تُمپ گوں ھَشیمیں گواتگِراں (تئیسویں قسط)
بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم
ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان
(تئیسویں قسط)
ہمیں تُمپ کا قلعہ دیکھنا تھا لیکن دوستوں نے بتایا کہ آج کل قلعہ پر سیکورٹی اداروں کا کیمپ قائم کیا گیا ہے جہاں داخلہ کی اجازت نہیں ہے۔ تاہم دنیا کے دیگر ممالک میں اِس طرح کے قلعہ اور دیگر ثقافتی ورثے کی حامل مقامات اور نشانیاں آثار قدیمہ کا حصہ بنائے گئے ہیں جن کو دیکھنے کے لئے دنیا بھر سے لوگ وہاں جاتے ہیں۔ لیکن افسوس ہم اپنے تاریخی اہمیت کی حامل مقامات اور نشانیوں کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔
دازن:
ہم تُمپ دیکھنے کے بعد تُمپ سے مند کی طرف روانہ ہوئے۔ تُمپ سے مغرب کی سمت میں دازن کی آبادی واقع ہے۔ اِس گاؤں کے نام سے ظاہر ہے کہ یہاں پر داز یعنی مزری کے درخت کثرت سے اگتے تھے اِس لئے اِس گاؤں کا نام "دازن" پڑگیا۔ کہتے ہیں کہ اگر قدیم زمانے میں اگر کوئی تُمپ کے قلعہ پر کھڑے ہوکر اطراف کا نظارہ کرتا تو وہاں سے ہر طرف پھیلے ہوئے مزری کی درختوں کو بخوبی دیکھ سکتا تھا۔
دازن کی ندی پر آباد اِس گاؤں میں زمانہ قدیم سے لوگ آباد ہیں۔ اِس وقت دازن کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے اور یہ مشرق کی طرف پھیل کر تُمپ سے منسلک ہے۔ دازن کی آبادی تقریبا 400 سے زائد نفوس پر مشتمل ہے۔ دازن میں لڑکوں کے لئے ہائی اور لڑکیوں کے لئے مڈل اسکول موجود ہیں۔ دازن میں ادب سے بھی شغف رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ ایک زمانہ میں یہاں پر دازن لبزانکی مجلس نامی ادبی ادارہ بھی موجود تھا۔ اِس ادارے کے زیر اہتمام جمعہ کی شب ادبی مجلس کا بھی انعقاد ہوتا رہا ہے۔
دازن کے رہائشی امان ہمددر پرانے قلمکار ہیں جو آج کل نشہ کی لت میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ امان کے علاوہ جمال عبدالناصر دازنی، مسلم یعقوب اور فدا زہیر بھی بلوچی زبان کے بہترین تخلیق کار ہیں۔ لیاقت دازنی موسیقی کے شعبہ سے وابستہ ہیں اور وہ گلوکار ہیں۔ دازن میں رئیس، درزادگ، رند، آسکانی اور گچکی قبیلے کے لوگ رہائش پذیر ہیں۔ دازن کی آبادی کے قدیم ہونے کا اندازہ ہم پرانے ایک بلوچی کہاوت سے لگا سکتے ہیں۔ یہ کہاوت بہت مشہور ہے۔ کہاوت اس طرح ہے۔
"ڈئینجاں ڈئینجاں کہ دازن ءِ جُو اِنت"
اِس کہاوت کی پَس منظر کی کہانی ک بارے میں کہتے ہیں ایک دازن کا رہائشی اپنے ساتھی کے ہمراہ رات کو شکار کے لئے نکلتا ہے۔ رات ہوتے ہی جھینگر شور کرتے ہیں۔ شکار کرنے والے کا ساتھی پہلے رات کو جنگل میں کبھی بھی مسافر نہیں رہا تھا وہ شکاری سے دریافت کرتا ہے کہ "یہ آوازیں کس چیز کی ہیں"؟
شکاری جواب دیتا ہے!
