Posts

Showing posts from December, 2022

سید نمدی

Image
  عبدالحلیم حیاتان  گوادر 13 اکتوبر 1959 قاضی! ترانگ اِت ِاے سِستگیں دلبند ءُ بندوکوں کتگ تئی زهیراں چہ وتی شومیں دل ءَ  سِنداں چتور  "قاضی آپ اب تک زندہ ہو؟ میں نے موت کو شکست دے دی ہے۔ لیکن آپ کی چاہت کے بغیر یہ زندگی بے جان ہے بَس آپ کا خط ہی اِس میں روح پھونک سکتا ہے۔ یہ ٹیلیگرام کیا بیان کرسکتا ہے۔ دِلوں کا زَنگ اُتارنے کے لئے مجلس کی ضرورت ہے۔ خط کا اِنتظار کریں"  یہ وہی ٹیلیگرام ہے جو میں نے بے چینی کے ساتھ ہجلت میں آپ کے خط کے جواب میں اَرسال کیا تھا۔ اُمید ہے کہ آپ تک پُہنچ چُکا ہوگا۔   قاضی! موت اور زندگی کی بے خوف کشمکش کے دوران ڈیڑھ سال تک زندوں میں شُمار نہیں رہا۔ اِس آزمائش کے بعد جب گھر واپسی ہوئی تو یہ بھی میرے لئے کوئی خاص بہتری کا موجب نہیں بنا اور بچھڑے ہوئے شخص کے دھکوں نے موقع ہی نہیں دیا کہ لاپتہ گُل کی تلاش میں نکلوں۔  دو مرتبہ گولی کھائے ہوئے زخم ابھی تک بھی تازہ ہیں کہ پھر: ناگمانی پمّن ناپاک ءَ سگارے درنزاِتگ ھون دوبر تیروارتگیں ٹپاں چہ، نودی شنزاِتگ  چار سال بیت جانے کے بعد آپ نے خوبصورت سلام ایک قیمتی خط کے ذریعے ا...

گْوادر: قطر فیفا عالمی فٹبال ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کا جنون

Image
  عبدالحلیم حیاتان   قطر میں جاری فیفا عالمی ورلڈ کپ فٹبال ٹورنامنٹ کا میلہ اپنی تمام تر رنگینیوں اور رعنائیوں کو سمیٹ کر اختتام پزیر ہوگیا ہے۔ اعداد و شمارے کے مطابق عالمی ورلڈ کپ فٹبال ٹورنامنٹ کا آغاز 1930 سے ہواتھا اور یہ اب تک کے عالمی ورلڈ کپ فٹبال ٹورنامنٹ کا 22 واں مقابلہ تھا۔ فٹبال عالمی کپ کے حصول کے لئے دنیا بھر سے 32 فٹبال ٹیموں نے کوالیفائی کرکے اس میں شرکت کی۔ یہ پہلی بار تھا کہ فٹبال عالمی کپ ٹورنامنٹ کے مقابلے کسی خلیجی ملک یعنی قطر میں منعقد کیا گیا تھا۔ لیکن قطر کی فٹبال کے عالمی کپ ٹورنامنٹ کے مقابلوں کی میزبانی نے دنیا بھر کو حیران اور ششدر کردیا۔ گیس کی دولت سے مالا مال قطر نے فٹبال کے عالمی کپ کے مقابلوں کی میزبانی کے تقریباً تمام ریکارڈ توڑ دیئے جس کی نظیر شاید ہی ملے۔  فٹبال دنیا کا سب سے مقبول ترین کھیل ہے دیگر کھیلوں کے مقابلے میں فٹبال کھیل کے مداح دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔ جہاں دنیا فٹبال کے عالمی کپ ٹورنامنٹ کے مقابلے جوش و خروش سے دیکھتی ہے وہی پر یہ مقابلے بلوچ علاقوں میں بھی پوری تیاری کے ساتھ دیکھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کراچی کا مرد...

بلوچی افسانہ: دل تیرے لئے سوچتا ہے

Image
  بلوچی: ماھل بلوچ مترجم: عبدالحلیم حیاتان  یہ سرد موسم کی ایک رات تھی۔ چلنے والی ٹھنڈی اور تیز ہواؤں نے لوگوں کو اپنی طرح بنایا ہواتھا۔ یہ شال کی ایک رات کا نظارہ تھا۔ دراصل میں ڈاکٹری پڑھنے شال آئی تھی لیکن اُس وقت میں اپنے چچا کے گھر دو دن کی چھٹی گزارنے آئی تھی۔ میری چچا زاد بہن کا مہمان خانہ بس ایک ہی تھا جس میں ہم دونوں سوئے تھے۔ میری چچازاد بہن میری بہترین سہلیوں میں سے ایک تھی۔ میرا ہمراز، ھم خیال اور ہم، ہم عصر بھی تھے۔ ہم دونوں بی ایم سی کے طالب علم تھے۔ میرا نام طاہرہ اور اُس کا نام ساجدہ ہے۔   ہاں! اُس رات میں نے اپنی بات ادھوری چھوڑی تھی۔ اُس رات، رات کے تین بج رہے تھے کہ ہمارے مہمان خانہ کی فون کی گھنٹی بجنا شروع ہوگئی، میری سہیلی  فون اٹھانے کے بعد مجھے بلاتی ہے۔   طاہرہ! آجائیں تمھارا فون ہے۔ زاہد بلا رہا ہے۔ میںں یادوں کے دریچوں میں کھوگئی۔ ہاں! زاھد ایک غریب بچہ تھا اور وہ ہمارا ہمسایہ تھا۔ زاھد ایک ذہین نوجوان تھا۔ وہ ہمیشہ درس و تدریس میں دلچسپی لیتا، پتہ نہیں وہ کیسے میری زلفوں کا اسیر بن گیا۔ میرے لئے رشتہ کی بات لائی گئی، ہمارے گ...