سیلاب میں ڈوبا بلوچِستان


عبدالحلیم حیاتان 

بلوچستان میں طوفانی بارشوں کی تباہ کاریاں اور ہولناکیاں دل ہلانے والی ہیں۔ سیلابی پانی نے بلوچستان کے اکثر علاقوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے۔ بسے بسائے گھر اُجڑ چکے ہیں۔ لیکن اِس سے بدتر یہ سیلاب کئی قیمتی انسانوں کی جانوں کو بھی نگل گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے ویڈیوز اور تصاویر سے واضح طورپر دیکھا جاسکتا ہے کہ متاثرین کس حالت میں ہیں۔

ان پر جیسے قیامت گزرہی ہے۔ ہر ویڈیو اور تصویر میں انسانیت بلک رہی ہے اور سَسّک رہی ہے۔ بے یارو مددگار متاثرین کسی مسیحا کا انتظار کررہے ہیں۔ گھر ہوں یا کھیت اور کَلیان متاثرین کی زندگی کی تمام جمع پونجی بے رحم سیلابی ریلوں کے نظر ہوگئے۔ بے رحم سیلابی ریلے کئی لوگوں کے پیاروں کو بھی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ یہ قیامت صغرا کے منظر سے کم نہیں۔

سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد جو منظر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں اُن کو دیکھکر دل مزید دہل جاتا ہے۔ اِن میں ایک تصویر زیادہ تکلیف دہ ہے جس میں تقریباً ایک سالا بچی کی لاش سیلابی پانی میں تیرتے ہوئے نظر آرہی ہے جو سوشل میڈیا پر زیادہ وائرل ہے۔

اِس تصویر نے تین سالا ایلان کرد نامی شامی بچے کی یاد تازہ کردی جس کی لاش اوندھے منہ 2 ستمبر 2015 کو ترکی کے شہر بدروم کے ساحل پر ملی تھی جس نے ساری دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا تھا۔ لیکن بلوچستان کے سیلابی پانی میں ملنے والی نامعلوم ننھی پری کی لاش کا چرچہ فی الحال سوشل میڈیا پر ہی قائم ہے اور اطلاع ہے کہ اس کا قومی میڈیا پر تذکرہ تک موجود نہیں اور نہ ہی وہاں پر دیگر ملنے والی لاشوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ 

سیلاب یا ناگہانی آفات کے سامنے کسی کا بس نہیں چلتا لیکن جو لوگ اس میں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں یا اِس وقت بے یارومددگار پڑے ہیں اُن کی آواز بننے میں کیا رکاوٹ ہے؟۔  سیلاب ہوں یا طوفان یہ قدرت کی طرف سے فیصلہ ہوتا ہے۔ اِس میں شر انگیزی کا عنصر نا ممکنات میں شامل ہیں۔ یہ بلوچستان کے مثبت چہرے پر بد نما داغ ڈالنے کی مذموم کوشش قطعاً نہیں ہوسکتی۔ 

بلوچستان کے نامعلوم بچی کی پانی میں تیرتی ہوئی لاش ایک انسان کی لاش تھی اور دیگر جو لوگ اپنی جان سے گئے اُن کے خون کا رنگ بھی لال تھا۔ لیکن بے حسی کا یہ عالم ہے کہ بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کو قومی میڈیا یا مین اسٹریم میڈیا پر وہ توجہ حاصل نہیں جو ہونا چاہیئے تھا۔  

بلوچستان کو پاکستان کی خوشحالی کا منبع سمجھا جاتا ہے لیکن بلوچستان کے دکھ کسی کو نظر نہیں آتے۔ سیلاب نے بلوچستان کے کئی علاقے اور دیہات تباہ کردیئے۔ ہزاروں لوگوں بے گھر ہوگئے ہیں۔ ایک طرف سیلاب نے متاثرین کو چھت سے محروم کیا ہے تو دوسری طرف بہت سے خاندانوں اپنے پیاروں کی جدائی کے غم سے بھی نڈھال ہیں اور متاثرین کی حالت ناگفتہ ہے۔ متاثرین تک خاطر خواہ  امداد نہیں پہنچ رہی ہے۔ کُھلا آسمان ہے اور متاثرین اپنی قسمت پر رورہے ہیں۔ 

سیلابی پانی میں جان بحق ہونے والے بلوچستان کے نامعلوم بچی کی تصویر میں اُس کے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ شاید یہ ننھی پری اپنی فریاد خدا کو سنا رہی ہوگی۔ ایلان کرد کی ہلاکت کے بعد بہت سے ممالک نے شامی پناہ گزین کے لئے اپنے بارڈر کھول دیئے اور ایلان کرد کی قربانی کی وجہ سے بہت سے شامی بچے اور بچیوں کا مستقبل وہاں محفوظ بن گیا ہے۔  

کیا بلوچستان کی ننھی پری کی قربانی رنگ لائے گی۔ کیا اس کی امید کی جاسکتی ہے؟ مشکل ہے کیونکہ بلوچستان کے دکھ کسی کو نظر نہیں آتے۔ یہاں بے حسی کا دور دورہ ہے اور حکمران پتھر دل بن چکے ہیں۔ یہاں سے ضمیر نامی چڑیا کب کے اڑکر جا چکی ہے۔ بلوچستان کے نا معلوم ننھی پری خدا کے حضور ضرور یہ شکایت کرے گی۔ اے خدایا! تیرے سوا بلوچستان کے دکھوں کا مداوا اور کوئی نہیں کرسکتا۔ اور ہاں اے خدا تم نے دیکھا تھا نا کہ میری لاش پانی میں جب تیررہا تھا تو میرے ہاتھ فقط تیری ہی بارگاہ میں بلند تھے۔  

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں