گوادر بک فیسٹیول کا دوسرا دِن
عبدالحلیم حیاتان
گوادر بُک فیسٹیول کا دوسرا دِن بھی علم و ادب کے متوالوں کی دلچسپی کا مرکز بنا رہا۔ اسٹال پر سجے کتابوں پر نوجوانوں کی دلچسپی دیکھنے کو آئی، ہر کوئی اپنی پسند کی کتاب کا متلاشی تھا بلوچی زُبان اور ادب کی کتابیں نسلِ نُو کو اپنی طرف متوجہ کررہی تھیں جب کہ تاریخ، ادب اور فلسفہ پر لکھی گئی دیگر زُبانوں کی کتابیں بھی بُک لورز کی دلچسپی کا مرکز تھے۔ کتابوں کے ساتھ ساتھ ثقافتی اور دیگر اشیاء کے اسٹالز پر بھی رش دیکھنے میں آیا بالخصوص بلوچی ٹقافتی اشیاء سے مرصع اسٹال نے خصوصی توجہ حاصل کرلی تھی۔ اِس بیچ وہاں پر سروز و ساز کی بکھیرتی ہوئی محصور کُن اور سریلی دھنیں جیسے کانوں میں رَس گول رہے تھے۔
گْوادر بُک فیسٹیول کے دوسرے دِن وہاں کا آرٹ گیلری بھی ہر کسی کے توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا جہاں مختلف مصوروں اور فوگرافروں کے فن پارے اور تصاویریں سجا گئے تھے۔ مصوروں نے موسمیاتی تبدیلی، مخلتف موضوعات پر مبنی فن پارے اور نظاروں کی تصاویریں بناکر آویزاں کئے تھے جیسے یہ کوئی آرٹ گیلری نہیں بل کہ یہاں ایک الگ دنیا بسائی گئی ہے۔ آرٹ گیلری میں آویزاں فن پارے اور تصویریں دیکھنے والوں کو ورطہ حیرت میں ڈال ریے تھے۔ مصوروں اور فوٹوگرافروں نے اپنی اپنی کینوس اور کیمرے کی آنکھ میں اپنے غیر معمولی آرٹ کو قید کیا تھا۔ یہ فن پارے اور تصویریں فکر اور احساس کا امتزاج تھے جو مصوروں اور فوٹوگرافرز کی فنِ مہارت کو بیان کررہے تھے۔
گْوادر بُک فیسٹیول کے دوسرے دن مجموعی طورپر چھ سیشنز منعقد ہوئے۔ پہلا سیشن شبیر رخشانی کی میزبانی میں مباحثہ کتب بینی سے بے رخی اور نئی نسل کے موضوع پر منعقدہ ہوا۔ اِس سیشن کے مہمان اصغر رمضان، وہاب مجید، انیلہ یوسف اور برکھا بلوچ تھے جنہوں کتب بینی کی اہمیت اور افادیت پر گُفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کُتب بینی ایک بہترین مشغلہ ہے، کتب بینی کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، کتب بینی علم اور شعور کی سطح بلند کرتے ہیں۔ نوجوان نسل اپنے اندر کتب بینی کا شوق پیدا کریں۔ کتاب میلہ کُتب بینی کے رجحان میں اضافہ کرتا ہے۔
دوسرے سیشن میں بلوچی اور اُردو میں لکھی گئی دو کتابوں کی رونمائی کی گئی۔ بلوچی زبان کے معروف قلمکار اسحاق رحیم کی سفرنامہ کی کتاب "گنج آبادیں کیچ" کے عنوان پر لکھی گئی کتاب پر گُفتگو کرتے ہوئے بجار بلوچ کا کہنا تھا کہ گنج آبادیں کیچ محض ایک سفر نامہ نہیں بل کہ یہ مکُران کی تاریخ، تاریخی واقعات، ثقافتی ورثہ اور آثار قدیمہ کی بابت معلومات کی بہم فراہمی کی مستند کتاب ہے جسے اِسحاق رحیم نے بڑی عرق ریزی سے تحریر کیا ہے۔ اُردو زبان میں لکھی گئی کتاب کراچی کے مشہور مصنف رمضان بلوچ کی تصنیف "ایک لاپتہ شہر کا سراغ" پر کراچی کے معروف شاعر وحید نور اور ڈاکٹر جعفر احمد نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ رمضان بلوچ نے اِس کتاب میں کراچی کو تلاش کرنے کی جستجو کی ہے جو بہترین کاوش ہے جس سے نئی نسل کو آگاہی ملے گی۔ اِس سیشن کے نظامت کے فرائض اسلم تگرانی نے اداکیئے۔