"اے چِرتّ اَنت ءُ چَتّار اَنت
اے مَمّ اَنت ءُ ھپتار اَنت
ترا ور اَنت من ءَ چار اَنت
یہ کلمات سننے کے بعد شکاری کے ساتھی پر خوف طاری ہوتا ہے اور زد کرتا ہے کہ جو بھی ہو مجھے یہاں سے نکالو۔ شکاری کہتا ہے کہ "میں یہاں پر شکار کے لئے آیا ہوں اور میں رات بھر یہی رہونگا اگر تم کو جانا ہے تو بے شک چلے جائیں"۔ شکاری کا ساتھی بہت ڈرا ہوا تھا اور وہ مجبور ہوکر شکاری کو لالچ دیکر راضی کرتا ہے۔ شکاری کا ساتھی شکاری سے یہ بھی التجا کرتا ہے کہ وہ اسے گدھے پر بٹھائیں اور اُس کی آنکھوں پر پٹی باندھے اور جب تک وہ گاؤں نہ پہنچیں میری آنکھوں کی پٹھی مت کھولیں۔
شکاری اپنے ساتھی کی خواہش پر اسے گدھے پر بٹھانے کے بعد اُس کی آنکھوں پر پٹھی باندھ لیتا ہے۔ یہ شخص رستے میں شکاری سے آنے والے مقامات کے بارے میں پوچھتا ہے اور شکاری اسے آگاہ کرتا رہتا ہے۔ جب وہ دازن کی ندی پر پہنچتے ہیں تو وہ وہاں پر پانی بہنے کی آواز سنتا ہے جس پر وہ شکاری سے دریافت کرتا ہے کہ یہ کونسی جگہ ہے؟۔
شکاری کہتا ہے کہ یہ دازن کی ندی ہے۔
یہ جواب سن کر وہ خوش ہوجاتا ہے اور بلند آواز سے یہ شعر کہتا ہے۔
"ڈئینجاں ڈئینجاں کہ دازن ءِ جُوّ اِنت"
اِس کہاوت کے علاوہ ملا فاضل اور ملا بوھیر کے زمانہ کا ایک واقعہ بھی دازن سے منسوب ہے۔ اِس واقعہ کے بارے میں فقیر شاد اپنی کتاب "درْپشوکیں سُھیل" میں اس طرح لکھتے ہیں:
"ایک دن ملا فاضل تپتی ہوئی دوپہر میں رفع حاجت کے لئے ایک مٹی کے ٹیلے کے نیچے بیٹھ جاتے ہیں جہاں وہ اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے اپنی چادر (شدّہ ءُ بِرّ) کو لپیٹ کر اپنے سر کے اوپر رکھ دیتے ہیں۔ اسی اثناء میں دوسری طرف سے ملا بوھیر اور اُن کا داماد اپنی اونٹ کے ساتھ آرہے ہوتے ہیں۔ ملا فاضل اُن کو نہیں دیکھ پاتا لیکن وہ ملا فاضل کو رفع حاجت کرتے ہوئے دیکھ لیتے ہیں۔ اِس موقع پر ملا بوھیر اپنے داماد سے کہتا ہے کہ آج ملا فاضل ہمارے ہتھے چڑھ گیا ہے۔
ملا بوھیر کا داماد کہتا ہے کہ آپ ملا فاضل سے چھیڑخانی مت کریں۔ یہ شخص ملا فاضل ہیں اگر آپ جو بھی کلمات ادا کروگے اِس کا جواب یہ آپ کو نہیں دے گا بلکہ جو بھی اِس کا جواب ہوگا وہ مجھ سے منسوب کرے گا۔ خدارا مجھے ملا فاضل کے ہاتھوں رسوا مت کرائیں۔ ملا بوھیر اپنے داماد کی بات نہیں مانتا۔ جب وہ ملا فاضل کے قریب پہنچتے ہیں تو ملا بوھیر پہلے کھنکارتا ہے اور پھر وہ یہ کلمات ادا کرتا ہے۔
میر ءَ گپتگ ڈیمبری کِرّے
سربِر ءَ ایر اِنت شَدّہ ءُ بِرّے
چیرگ ءَ پیداک اِنت دگہ سِرّے
یہ کلمات سننے کے بعد ملا فاضل دیکھتا ہے کہ ملا بوھیر اور اُس کا داماد یہاں پر موجود ہیں۔ جیسے ہی ملا فاضل وہاں سے اٹھتا ہے تو وہ اپنا رُخ اُن کی طرف کرتے ہوئے اُنہیں اِس طرح مخاطب کرتے ہیں۔
شما دو اِت اولاک شُمے ھِرّے
دازن ءِ بازار ءَ بہ جنت چِرّے
پرما وتی زامات ءَ بہ دنت تِرّے
یہ جواب سننے کے بعد ملا بوھیر کا داماد کہتا ہے میں نے آپ کو کہا تھا کہ اِسے مت چھیڑیں یہ تمھیں کچھ کہنے کی بجائے مجھے نشانہ بناکر میری سبکی کرے گا۔ ملا بوھیر اپنے داماد کو تسلی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم ملا فاضل کی باتوں کا برا مت مناؤ وہ تمھارے بزرگ ہیں"۔
(حوالہ جات فقیر شاد، درپشوکیں سُھیل 2002)
(جاری ہے)
Comments
Post a Comment