ہوکر رہ گئی ہے۔ پانی بحران کے سر اٹھاتے ہی گْوادر شہر میں احتجاج اور سڑکوں کی بندش معمول بن گیا ہے۔
پانی کا یہ بحران کوئی نیا نہیں بل کہ آزمودہ بحران ہے، اِس سے قبل گوادر شہر اور نواحی علاقے متعدد بار آبی ذخائر خشک ہونے کے نتیجے میں آبی بحران کا شکار رہے ہیں اور سابقہ تجربات کی روشنی میں یہی اخذ کیا جاتا رہا کہ اب گْوادر جیسے ابھرتے ہوئے شہر میں پانی بحران کبھی درپیش نہیں ہوگا۔ پانی دو بجلی دو کی صدائیں قصہ پارینہ بن جائینگی۔
جب ناخدا سمندر سے شکار سے لوٹے گا تو وہ پانی اور بجلی کے لئے پریشان نہیں ہوگا بل کہ پوتے اور پوتیوں میں ٹافیاں تقسیم کرتے وقت اُن کو یہ قصہ سنائے گا کہ "بچوں آپ لوگ خوش قسمت ہو تمھارے دور میں سب سہولیات میسر ہیں جب ہمارا زمانہ تھا تو ہم پانی دو بجلی دو کی صداؤں میں زندگی بسر کرتے کرتے اس عمر کو پہنچیں ہیں"۔
لیکن تمام امیدیں خاک میں مل گئیں اور گوادر آج بھی پانی بحران کا شکار ہے۔ آج جب ناخدا شکار سے واپس لوٹتا ہے تو بچے ناخدا سے پانی اور بجلی نہ ہونے کا سوال کرتے ہیں۔ ناخدا بچوں سے کہتا ہے "ہاں بچوں ”پانی دو بجلی دو ورنہ کرسی چھوڑ دو“ کا نعرہ لگا لگا کر ہمارے بال سفید ہوئے ہیں۔ پتہ نہیں بچوں کوہ باتیل کا سینہ اِس نعرہ کی گونج سے کب نجات پائے گا"؟
چند دِنوں قبل جب خواتین نے پانی کے حصول کے لئے گْوادر شہر کی ایک سڑک بند کردی تھی اور وہاں کسی صحافی نے احتجاج میں شریک ایک خاتون سے اِس کے تاثرات ریکارڈ کئے تو وہ یہ کہہ رہی تھیں "وہ اپنے باپ داد کے زمانہ سے پانی دو بجلی دو کا نعرہ سن رہے تھے اور آج ہم اپنے بچوں کے ساتھ مل کر یہ نعرہ بلند کررہے ہیں شاید ہماری آئندہ پیڑھی بھی یہ نعرہ لگاتی رہے گی"
گْوادر میں زمین کی ہیت بدلی ہے، نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ بن چکا ہے، دیمی زِر ایکسپریس وے، برقی قمقموں سے مزین میرین ڈرائیو اور دیگر سڑکیں بن چکی ہیں مگر گْوادر واسیوں کو جو مسائل پیڑھی در پیڑھی درپیش ہیں اُن کا حل نہیں نکالا گیا ہے۔ چار سے پانچ نسلیں "پانی دو بجلی دو ورنہ کرسی چھوڑ دو" کا جو نعرہ لگاتے رہے آج بھی اِس نعرہ کی گونج کوہ باتیل سے ٹکرا رہی ہے۔
گْوادر شہر کو پانی اور بجلی کے بحران سمیت دیگر بُنیادی مسائل سے پاک شہر بنانے کے لئے انسانی ترقی کے حصول اور معیار اپنانے کی ضرورت ہے جو اب تک یا بظاہر ناپید ہے یہی وجہ ہے کہ پورا شہر دو گھونٹ پانی کے حصول کے لئے سڑکوں پر نکل آتی ہے یا ایک برتن پانی کے حصول کے لئے بچے اور عورتیں گلیوں میں سرگرداں نظر آتی ہیں۔
جب تک گْوادر میں شہری سہولیات کی فراہمی اور فراوانی کے لئے منصوبہ بندی نہیں کی جاتی ہے یہاں کے مسائل یونہی برقرار رہینگے۔ پانی دو بجلی دو ورنہ کرسی چھوڑ دو کا نعرہ موجودہ پیڑھی اور آئندہ کی پیڑھی کا مقدر بنتا رہے گا اور گْوادر کا نام میگا پروجیکٹس کی وجہ سے باہر والوں کے لئے بڑا ہوگا لیکن درشن کرنے پر چھوٹا ہی رہے گا۔
فوٹو بشکریہ: بہرام بلوچ
Comments
Post a Comment