تُمپ گوں ھَشیمیں گواتگِراں (آخری قسط)
بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم
ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان
ہم دازن کے قصبے سے جنوب کی طرف تربت تا مند روڑ سڑک پر جاریے تھے۔ آگے کا علاقہ "آزیان" ہے۔ آزیان تمپ کا آخری گاؤں ہے۔ اِس گاؤں کے بعد پھر مند کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔ آزیان کے لفظی معنی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ "آپ زَیان" سے نکلا ہے۔ بنیادی طورپر یہ یہاں پر پانی کے کچھ "زئے" تھے۔ آپی زئے اس پانی کو کہتے ہیں جو پہاڑوں سے ہوکر زمین سے نکلتی ہے۔ یہاں پر ایک زمانے میں آپی زئے موجود تھا جس کی وجہ سے اِس جگہ کا نام آپ زیان پڑ گیا جو بعد میں بگڑ کر "آزیان" بن گیا۔
اِس علاقے کی موجودہ آبادی کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہاں کے لوگ بنیادی طورپر گومازی سے تعلق رکھتے ہیں جو وہاں سے نقل مکانی کرکے یہاں آکر آباد ہوگئے۔ آزیان کے لوگوں کے مطابق اِس علاقے کی اراضیات کی بنیادی ملکیت سردار مولداد گچکی کے پاس رہی تھی۔ میر مولداد گچکی نے یہ زمین انہی لوگوں کو دیئے تھے۔ یہاں پر معتبر شیرو نے ایک کاریز نکالی اور اپنے لوگوں کے ساتھ مل کر کاشت کاری شروع کی۔ لیکن اب کے زمانے میں یہ کاریز موجود نہیں جو طوفان کی وجہ سے تباہ ہوا ہے جس کے بعد دوبارہ اِس کی مرمت نہیں کی گئی ہے۔ آزیان کے لوگوں کی بڑی تعداد خلیجی ممالک میں برسرِ روزگار ہیں۔ اب یہاں پر زمینداری نہ ہونے کے برابر ہے۔
آزیان میں تقریبا 50 کے قریب گھر قائم ہیں۔ یہاں پر ایک سرکاری پرائمری اسکول بھی موجود ہے۔ سرکاری حدبندی کے مطابق آزیان کا علاقہ دازن کے ساتھ شامل ہے یعنی یہ الگ سے کوئی وارڈ نہیں ہے۔ آزیان سے آگے پہاڑی سلسلہ شروع ہوتا ہے جہاں قدیم آبادی کے آثار اور نشانیاں بھی ملتی ہیں۔ اِس مقام کو کلاتُک کہتے ہیں۔ یہاں پر بہت سے پرانی قبریں بھی موجود ہیں۔ یہاں پر کچھ چاردیواریوں کے آثار بھی موجود ہیں۔ قبروں اور چاردیواریوں کی آثار سے معلوم پڑتا ہے کہ یہاں پر ایک زمانے میں آبادی موجود ہوا کرتی تھی نہیں معلوم کہ بعد میں یہ آبادی کس بناء پر نقل مکانی پر مجبور ہوکر معدوم ہوگئی۔
آزیان کے سامنے "تولیدر" اور "ناگی دَر" کی ندیاں بہتی ہیں اور یہی سے تُمپ کے حدودات کا اختتام ہوتا ہے۔ آگے مند کے ندیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ ناگی در کی ایک کہانی ملا فاضل سے منسوب ہے۔ یہ کہانی فقیر شاد نے ملا فاضل کی تحقیقی کتاب "درپشوکیں سُہیل" میں یوں تحریر کیا ہے۔
"ایک دفعہ ملا فاضل اور ملا قاسم کجھور کے سیزن میں آزیان کے قریب واقع نشیبی علاقہ "ناگی در " میں اپنے ذاتی کام کے سلسلے میں جاتے ہیں۔ رستے میں اُن کو بھوک لگتی ہے جہاں وہ ایک کھجور کے باغ میں پہنچتے ہیں۔ دونوں وہاں دیکھتے ہیں کہ ایک مرد کھجور کے درخت پر چڑھ گیا ہے اور نیچے اُس کی بیوی کجھور اکھٹے کررہی ہے۔ یہ دونوں بھائی وہاں کھجور کے درخت کے پاس جاکر بیٹھ جاتے ہیں تاکہ میاں اور بیوی اُن کو کھجور تناول کرنے کی پیشکش کریں لیکن بہت ٹائم گزرجانے کے باوجود دونوں بھائیوں کو کھجور تناول کرنے کی پیشکش نہیں کی جاتی۔ میاں بیوی اپنے کام میں مگن تھے۔
اب ملا فاضل سمجھتا ہے کہ یہ دونوں میاں اور بیوی ان کو کجھور کھلانے والے نہیں۔ آخر کار یہ دونوں بھائی مزید انتظار کرنے سے عاجز آتے ہیں۔ تب ملا فاضل میاں اور بیوی دونوں کو مخاطب کرنے کے لئے موقع پر ہی ان کے لئے یہ شعر کہہ دیتے ہیں:
مُلکے ادا ناگی در اِنت
مَردے ھمے مَچّ ءِ سر اِنت
جَن نِشتگ ءُ مرد کِینّ در اِنت
ناہ اِش نہ دات کہ ما بُوریں
جَنتیں ھَرَزے ما مِریں
بِلّے کہ مئے ھون ئے پِری
یہ تیز و تند اشعار سننے کے بعد میاں اور بیوی کے قمیض پر جیسے آگ لگتی ہے۔ میاں بیوی دونوں کو معلوم پڑتا ہے کہ یہ شخص ملا فاضل ہے جسے ہم نے کجھور تناول کرنے کی پیشکش نہیں کی ہے۔ بیوی جلدی سے کھجور اکھٹے کرکے ان کو پیش کرتی ہے جبکہ اُس کا شوہر دونوں بھائیوں سے معذرت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہمیں معاف کریں ہم نے آپ لوگوں کو نہیں پہچانا"۔ (فقیرشاد درپشوکیں سُہیل تاکدیم 136 چاپ 2103)
ناگی در اور تولیدر کے ندیوں پر پہنچنے کے بعد تُمپ کا سفر اختتام کو پہنچتا ہے لیکن میرا یہ سفر آگے بھی جاری رہے گا کیونکہ مجھے مند کا بھی سفر کرنا ہے اور مند کو دیکھنا ہے۔ اِس سفر میں، میں نے تُمپ میں جو دیکھا اور اِسے محسوس کیا وہ وہاں کے بلوچوں کی اپنائیت اور مہمان نوازی تھی۔ یہاں کے بلوچ نا مساعد حالات کے باوجود اپنی روایات اور ثقافت کو مضبوطی سے تھاما ہوئے ہیں جو اپنے مہمانوں اور لوگوں کے لئے بڑی چاہت رکھتے ہیں۔ دوسری طرف وقت کے حکمرانوں کے ظلم اور جبر بھی برقرار ہیں۔ پسماندگی ہے۔ بنیادی سہولیات ناپید ہیں۔ بلوچ کسمپرسی کا شکار ہے۔ بے روزگاری ہے اور وہ نشہ کے چنگل میں جھکڑا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود زندگی سے مایوس نہیں اور ایک بہتر مستقبل کے لئے پر اُمید نظر آتا ہے۔
ختم شد۔
Comments
Post a Comment