گْوادر کا تاریخی "واچ ٹاور"
عبدالحلیم حیاتان
گْوادر میں قائم یہ واچ ٹاور تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ جب آپ شاھی بازار گْوادر میں چائے پینے کے لئے (کریمُک) ہوٹل اور گْوادر کی مشہور سوغات گوادری حلوہ خریدنے کے لئے خدابخش حلوائی کی دکان پر جائینگے تو یہ واچ ٹاور آپ کو نظر آئے گا۔ کریمُک ہوٹل گوادر میں موجود ایک قدیم چائے خانہ ہے اور خدابخش حلوائی کی دکان گْوادر شہر کی حلوے کی قدیم دکان کے لئے مشہور ہے۔
یہ واچ ٹاور مسقط سلطنت آف عمان کے دور کی نشانی ہے۔ 8 ستمبر 1958 سے قبل گْوادر مسقط سلطنت آف عمان کے زیرِ تسلط رہا تھا اور یہاں پر مسقط کے عرب حکمرانوں نے اپنی حکمرانی قائم کی تھی۔ گْوادر پر مسقط آف سلطنت عمان کی حکمرانی کا دور 17 صدی کے آخر سے جوڑا جاتا ہے۔
یہ وہ دور تھا جب مسقط کے ایک باغی شہزادے نے یہاں کا رُخ کیا تو اُس وقت کے خان آف قلات نے گُزر بَسر کے لئے گْوادر اُن کے حوالے کیا تھا کیوں کہ گْوادر ریاستِ قلات کا حصہ تھا۔
گمان کیا جاتا ہے کہ یہ واچ ٹاور 18 صدی میں تعمیر کیا گیا تھا جِس کا مقصد گْوادر کو کسی بھی بیرونی اور اندرونی یلغار سے بچانا تھا۔ کیوں کہ اُس زمانے میں پرتگیزی حملہ آوروں کے حملے کا اندیشہ بھی موجود تھا۔ پرتگیزی حملہ آور خلیج، فارس اور برِصغیر کے ساحل کو تاراج کرنے، لوٹ مار مچانے اور قبضہ گیری کے لئے یہاں کا رُخ کرتے تھے۔ بلوچ جنگجُو حمل جیہند کی پرتگیزیوں سے لڑائی اور مزاحمت بلوچ تاریخ کا حصہ ہے جسے بلوچی لوک داستانوں اور قدیم بلوچی کلاسیکل اشعار میں بیان کیا گیا ہے۔
داستانوں کے مطابق حمل جیہند نے پرتگیزیوں کو پسپا ہونے پر مجبور کیا لیکن بعد میں پرتگالیوں نے سمندر کی سیر پر نکلے حمل جیہند کو گرفتار کیا۔ روایت کے مطابق حمل جیہند کو گرفتار کرنے کے بعد پرتگالی اُنہیں گوا انڈیا لے جاتے ہیں۔ بندی بنانے کے بعد اُنہیں قتل کیا جاتا ہے۔
بلوچستان گزیٹیئر میں انگریز لکھتے ہیں کہ 16 صدی میں پرتگالی گْوادر شہر پر حملہ آور ہوئے تھے جنہوں شہر کو آگ بھی لگائی تھی۔ بعض مورخین کے مطابق گْوادر میں پرتگالیوں کے آثار بھی موجود ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہ واچ ٹاور معدومی کا شکار بنا لیکن اب جی ڈی اے گْوادر نے اِس کی بحالی کے لئے اِس کی دوبارہ مرمت کی ہے تاکہ یہ تاریخی اہمیت کا ورثہ قائم ریے۔
یہ واچ ٹاور اسماعیلی فرقہ کی عبادت گاہ (جماعت خانہ) کے عقب میں واقع ہے جِس کا شُمار گْوادر کی تاریخی ورثہ میں کیا جاتا ہے۔
Comments
Post a Comment