Posts

Showing posts from July, 2022

سیلاب میں ڈوبا بلوچِستان

Image
عبدالحلیم حیاتان  بلوچستان میں طوفانی بارشوں کی تباہ کاریاں اور ہولناکیاں دل ہلانے والی ہیں۔ سیلابی پانی نے بلوچستان کے اکثر علاقوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے۔ بسے بسائے گھر اُجڑ چکے ہیں۔ لیکن اِس سے بدتر یہ سیلاب کئی قیمتی انسانوں کی جانوں کو بھی نگل گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے ویڈیوز اور تصاویر سے واضح طورپر دیکھا جاسکتا ہے کہ متاثرین کس حالت میں ہیں۔ ان پر جیسے قیامت گزرہی ہے۔ ہر ویڈیو اور تصویر میں انسانیت بلک رہی ہے اور سَسّک رہی ہے۔ بے یارو مددگار متاثرین کسی مسیحا کا انتظار کررہے ہیں۔ گھر ہوں یا کھیت اور کَلیان متاثرین کی زندگی کی تمام جمع پونجی بے رحم سیلابی ریلوں کے نظر ہوگئے۔ بے رحم سیلابی ریلے کئی لوگوں کے پیاروں کو بھی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ یہ قیامت صغرا کے منظر سے کم نہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد جو منظر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں اُن کو دیکھکر دل مزید دہل جاتا ہے۔ اِن میں ایک تصویر زیادہ تکلیف دہ ہے جس میں تقریباً ایک سالا بچی کی لاش سیلابی پانی میں تیرتے ہوئے نظر آرہی ہے جو سوشل میڈیا پر زیادہ وائرل ہے۔ اِس تصویر نے تین سالا ایلان

گوادر (اولڈ ٹاؤن) کی اہم سڑک کی تعمیر کا منصوبہ تاخیر کا شکار

Image
عبدالحلیم حیاتان  2002 میں گوادر بندرگاہ کی تعمیر کے آغاز کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ گوادر شہر کو مثالی اور جدید شہر بنانے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر گا۔ گوادر شہر کو جد ید شہر بنانے کے لئے سال 2003 میں ادارہ ترقیات (جی ڈی اے) گوادر کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ جی ڈی اے کے قیام کے بعد گوادر کا ماسٹرپلان بھی مرتب کیا گیا اور جب ماسٹر پلان منظر عام پر آیا تو اِس کی مخالفت کی گئی۔ بالخصوص قوم پرست سیاستی جماعتوں نے اس وقت یہ اعتراض اٹھا یا تھا کہ وفاقی حکومت گوادر کی اولڈ (قدیم) آبادی کو شہر سے باہر منتقل کر نے کی منصوبہ سازی کررہی ہے۔ عوامی اور سیاسی مخالفت کے باعث جی ڈی اے کے ابتدائی ماسٹر پلان پر عمل درآمد کا منصوبہ پسِ منظر میں چلا گیا۔ یاد رہے کہ جب جی ڈی اے نے اپنا ابتدائی ماسٹر پلان بنایا تھا تو اِس میں اولڈ ٹاؤن اس کے دائرہ اختیار میں شامل نہیں تھا جس کی وجہ سے وہاں پر جی ڈی اے نے کسی بھی قسم کی منصوبہ بندی سے گریز کیا۔ جی ڈی اے کی ساری منصوبہ بندی ایک مخصوص دائرہ اختیار میں ہوتی رہی ہیں۔ یوں گوادر پورٹ کی تعمیر اور جی ڈی اے کا قیام بھی اولڈ ٹاؤن کے لئے سُود مند ثابت نہ ہوسکا۔

گوادر کی قدیم ٹیلی گراف عمارت کے بحالی منصوبے کا آغاز

Image
  گوادر کی قدیم ٹیلیگراف کی عمارت کی بحالی کے منصوبہ کا آغاز۔ عبدالحلیم حیاتان ادارہ ترقیات (جی ڈی اے) گوادر کی جانب سے گوادر کی ایک سو باون سالہ ٹیلیگراف آفس کی قدیم عمارت کی بحالی کے لئے اِس کی تزئین و آرائش کا منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ 1870 عیسوی میں برطانوی حکام نے کلکتہ انڈیا سے برصغیر اور پرشئین گلف تک اپنے مواصلاتی نظام کا نیٹ ورک پھیلایا جس کی ابتداء 1870ء میں کی گئی۔  برطانوی حکام نے اپنے اِس مواصلاتی نظام کے نیٹ ورک کو پہلے انڈیا سے ضلع لسبیلہ تک پہنچایا اِس کے بعد اسے گوادر، پھر گوادر سے لیکر ایران کے ساحلی شہر چاہ بہار تا ایران لے جایا گیا۔ اِس مقصد کے لئے ٹیلیگراف کا ایک اسٹیشن گوادر میں بھی قائم کیا گیا۔ یہ عمارت اُس کو دور کی نشانی بتائی جاتی ہے۔   تاہم گوادر کا پاکستان کے ساتھ الحاق کے بعد ٹیلیگراف کی یہ عمارت تار آفس کی سہولت کے لئے استعمال کی گئی جسے بعد میں چھوڑ دیا گیا اور رفتہ رفتہ یہ عمارت کھنڈر بن گیا۔ گوادر شہر کے پرانے مقامات اور ثقافتی ورثہ کے حامل عمارتوں کی بحالی اور تحفظ کے لئے مقامی سطح پر سوشل میڈیا پر باقاعدہ کمپین بھی چلائی گئی۔ اِس کے