گوادر (اولڈ ٹاؤن) کی اہم سڑک کی تعمیر کا منصوبہ تاخیر کا شکار
عبدالحلیم حیاتان
2002 میں گوادر بندرگاہ کی تعمیر کے آغاز کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ گوادر شہر کو مثالی اور جدید شہر بنانے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر گا۔ گوادر شہر کو جد ید شہر بنانے کے لئے سال 2003 میں ادارہ ترقیات (جی ڈی اے) گوادر کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ جی ڈی اے کے قیام کے بعد گوادر کا ماسٹرپلان بھی مرتب کیا گیا اور جب ماسٹر پلان منظر عام پر آیا تو اِس کی مخالفت کی گئی۔ بالخصوص قوم پرست سیاستی جماعتوں نے اس وقت یہ اعتراض اٹھا یا تھا کہ وفاقی حکومت گوادر کی اولڈ (قدیم) آبادی کو شہر سے باہر منتقل کر نے کی منصوبہ سازی کررہی ہے۔
عوامی اور سیاسی مخالفت کے باعث جی ڈی اے کے ابتدائی ماسٹر پلان پر عمل درآمد کا منصوبہ پسِ منظر میں چلا گیا۔ یاد رہے کہ جب جی ڈی اے نے اپنا ابتدائی ماسٹر پلان بنایا تھا تو اِس میں اولڈ ٹاؤن اس کے دائرہ اختیار میں شامل نہیں تھا جس کی وجہ سے وہاں پر جی ڈی اے نے کسی بھی قسم کی منصوبہ بندی سے گریز کیا۔ جی ڈی اے کی ساری منصوبہ بندی ایک مخصوص دائرہ اختیار میں ہوتی رہی ہیں۔ یوں گوادر پورٹ کی تعمیر اور جی ڈی اے کا قیام بھی اولڈ ٹاؤن کے لئے سُود مند ثابت نہ ہوسکا۔ بنیادی انفراسٹرکچر اور شہری سہولیات دن بدن ناکافی ثابت ہوگئے جس نے مایوسی کو جنم دیا جو ابھی تک برقرار ہے۔
گوادر ماسٹر پلان میں تبدیلی کے بعد اولڈ ٹاؤن کو جی ڈی اے نے اپنی منصوبہ بندی میں شامل کرلیا ہے جس کا آغاز غالباً اُس وقت کے وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے دور سے ہوا ہے۔ اس مقصد کے لئے 2015 میں اولڈ ٹاؤن میں سید ظہور شاہ ہاشمی ایونیو (ایئر پورٹ) روڑ کی توسیع کامنصوبہ شامل کیا گیا اور 60 کروڑ روپے کی لاگت سے شہر کی سوریج اور ڈرینیج لائن کی تعمیر شروع کی گئی جو اب تک جاری ہے۔
پہلے مرحلے میں سیرت النبی ﷺ چو ک سے آگے سڑک کی توسیع اور تعمیر کا منصوبہ شروع کیا گیا۔ یہ منصوبہ مرحلہ وار جاری رہا۔ پہلے مرحلے میں سیرت النبی ﷺ چوک سے جامع بلال مسجد تک سڑک بنائی گئی اور دوسرے مرحلے میں بلال مسجد تا عسکری بنک شہدائے جیونی چوک تک سڑک کی تعمیر کا منصوبہ مکمل کیا گیا ہے۔ جس کا سنگ بنیاد اُس وقت کے وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک نے ہی رکھا تھا۔ سیر ت النبی ﷺ چوک سے لیکر عسکری بنک شہدائے جیونی چوک تک روڑ کی تعمیر کا منصوبہ مکمل کیا گیا ہے۔ پہلے اور دوسرے مرحلے میں نجی املاک کو نہیں چھیڑا گیا ہے۔
سڑک کی تعمیر کے تیسرے مرحلے کا منصوبہ عسکری بنک شہدائے جیونی چوک سے لیکر ملا فاضل چوک تک کا ہے۔ یہاں سے سڑک کی لمبائی 0.7 کلومیٹر پر محیط ہے لیکن اس کی تعمیر اور توسیع کا منصوبہ گزشتہ کئی سالوں سے تاخیر کا شکار ہے۔ سڑک کی تعمیر کا منصوبہ تجارتی اور رہائشی املاک کے کم معاوضوں کی ادائیگی کے تنازعہ کی وجہ سے کھٹائی میں پڑا ہے۔ یہ علاقہ اولڈ ٹاؤن کا تجارتی حب بھی کہلاتا ہے۔
حال ہی میں ڈپٹی کمشنر/کلکٹر گوادر نے عسکری بنک شہدائے جیونی چوک سے لیکر ملافاضل چوک تک سڑک کہ تعمیر اور توسیع کے لئے اخباری اشتہار کے ذریعے لینڈ ایکویزیشن ایکٹ کے سیکشن 4 کا نفاذ کرتے ہوئے اراضی مالکان کو اپنے اعتراضات جمع کرنے کی ھدایت کی گئی ہے۔ ڈپٹی کمشنر/کلٹر گوادر کی جانب سے اشتہار سامنے آنے کے بعد متاثرین نے معاوضوں کی ادائیگی کے تعین پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اِس حوالے سے مراد سالک نامی متاثرین کا کہنا ہے کہ ڈپٹی کمشنر گوادر کے اشتہار کے شائع ہونے کے بعد اُنہوں نے دیگر متاثرین کے ساتھ جاکر ڈپٹی کمشنر آفس کے ریونیو برانچ سے معلومات لی ہیں جہاں اُن کو بتایا گیا ہے کہ "سڑک کی زد میں آنے والے دکانوں کے لئے فی اسکوائر فٹ پانچ ہزار جبکہ گھروں کے لئے تین ہزار روپے فی اسکوائر فٹ کے ریٹ مختص کئے گئے ہیں"۔ مرادسالک کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے ریونیو حکام سے ملبہ کے نقصان کے تخمینہ کے بارے بھی استفسار کیا تھا لیکن متعلقہ اہلکاروں نے اُن کو بتایا ہے کہ ابھی تک ملبے کے نقصان کا تخمینہ نہیں لگایا جاسکا ہے۔
