بلوچی افسانہ: دل تیرے لئے سوچتا ہے
بلوچی: ماھل بلوچ
مترجم: عبدالحلیم حیاتان
یہ سرد موسم کی ایک رات تھی۔ چلنے والی ٹھنڈی اور تیز ہواؤں نے لوگوں کو اپنی طرح بنایا ہواتھا۔ یہ شال کی ایک رات کا نظارہ تھا۔ دراصل میں ڈاکٹری پڑھنے شال آئی تھی لیکن اُس وقت میں اپنے چچا کے گھر دو دن کی چھٹی گزارنے آئی تھی۔ میری چچا زاد بہن کا مہمان خانہ بس ایک ہی تھا جس میں ہم دونوں سوئے تھے۔ میری چچازاد بہن میری بہترین سہلیوں میں سے ایک تھی۔ میرا ہمراز، ھم خیال اور ہم، ہم عصر بھی تھے۔ ہم دونوں بی ایم سی کے طالب علم تھے۔ میرا نام طاہرہ اور اُس کا نام ساجدہ ہے۔
ہاں! اُس رات میں نے اپنی بات ادھوری چھوڑی تھی۔ اُس رات، رات کے تین بج رہے تھے کہ ہمارے مہمان خانہ کی فون کی گھنٹی بجنا شروع ہوگئی، میری سہیلی فون اٹھانے کے بعد مجھے بلاتی ہے۔
طاہرہ! آجائیں تمھارا فون ہے۔ زاہد بلا رہا ہے۔
میںں یادوں کے دریچوں میں کھوگئی۔ ہاں! زاھد ایک غریب بچہ تھا اور وہ ہمارا ہمسایہ تھا۔ زاھد ایک ذہین نوجوان تھا۔ وہ ہمیشہ درس و تدریس میں دلچسپی لیتا، پتہ نہیں وہ کیسے میری زلفوں کا اسیر بن گیا۔ میرے لئے رشتہ کی بات لائی گئی، ہمارے گھر والے سمجھدار تھے۔ وہ بلے ذات پات سے ہم سے کم تر تھے۔ لیکن اِس کے باوجود ہمارے گھر والوں نے اُن پر زیادہ زور نہیں دیا بس صرف سرکاری نوکری حاصل کرنے کی شرط رکھی گئی۔
اِس دوران میرا زاھد سے کبھی بھی سامنا نہیں ہوا تھا۔ لیکن ہمارے درمیان خطوط کا سلسلہ جاری تھا اور خط میں تحریر ہوتا کہ آج نہیں کل، کل نہیں پرسوں مجھے ملازمت مل جائے گی، میں اور تم ایک ہوجائینگے۔ اِس امید پر ہماری محبت پروان چڑھ رہی تھی جو ختم ہونے والا نہیں تھا۔ ہماری محبت پاکیزہ محبت تھی جو بیاہ کے دھاگوں سے بندھی ہوئی تھی۔ ہمارے مگننی کو پانچ سال بیت چکے تھے۔
ہمارے گھر والوں کے صبر کا پیمانہ بھی جواب دے رہا تھا لیکن اچانک زاھد لاپتہ ہوگیا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ اپنی طاہرہ سے مکمل طور سے فراموش ہوگیا تھا۔ میں شب و روز ساجدہ سے زاھد کی محبت کی باتوں سے اپنا دھیان لگائے بیٹھی تھی کہ زاھد کب لوٹے گا اور مجھے اپنا دلہن بنائے گا۔ زمستان کی اِس ٹٹرتی سرد راتوں میں کہ جس کی شدت سے پرندے گھونسلوں میں مرجائیں، یہ زاھد کیوں فون کررہا ہے۔ ساجدہ میرا دھیان خیالوں کے سمندر سے نکال کر میری توجہ زاھد کی فون کی طرف لے گئی۔
ھیلو طاہرہ! میں جانتا ہوں کہ تم نے اپنے دل میں مجھے پے پناہ محبت سے نوازا ہے اور اب تک بھی دینے کی کوشش کررہی ہو۔ لیکن آئیں اِس پاکیزہ محبت کی داستان کو دنیا میں ہی تمام کردیں۔ ہوسکتا ہے اگلے جہاں میں خدائے پاک ہم دونوں کو پھر سے ملائے۔ یہ ہماری سرزمین اور یہ ہم سے اپنے قرض چھکانے کا تقاضا کررہی ہے۔ ہم اپنے مادر وطن کے قرض دار ہیں۔ بدخواہوں نے اسے اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ معاشرہ ہر طرف سے انگاروں میں گرا ہوا ہے۔ ہمے ہر شب آواز دے کر بلاتی ہے "آو میرے بیٹوں! مجھے بدخواہوں سے بچھاکر آزاد کرلو" اب تم بتاؤ کہ وہ کون سا غیرت مند بیٹا ہے جو خود خوشی منائے، عروسی جوڈا پہنے اور اُس کی ماں قید میں رہے؟۔ اس طرح کسی بھی بیٹے کو زیب نہیں دیتا۔ اِس لئے میں اپنی حیاتی میں تجھ سے معافی چاہتا ہوں۔ تم اپنے لئے کوئی اور کل تلاش کرسکتی ہو۔
زاھد فون رکھ چکا تھا لیکن میں اب تک فون کانوں میں لگائے بیٹھی تھی۔ میں حیران ہوکر دل میں سوچ رہی تھی اور میرا دل کہہ رہا تھا کہ تیرے سوا دوسرا میرا کفن ہی ہوگا۔ جب تک سرزمین آزاد نہیں ہوتا مجھ پر بھی شادی کی خوشیاں حرام ہونگی۔
بحوالہ: ماھتاک بلوچی دسمبر 2009
بشکریہ: باسک ڈاٹ کام
Comments
Post a Comment