Posts

Showing posts from June, 2022

بلوچی افسانہ: بیر گیر

Image
 بلوچی افسانہ: بیر گیر  تحریر:    یونس حسین مترجم:  عبدالحلیم حیاتان  دفتر پہنچتے ہی چپڑاسی نے مجھے اطلاع دی کہ ایک بوڑھا شخص گزشتہ ہر روز یہاں آکر آپ کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ کل پھر آئے۔ میں ہر روز اُس بوڑھے شخص کے آنے اور جانے کی بات دفتر میں سُن رہا تھا۔ اِس صورتحال نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا۔ پھر میں نے یہ ٹھان لی کہ میں وقتی دفتر  جاؤنگا۔ دفتر پہنچنے کے بعد زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ چپڑاسی نے اطلاع دی کہ وہ بوڑھا شخص آیا ہے۔ بوڑھا شخص دفتر میں داخل ہوتا ہے۔ میں اُسے پہچان گیا۔ میرا اِس بوڑھے شخص سے شناسائی کے پیچھے ایک درد بھری داستان وابستہ تھی۔ اُس کے پہناوے سے میں نے یہی اندازہ لگایا کہ یہ آجکل مالی مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد جب اُسے اطمنان ہوا کہ اس کی باتیں کوئی اور نہیں سن رہا ہے تو کہنے لگا "میں چار پانچ دن سے لگاتار آپ کے دفتر آرہا ہوں۔ بی بی ناز بہت شرمندہ ہیں۔ آپ سے ملنا چاہتی ہے"۔ بی بی کا نام سُنتے ہی میری طبعیت پر ناگواری گزرنے لگی، وہ بات کو آگے بڑھانے ہی والا تھا کہ میں نے اسے مزید بات کرنے...

تُمپ گوں ھَشیمیں گواتگِراں (آخری قسط)

Image
  بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم  ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان  ہم دازن کے قصبے سے جنوب کی طرف تربت تا مند روڑ سڑک پر جاریے تھے۔ آگے کا علاقہ "آزیان" ہے۔ آزیان تمپ کا آخری گاؤں ہے۔ اِس گاؤں کے بعد پھر مند کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔ آزیان کے لفظی معنی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ  "آپ زَیان" سے نکلا ہے۔ بنیادی طورپر یہ یہاں پر پانی کے کچھ "زئے" تھے۔ آپی زئے اس پانی کو کہتے ہیں جو پہاڑوں سے ہوکر زمین سے نکلتی ہے۔ یہاں پر ایک زمانے میں آپی زئے موجود تھا جس کی وجہ سے اِس جگہ کا نام آپ زیان پڑ گیا جو بعد میں بگڑ کر "آزیان" بن گیا۔   اِس علاقے کی موجودہ آبادی کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہاں کے لوگ بنیادی طورپر گومازی سے تعلق رکھتے ہیں جو وہاں سے نقل مکانی کرکے یہاں آکر آباد ہوگئے۔ آزیان کے لوگوں کے مطابق اِس علاقے کی اراضیات کی بنیادی ملکیت سردار مولداد گچکی کے پاس رہی تھی۔ میر مولداد گچکی نے یہ زمین انہی لوگوں کو دیئے تھے۔ یہاں پر معتبر شیرو نے ایک کاریز نکالی اور اپنے لوگوں کے ساتھ مل کر کاشت کاری شروع کی۔ لیکن اب کے زمانے میں یہ کاریز موجود نہیں جو طوفان کی وجہ سے...

تُمپ گوں ھَشیمیں گواتگِراں (تئیسویں قسط)

Image
  بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان  (تئیسویں قسط)  ہمیں تُمپ کا قلعہ دیکھنا تھا لیکن دوستوں نے بتایا کہ آج کل قلعہ پر سیکورٹی اداروں کا کیمپ قائم کیا گیا ہے جہاں داخلہ کی اجازت نہیں ہے۔ تاہم دنیا کے دیگر ممالک میں اِس طرح کے قلعہ اور دیگر ثقافتی ورثے کی حامل مقامات اور نشانیاں آثار قدیمہ کا حصہ بنائے گئے ہیں جن کو دیکھنے کے لئے دنیا بھر سے لوگ وہاں جاتے ہیں۔ لیکن افسوس ہم اپنے تاریخی اہمیت کی حامل مقامات اور نشانیوں کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔  دازن:  ہم تُمپ دیکھنے کے بعد تُمپ سے مند کی طرف روانہ ہوئے۔ تُمپ سے مغرب کی سمت میں دازن کی آبادی واقع ہے۔ اِس گاؤں کے نام سے ظاہر ہے کہ یہاں پر داز یعنی مزری کے درخت کثرت سے اگتے تھے اِس لئے اِس گاؤں کا نام "دازن" پڑگیا۔ کہتے ہیں کہ اگر قدیم زمانے میں اگر کوئی تُمپ کے قلعہ پر کھڑے ہوکر اطراف کا نظارہ کرتا تو وہاں سے ہر طرف پھیلے ہوئے مزری کی درختوں کو بخوبی دیکھ سکتا تھا۔  دازن کی ندی پر آباد اِس گاؤں میں زمانہ قدیم سے لوگ آباد ہیں۔ اِس وقت دازن کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے اور یہ مشرق کی طرف پھیل کر تُمپ ...