مراد سالک دکانوں اور گھروں کے معاوضوں کے ریٹ کو انتہائی ناکافی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دکانوں اور گھروں کے لئے جو ریٹ فکس کئے گئے ہیں وہ مارکیٹ ویلیو کے عین مطابق نہیں ہیں۔ گوادر پورٹ سٹی ہے اور جس پٹی پر ہماری املاک واقع ہیں اِس کی ایک کمرشل ویلیو بھی ہے۔ لیکن اُن کے املاک کے نقصان کا جو تخمینہ لگایا گیا ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہیں۔ اگر مجھے تین ہزار یا پانچ ہزار روپے فی اسکوائر فٹ کے حساب سے معاوضہ مل بھی جائے تو مہنگائی کے اِس دور میں، میں کسی اور جگہ شفٹ ہوکر از سرِ نو تعمیرات نہیں کرسکتا۔
مراد سالک کہتے ہیں کہ مجھ سمیت دیگر متاثرین کو سڑک کی تعمیر پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ہمیں معاوضے کے ساتھ متبادل جگہ فراہم کی جائے جس طرح تربت ماڈل ٹاؤن پروجیکٹ میں یہ طریقہ کار اپنایا گیا تھا۔
تاہم عسکری بنک شہدائے جیونی چوک تا ملا فاضل چوک کے سڑک متاثرین متاثرین نے مشترکہ طورپر ڈپٹی کمشنر/کلکٹر کے روبرو اپنے اعتراضات بھی داخل کردیئے ہیں۔
کسی بھی شہر کی ترقی کے لئے منصوبہ بندی اہم تقاضا سمجھا جاتا ہے بالخصوص گوادر شہر کی پرانی آبادی جو کئی دہائیوں سے نظر انداز رہا ہے اِس کی ترقی ناگزیر بن گئی ہے کیونکہ اِس وقت یہاں پر بنیادی انفراسٹرکچر کا نظام زبوں حالی کا شکار ہے۔ سڑکیں خستہ حال ہوچکی ہیں۔ گوادر شہر سی پیک کا مرکز ہے لیکن اِس میں شہری سہولیات آئیڈیل نہیں ہیں۔ بالخصوص نکاسی آب کا نظام گوادر شہر کا سب سے بڑا مسئلہ بن کر رہ گیا ہے۔ معمولی بارشوں کے دوران شہر ڈوب جاتا ہے جس میں زیادہ تر اولڈ ٹاؤن ہی متاثر دکھائی دیتا ہے۔
جی ڈی اے حکام اِس سڑک کی تعمیر کو نہ صرف شہر کی خوبصورتی کے لئے اہم قرار دے رہے ہیں بلکہ اُن کا دعوٰی ہے کہ اِس منصوبے کی تکمیل کے ساتھ ساتھ نکاسی آب میں ہر وقت حائل رکاوٹوں کو بھی دور کرنے کے لئے مدد مل سکتی ہے۔
مزکورہ سڑک کی عدم تعمیر کی وجہ سے گوادر کی تجارتی سرگرمیوں کے لئے اہم سمجھے جانے والی یہ پٹی روز بروز سکڑتی جارہی ہے۔ ماضی میں یہاں جو تجارتی سرگرمیاں دیکھنے میں آئی تھیں اَب وہ ماند پڑ گئی ہیں جس کی جھلک گوادر شہر کے قدیم شاہی بازار تک دیکھے جاسکتے ہیں۔ اَب کاروبار کا رُخ شمال کی طرف بڑھ گیا ہے۔ یہاں پر قائم دکانوں کے کرایئے بھی کم ہیں جس کی وجہ کاروباری رونقوں کا کم ہوجانا ہے۔ سڑک کی عدم تعمیر کی صورت میں یہاں سے باقی بچھا کچھا کاروبار کے بھی ختم ہونِے کا اندیشہ ہے۔
سڑک کی تعمیر کے لئے جی ڈی اے اور ضلعی انتظامیہ کو معاوضوں کے تنازعہ کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیکر اِس میں پیش رفت کرنی ہوگی کیونکہ اِس سڑک کی تعمیر اولڈ ٹاؤن کے مکینوں کے لئے ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر سڑک کی تعمیر میں مزید تاخیر ہوئی تو اِس پٹی کی تجارتی ویلیو روز بروز کم ہوتی جائے گی جس کا نقصان ایک طرف نہ صرف اولڈ ٹاؤن کی بنیادی ترقی کے منصوبوں پر اثر انداز ہوگا بل کہ یہاں کے جملہ متاثرین کی جائیدادوں کی اہمیت مزید کم ہوتی جائے گی۔
Comments
Post a Comment