بلوچی افسانہ: بیر گیر
بلوچی افسانہ: بیر گیر
تحریر: یونس حسین
مترجم: عبدالحلیم حیاتان
دفتر پہنچتے ہی چپڑاسی نے مجھے اطلاع دی کہ ایک بوڑھا شخص گزشتہ ہر روز یہاں آکر آپ کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ کل پھر آئے۔ میں ہر روز اُس بوڑھے شخص کے آنے اور جانے کی بات دفتر میں سُن رہا تھا۔ اِس صورتحال نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا۔ پھر میں نے یہ ٹھان لی کہ میں وقتی دفتر جاؤنگا۔ دفتر پہنچنے کے بعد زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ چپڑاسی نے اطلاع دی کہ وہ بوڑھا شخص آیا ہے۔
بوڑھا شخص دفتر میں داخل ہوتا ہے۔ میں اُسے پہچان گیا۔ میرا اِس بوڑھے شخص سے شناسائی کے پیچھے ایک درد بھری داستان وابستہ تھی۔ اُس کے پہناوے سے میں نے یہی اندازہ لگایا کہ یہ آجکل مالی مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد جب اُسے اطمنان ہوا کہ اس کی باتیں کوئی اور نہیں سن رہا ہے تو کہنے لگا "میں چار پانچ دن سے لگاتار آپ کے دفتر آرہا ہوں۔ بی بی ناز بہت شرمندہ ہیں۔ آپ سے ملنا چاہتی ہے"۔
بی بی کا نام سُنتے ہی میری طبعیت پر ناگواری گزرنے لگی، وہ بات کو آگے بڑھانے ہی والا تھا کہ میں نے اسے مزید بات کرنے کا موقع نہیں دیا اور اُس سے کہنے لگا۔
ناکو! یہاں سے چلے جائیں۔ اور بہتر یہی ہوگا کہ دوبارہ یہاں مت آئیں۔
پھر بی بی سے کیا کہوں؟۔
اُس سے کہنا کہ میں نے تم کو اپنے دفتر سے نکالا ہے۔ وہ خاموش ہوگیا۔ اُس نے اپنی نگاہ میری طرف کئے مگر اُس کے چہرے پَر پُژ مردگی کے اثرات بھی نمایاں تھے۔
سُنتے ہو میں نے کیا کہا؟۔
اُس نے اَثبات میں اپنا سر ہلایا۔ اور کہنے لگا جی۔ وہ ناامید ہوکر دفتر سے چلا جاتا یے۔
آخر بی بی مجھ سے کیوں ملنا چاہتی ہے؟
اُس روز جب میں نے اپنا دل اُسے پیش کیا تو اُس نے میری محبت کو ٹھکرایا تھا۔ شاید پھر سے پُرانے زخموں کو کریدنا چاہتی ہے؟۔
نہیں۔ کبھی بھی نہیں۔ اَب میں اُس کے دھوکے میں نہیں آؤنگا۔ اَب میں نے اپنا رستہ تبدیل کیا ہے۔ اُس دن وہ پیسوں کا مطالبہ کررہی تھی۔ میں گَنگال تھا۔ آج جب میں صاحبِ مال بن گیا ہوں، شاید اُسے اِس چیز کی خبر ہوگئی ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ لوگ دُولت کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ اُس کی محبت میری قسمت میں نہ تھی۔ اُس نے میرے ساتھ بہت برا سُلوک کیا تھا۔ میں اُس دن کو کبھی بھی بھلا نہیں سکتا۔
اُف خدایا! ناکو نے پِھر سے وہ پرانی یادیں تازہ کئے۔ مجھے شراب نُوشی کی طلب ہورہی تھی۔ شراب کی بوتل میرے سامنے پڑی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے اُس دن بھی میں بڑی مقدار میں شراب پی گیا تھا اور لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا اِتنی زیادہ مئے نوشی تمھاری جان لیکر ہی چھوڑے گی۔
انسان تجربوں سے سیکھتا ہے۔ بی بی میری زندگی کا ایک خوفناک تجربہ گزری ہیں۔ جوانی میں شاذر و ناذر ہی کوئی منہ زور گھوڑی کی لگام تھام سکتا ہے۔ بی بی کے حسن و جمال نے مجھے اندھا بنا دیا تھا۔ بی بی کی مسکراہٹوں کے پیچھے میری محبت کی میت کو غسل دیا جارہا تھا اور میں نادان مہندی کے بیج بو رہا تھا۔
