گْوادر کتاب میلہ اختتام پذیر ہوگیا
عبدالحلیم حیاتان
آر سی ڈی کونسل گْوادر کے زیرِ اہتمام جاری چار روزہ گوادر کتاب میلہ اپنی تمام تر رنگینیوں اور رعنائیوں کو سمیٹتے ہوئے اختتام پذیر ہوگیا۔ کتاب میلے میں ملک بھر سے ادیب، مصنفین اور دانشوروں نے شرکت کی۔ جاری چار روزہ کتاب میلے میں علم و ادب اور فن کے رنگ و نور نے اپنا خوب جلوہ دکھایا، اور علم و ادب کے متوالے اِس جلوے میں خُوب رنگتے رہے۔
گْوادر کتاب میلے کے اختتامی دِن کا افتتاحی سیشن گْوادر کے مشہور قلمکار جاوید حیات کی کتاب "کنارے کا مانجھی" کے رُونمائی کی تقریب سے کی گئی۔ کتاب پر بلوچی زبان کے ادیب علی واھگ نے تبصرہ کیا۔ مصنف نے خود بھی بات کی۔ سیشن کی میزبانی چندن ساچ نے اداکیئے۔
"موجودہ معاشی بحران اور پاکستان کے مُستقبل" کے عنوان پر پاکستان کے مشہور نیوکلیئر طبعیات دان و مفکر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے اپنا طائرانہ تجزیہ پیش کیا جسے حال میں موجود شرکاء نے بڑے انہماک سے سنا۔ اپنے تجزیہ میں ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا کہنا تھا کہ ملک میں گزشتہ 75 سالوں سے بے چینی اور اضطراب کی فضاء قائم ہے لیکن ہمیں معروضی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اِس سچائی سے منہ نہیں موڈنا چاہیئے کہ کوئی بھی ملک خیرات سے نہیں چل سکتا۔ ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا پڑے گا، تعلیم کو محض پروپگنڈہ کے طورپر استعمال کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے باقی دنیا سے مقابلے کے لئے تعلیمی ترجیحات وضع کرنی ہوگی۔ معاشی بحران اور ماحولیاتی تبدیلی پاکستان کے لئے بہت بڑے چیلنج ہیں۔ جنگ کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں۔ ملک میں ٹیکس اسٹرکچر کو ٹھیک اور سماجی انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔
"بلیو اکانومی، پائیدار ترقی اور ساحلِ مکران" کے عنوان پر سوشل سائنٹسٹ ڈاکٹر حفیظ جمالی اور ماہر سمَنْدریات ڈاکٹر نزہت خان نے یونیورسٹی آف گوادر کے پرو وائس چانسلر ڈاکٹر سید منظور احمد کی میزبانی میں موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ بلیو اکانومی پائیدار ترقی کے لئے بنیادی ماخذ کی حیثئت رکھتا ہے بالخصوص ساحلِ مکران میں اِس حوالے سے بہت پوٹیشنل موجود ہے اگر اس کو بلیو اکانومی کے پیشِ نظر فوقیت دیکر بروئے کار لایا جائے اور اہمیت دی جائے تو یہاں پائیدار ترقی کے کئی راستے کھلیں گے جس سے مقامی لوگوں کی بود باش اور روزگار میں اضافہ ہوگا۔
"نوکیں لچہ ءُ زبان ءِ جیڑہ" کے سیشن میں بلوچی زبان کے نامور ادیب ڈاکٹر غفور شاد اور چندن ساچ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ نوکیں لچہ (نئی نظم) کی تخلیق کو بلوچی زبان اور ادب کے لئے اہم قرار دیا۔ سیشن کی میزبانی ڈاکٹر اے آر داد نے کی۔
جس کے بعد کتاب میلے کی اختتامی تقریب منعقد کی گئی۔ تقریب کے مہمانِ خاص ڈاکٹر پرویز ہود بھائی تھے۔ اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے کہا کہ اِس سے پہلے تُربَت میں 35 لاکھ روپے کی کتابیں فروخت ہوئی تھیں اور اب گْوادر میں 19 لاکھ روپے کی کتابوں کا فروخت ہونا اِس بات کی غماز ہے کہ گوادر اور مکران علم و ادب سے وارفتگی رکھنے والوں کہ سرزمین ہے۔ یہاں اِس قدر علم و ادب سے جو دوستی کا رشتہ ہے باقی پاکستان اِس سے مانوس نہیں وہاں پر ہمیشہ بلوچستان کا اور صورت یا چہرہ دکھایا جاتا ہے لیکن یہاں کے لوگوں نے جس طرح سے علم و ادب کی محفل سجائی، اِس میں جوش و خروش سے حصہ لیا اور کتابیں خریدیں اصل میں یہی بلوچستان کا خوبصورت چہرہ ہے اور یہ اعزاز پاکستان کے کسی بھی شہر کو حاصل نہیں۔ یہاں کے لوگوں نے علم و ادب سے جو اپنا رشتہ بنائے رکھا ہے وہ اِس کے تسلسل کو جاری رکھیں اور اسے کمزور پڑنے نہ دیں کیونکہ کامیابی کا راستہ علم اور ادب کی طرف جاتا ہے۔
کتاب میلے میں چیف سیکریٹری بلوچستان عبدالعزیز عقیلی نے بھی شرکت کی اور خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہاں پر علم و ادب کے متوالوں کا ذوق دیکھکر اُنہیں انتہائی خوش گوار حیرت ہوئی۔ چیف سیکریٹری بلوچستان نے گوادر کتاب میلے کی گرانٹ دس لاکھ روپے سے بڑھا کر 20 لاکھ کرنے کا بھی اعلان کیا۔
چار روزہ گْوادر کتاب میلے میں ملک بھر سے 29 پبلیکیشنز اور بک سیلرز نے اپنے اسٹال لگائے تھے۔ اِس کے علاوہ 9 اور مختلف چیزوں کے اسٹال بھی کتاب میلے کی زینت بنے رہے جس میں پیٹنگز اور ثقافتی چیزوں کی نمائش کے اسٹال شامل تھے۔
گْوادر کتاب میلے کے منتظمین کے مطابق کتاب میلے میں مجموعی طورپر کتابوں اور پینٹنگز کی 19 لاکھ 60 ہزار روپے کی خریداری کی گئی۔
Comments
Post a Comment