تیسرے سیشن میں مرحوم میر عبدالغفور کلمتی کی یاد میں پروگرام منعقد ہوا۔ اِس مجلس کے مہمان میر عبدالغفور کلمتی کے فرزند سابقہ ایم پی اے میر حمل کلمتی اور خدابخش ھاشم تھے۔ جب کہ عبدالغفور کلمتی کے قریبی دوست عبدالرحیم ظفر کا ریکارڈ کیا گیا ویڈیو پیغام پیش کیا گیا۔ مہمانوں نے میر عبدالغفور کلمتی کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر گُفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میر عبدالغفور کلمتی ایک عوامی خدمت گزار اور بہترین سیاسی اور سماجی رہنماء گزرے ہیں جو بلا تفریق ہر ایک کی مدد میں پیش پیش رہے تھے۔ ادب وہ یا تعلیم کا فروغ یا عوامی خدمت وہ ہمیشہ اِس حوالے فکر مند رہے تھے اور آخری عمر تک وہ سیاسی، سماجی اور فلاحی کاموں میں کردار اداکرتے رہے۔ میر عبدالغفور کلمتی جیسی شخصیات کم پیدا ہوتے ہیں لیکن اُن کی سیاسی، سماجی اور عوامی خدمات کو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ پروگرام کی میزبانی ماجد سہرابی نے کی۔
چوتھے سیشن میں آرٹ اور ماحولیات (فن پاروں کی نمائش) میں نوجوان مصوروں اور فوٹوگرافروں کے فن پاروں اور تصویروں کی نمائش کی تقریب منعقد کی گئی۔ اِس تقریب کے مہمان خصوصی پاکستان کی معروف شاعرہ اور ادیب ڈاکٹر فاطمہ حسن تھیں۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات قابل اطمنان ہے کہ اِس دنیا کو بچانے کے لئے فن کار اپنا حصہ ڈال رہے ہیں جو اپنے فنِ تخلیق سے موسمیاتی تبدیلیوں اور دیگر مسائل کی نشاندہی کرتی ہیں۔ فنونِ لطیفہ کا یہ غیر معمولی مظاہر ہے جس سے ادب اور آرٹ مزید پھنپ رہی ہیں۔ اِس موقع پر اُنہوں نے موسمیاتی تبدیلیوں کو شعری اسلوب میں پیش کرنے کے لئے عطاء شاد کی نظم سنائی،
سیلاب کو نہ روکیے رستہ بنائیے
کس نے کہا تھا گھر لب دریا بنائیے
بعدازاں ڈاکٹر فاطمہ حسن نے فیتہ کاٹ کر مصوروں اور فوٹوگرافروں کے فن پاروں اور تصویروں کی نمائش کا افتتاح کیا۔ نمائش میں قادر الہی٬ صدف نظرت٬ آمنہ الہی٬ عصا واھگ٬ مدثر کریم اور اللہ بخش الیاس کے فن پارے اور تصویریں پیش کئے گئے۔
پانچویں سیشن میں بلوچی زُبان کے عظیم شاعر قاضی مبارک کے نام سے منسوب اُردو بلوچی مشاعرہ منعقد ہوا۔ یہ مشاعرہ جی ڈی اے پدی زِر پارک کی سبزہ زار پر منعقد کیا گیا جس میں اُردو اور بلوچی کے نامور شعراء نے اپنے کلام پیش کئے جب کہ نام ور بلوچی گلوکار خلیل سہرابی نے قاضی مبارک کے گیت گاکر سنائے جس نے مجلس پر سحر طاری کیا۔
چھٹا سیشن خواتین ٹائم (تھیٹر شو ل، مباحثہ) پر منعقد ہوا جس میں خواتین، طالبات اور بچوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی جو دیدنی تھی۔ خواتین ٹائم میں مختلف موضوعات پر مبنی مباحثے منعقد کئے گئے، مختصر دورانیے کے فلموں کی اسکریننگ کی گئی اور تھیٹر شو پیش کئے گئے۔ خواتین نے بک اسٹال پر گہری دلچسپی کا اظہار کیا اور وہاں سے بہت سے کتابوں کی خریداری بھی کی گئی۔
Comments
Post a Comment