پتہ نہیں میں دیوانوں کے کس درجہ میں شُمار ہورہا تھا۔ مجھے اپنے آپ پر ہنسی بھی آرہی تھی۔ کبھی کھبار دل ہی دل میں کہتا رہا کہ اگر میرے والد سُونار نہ ہوتے تو بی بی سے میری پہچان نہیں ہوتی۔ والد کے دکان کو بھی میں نے دیوالیہ کیا۔ خدا کا شُکر ہے کہ مجھے یہ ٹھوکر بہت جلد لگی۔ وہ بد بخت یہی سمجھ رہی ہے تھی کہ میں پھر اس کے دام میں آؤنگا۔ اُس کی سوچ کو آفرین ہے۔
اِن پانچ سالوں میں، میں نے چار شہر تبدیل کئے۔ اُنہوں نے مجھے یہاں بھی ڈھونڈ لیا۔ نہیں۔ نہیں۔ میں دھوکے میں نہیں آؤنگا۔ اب میں اُسے اچھی طرح پہچان گیا تھا۔
اُف! میں نے لیلٰی کو نہیں بتایا کہ بی بی نے مجھے یہاں بھی ڈھونڈ لیا ہے۔
ھیلو۔ لیلٰی میں۔
ھاں۔
بُری خبر ہے۔
اللہ خیر۔ کیا ہوا؟۔
اِدھر بھی پہنچی ہے۔
تمھارے پاس بیٹھی ہے؟۔
نہیں۔ اُس کا قاصد آیا تھا۔
وہ مجھ سے ملنا چاہتی ہے۔
کیا تم نے شراب پی رکھی ہے؟۔
پِھر کیا کروں؟۔
دفتر میں شراب مت پئیں۔
میں بہت پریشان ہوں۔ ایک منٹ میں گھر آرہا ہوں۔
اُدھر ہی رہیں۔
میں تمھیں لینے کے لئے کسی کو بھیجتی ہوں۔
لیلی میرا خون جو ہے۔ وہ میرا کَزن ہے۔ وہ فون پر بھی محسوس کررہی تھی کہ میں پریشان ہوں اور میں نے شراب بھی پی ہے۔ لیلیٰ میرے ہر رنج و غم سے واقف تھی۔ لیکن ایک وہ تھی جس کے گھر کی چھوکٹ پر میں اپنا سر رکھکر سوتا رہا مگر وہ کسی اور کے بانہوں میں سورہی تھی۔ قسم اور وعدوں کی خوشبو کپڑے کی طرح میرے سینے پر مل دیئے گئے تھے۔ میری آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھی گئی تھی جس پر اُس کی تصویر سجھائی گئی تھی۔
داد محمد میرے پاس آیا۔ اُس نے ایک چھٹی لاکر مجھے پیش کی اور کہا یہ چِھٹی ایک عورت دیکر گئی ہے۔ گھر تک پہنچتے پہنچتے میری زبان پر یہی الفاظ تھے۔ بی بی جھوٹ بول رہی ہے۔ وہ اِس طرح بدل نہیں سکتی۔ وہ ضرور مجھے دھوکہ دینے کے چکر میں ہے۔
میں نے چھٹی لیلیٰ کی طرف بڑھایا۔
بی بی نے دیا ہے۔
کیا کہتی ہے؟۔
کہہ رہی ہے کہ میں باتیل پر تمھارے انتظار میں کھڑی ہوں۔ اگر تم نہیں آئے تو میں وہاں سے کھود جاؤنگی۔
جاکر اسے مل لو۔
نہیں۔ تم اِن مکاروں کو نہیں جانتی۔
اگر وہ کھود جائے پھر؟۔
جھوٹ۔ اِس کی زبان۔۔۔۔۔ میں اسے بخوبی جانتا ہوں۔
ہر بات کو جھوٹ مت سمجھیں۔ جاؤ جاکر مل لو کیا کہتی ہے۔
تم اُس کی طرف داری کیوں کررہی ہو؟۔
میں اس کی طرف داری نہیں کررہی۔
تم نے بہت شراب پی رکھی ہے۔
تم ہوش میں نہیں ہو۔
نہیں۔ میں پہلے ہی سانپ کا ڈسا ہوں۔
اب مجھے رسی سے بھی ڈر لگنے لگا ہے۔
وہ تو ناگن ہے۔
ڈرو مت۔ میری نیک تمنائیں تمھارے ساتھ ہیں۔
تمھاری ہمددری اِس کے کسی کام نہیں آنے والی۔
وہ بھی میری طرح ایک عورت ہے۔
وہ عورت نہیں۔ ایک ڈائن ہے۔
وہ میرے دولت کے پیچھے یہاں آئی ہے۔
اگر تم اُس کو اس قدر جانتے ہو۔ تو اپنے آپ پر بھروسہ رکھو۔
اب تم دھوکہ نہیں کھاؤگے۔
ھاں۔ اب میں دھوکہ نہیں کھاؤنگا۔
پھر ڈر کیسا۔ جاؤ اور اِس کو اپنی باتیں سناؤ۔
ہاں۔ میں جا رہا ہوں۔
جب میں باتیل کی چوٹی پر پہنچا۔ وہ وہاں پر میرے انتظار میں کھڑی تھی۔ اس کا دوپٹہ اس کے سر سے کب سے سرک چکا تھا۔ اس کے سر کے بال اُس کے چہرے پر بکھرے ہوئے تھے۔ اس کے ہونٹوں پر خشکی پھیلی ہوئی تھی اور ایسا گمان ہورہا تھا کہ یہ اس ندی کی طرح پیاسا ہے جہاں سالوں سے پانی نہیں آیا ہے۔
نہیں۔ نہیں۔ ترس مت کھائیں۔ اِس سے پہلے بھی وہ اِس طرح کا ناٹک کرکے تم کو اپنے دام میں پھنسا چکی ہے۔ میں اگے بڑھا لیکن لڑکڑا کر گرگیا۔ میں اب بھی نشہ میں تھا۔
میں اس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔ میں نے اپنی آنکھیں اس کے آنکھوں میں ملائے۔ وہ مجھ سے آنکھیں ملانے کی ہمت نہ کرسکی اور میرے پاؤں پکڑ کر رونے لگی۔
مجھے معاف کرو۔
میں نے تم جیسے دلربا شخص سے بے وفائی کی ہے۔
تم سے بے وفائی کے انجام نے مجھے اس حال تک پہنچایا ہے۔
صرف ایک بار کہو میں نے تم کو معاف کیا ہے۔
صرف ایک بار۔
چائے پھر اس کے بعد میرے چہرے پر تھوکنا بھی مت۔
میں نے زور سے اُس کے پراندہ پکڑے اور اُس سے کہنے لگا۔ تمھیں یاد ہے اُس دن جب میں نے تمھارے سامنے ہاتھ جوڈ کر کہا تھا کہ چلیں کسی اور شہر میں بس جاتے ہیں۔ لیکن تم نے میرا مذاق اڑایا۔ اس وقت تمھارا دِل عمر رسیدہ ھارون پر فریفتہ ہوگئی تھی۔ اِس سینے میں دھڑکنے والا دل جو تمھارا حقیقی چاہنے والا تھا تم نے اِسے چکھنا چور کردیا۔
خدارا مجھے طعنے مت دو۔ مھجے ماضی یاد مت دلاؤ۔ وہ شہر میں صرف تمھارے لئے چھوڑکر آرہی ہوں۔
چپ ہوجا!۔ تم کو خبر ہوگئی ہے کہ میں دولت مند بن گیا ہوں۔یہ لالچ تم کو یہاں کھینچ کر لائی ہے؟
نہیں!۔ واللہ کہ نہیں۔
تم کو پتہ ہے اِس وقت میرے پاس تین گاڑیاں موجود ہیں۔ میرے پاس بے تحاشا پیسہ بھی ہے۔ اگر میں چاہوں تو تم جیسی کئی لڑکیوں کو اپنا غلام بنا سکتا ہوں۔ لیکن تم۔۔۔۔ تم۔۔۔۔ غلامی کے بھی لاحق نہیں۔ تمھیں پتہ ہے؟۔ تمھاری یادوں کو میں نے اپنے دل سے نکال دیا ہے وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ تم سے زیادہ حسین ہے، میری منگیتر۔ اگلے مہینے ہماری شادی ہونے والی ہے۔
میری منگیتر کا شکریہ اداکریں۔ اسی کے کہنے پر میں یہاں تم سے ملنے آیاں ہوں۔ تم تو میرے لئے اس دن سے مرگئی تھی جب تم نے میری محبت کی توہین کی۔
تم درست کہے رہے ہو۔ میں اُس دن سے مرگئی تھی۔ میں نے تمھاری کمی اُسی دن سے محسوس کی تھی۔ اگر میں راتوں کو سورہی تھی تو میرے خوابوں میں صرف تم دکھتے تھے۔ تمھارے سَر کی سوگند کھاتی ہوں مجھے پتہ نہیں تھا کہ تمھاری راتیں بھی میری طرح بے چین رہی تھیں۔
میرے سَر کی سوگند مت کھاؤ۔ تم کو میری دولت کا لالچ یہاں کھینچ لائی ہے۔ تم کو میری بے چین اور بے خواب راتوں سے کوئی سروکار نہیں۔
تمھیں یقین نہیں آتا۔
پھر وہ میری آنکھوں میں جھانکنے لگا۔
میری حالت دیکھو۔ میں کتنا بے بس ہوں۔ اگر تم نے میرے لئے دکھ اٹھائے ہیں جس کے لئے میں دنیا جہان کے سارے غم اپنے سر پر اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ شاید میرے گناہ کم ہوجائیں۔ پھر بھی میرے دل کو سکون نہیں ملے گا۔ جہنم سے بڑھکر کوئی سزا کی جگہ نہیں۔
پھر اس نے بھاگ کر باتیل سے نیچے چلانگ لگائی۔ میں نے دیکھا وہ قبرستان کے اندر جاگری۔ اینٹ بنانے والے مزدور اس کے پاس جمع ہوگئے۔ اس کے بعد وہاں پر لوگوں کی بھیڑ بڑھ گئی۔
پھر میں اپنے دل میں سوچنے لگا کیا وہ عذاب میں مبتلا ہوگی؟۔ لیکن میرے دل کو اس وقت سکون ملے گا جب میں اسے خود اپنی آنکھوں سے عذاب میں مبتلا ہونے کا منظر دیکھ سکوں۔
مجھے بس اتنا یاد ہے اس کے بعد میں جہنم کی تلاش میں نیچے کھود گیا۔
Comments
Post a Comment