Posts

Showing posts from November, 2022

بینائی سے محروم طبلہ نواز شہزاد بلوچ

Image
  عبدالحلیم حیاتان  آنکھوں کی بینائی سے محروم طبلہ نواز شہزاد بلوچ کا بُنیادی تعلق کراچی کے مردُم خِیز علاقے لیاری سے ہے۔ لیاری کا علاقہ فُن و ادب اور کھیلوں کے حوالے سے اپنی زَرخیزیت کی عکاس ہے اور اِس زَرخیزیت سے شہزاد بلوچ بھی فیضیاب ہوئے اور جسمانی طورپر معذور ہونے کے باوجود طبلہ بجانے میں غیر معمولی مَہارت رکھتے ہیں۔   شہزاد بلوچ گوکہ آنکھوں کی بینائی سے محروم ہیں لیکن اُس کا فَن اُس کی اِس معذوری پر غالب نہیں آسکا اور وہ اپنے فَن کے تہیں غیر معمولی کردار بن کر اُبھرے ہیں۔ شہزاد بلوچ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنا یہ فَن سات سال کی عُمر میں سیکھا ہے۔ اُس کا اُستاد ایک محمد نامی شخص تھے جو کراچی کے کچی قوم سے تعلق رکھتے ہیں جو اب اِس دنیا میں نہیں ہیں۔ شہزاد بلوچ کا کہنا ہے کہ وہ پیدائشی طورپر آنکھوں کی بینائی سے محروم نہیں ہوئے تھے۔ 12 سال کی عمر میں وہ شدید قسم کی بُخار میں مُبتلا ہوئے اور اِس بیماری کا اثر اُس کی آنکھوں پر اثر پڑا جس سے اُس کی آنکھوں کی بینائی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلی گئی۔ شہزاد بلوچ مزید کہتے ہیں کہ اِس نے چاروں صوبوں میں جاکر اپنے فَن کا مظاہرہ کیا ہے۔ اِس کے علاوہ

پلیری کے کیمل لائبریری کا سفر

Image
  عبدالحلیم حیاتان اِس تصویر میں کیمل لائبریری کے ساتھ بچوں میں کتابیں تقسیم کرنا والا یہ شخص اسماعیل یعقوب ہیں۔ اسماعیل یعقوب نے کیمل لائبریری کا آغاز الف لیلٰی نامی تنظیم کے تعاون سے اپنے ایک ہم خیال دوست خلیل رحمت سے مل کر کیا ہے۔ کیمل لائبریری جسے آپ چلتی پھرتی لائبریری بھی کہہ سکتے ہیں اِسے شروع ہوئے تقریباً 20 ماہ کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن یہ لائبریری اب بھی رواں دواں ہے۔ کیمل لائبریری کا آغاز گوادر شہر کے نواح میں تقریبا 45 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع دیہی قصبے پلیری سے کیا گیا ہے۔   اسماعیل یعقوب کا تعلق عبدالرحیم بازار پلیری سے ہے۔ وہ اپنے گاؤں میں ایک چھوٹی سی دکان چلاکر اپنا گزارہ کرتے ہیں۔ اسماعیل یعقوب خود ایف ایس سی پاس ہیں لیکن وہ کتابوں سے بے حد لگاؤ رکھنے والے شخص ہیں۔ اسماعیل یعقوب ایک پاؤں سے معذور بھی ہیں۔ وہ سال 2017 میں گوادر آتے ہوئے روڑ حادثہ کا شکار ہوگئے تھے جس کی وجہ سے اُن کا دایاں پاؤں ضائع ہوگیا تھا جس کے بعد ڈاکٹروں نے اُن کو مصنوعی ٹانگ لگاکر دی ہے لیکن اِس کے باوجود وہ اپنے علاقے میں علم و آگہی کی شمعیں روشن کرنے کا جنُون رکھتے ہیں۔ الف لیلٰی کی آفر کے بعد وہ

گوادر شہر کا نکاسی آب کا نظام دردِ سر بن گیا

Image
عبدالحلیم حیاتان  گوادر شہر کا نکاسی آب کا نظام کئی دہائیوں سے درد سر بنا ہوا ہے اور اِسے پائیدار بنانے کے لئے بلدیاتی اداروں اور ادارہ ترقیات (جی ڈی اے) گوادر نے خطیر عوامی فنڈز بھی خرچ ڈالے لیکن یہ اونٹ پہاڑ سے نیچے اترنے والا نہیں۔ توقع کی جارہی تھی کہ جی ڈی اے گوادر کا سیوریج لائن گوادر شہر کو نکاسیِ آب کی مصیبت سے نکالے گی مگر اب تک اِس کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ اِس کی ایک وجہ غلط منصوبہ بندی کو بھی قرار دیا جارہا ہے۔ نکاسیِ آب کے لئے مقامی حکومتوں نے جو منصوبہ بندی کی تھی وہ بھی پائیدار ثابت نہ ہوسکا۔  گوادر شہر ہر بارشوں کے بعد پانی میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے کسی بھی موسم میں ہونے والی عام بارشوں کے بعد نشیبی علاقوں میں پانی کا داخل ہونا اور رہائشی گھروں کا ڈوب جانا معمول بن گیا ہے۔ شہر کا شمالی ایریا ہو یا جنوب کی طرف پھیلی ہوئی آبادی بارشوں کے بعد اُن کو زحمت اٹھانی پڑتی ہے۔ شاہراؤں اور گلیوں کا تالاب بننا بھی معمول بن گیا ہے۔ رواں برس موسم گرما کی ہونے والی بارشیں جن کی شدت اتنی زیادہ بھی نہیں تھی اِس نے گوادر شہر کو بری طرح متاثر کیا تھا۔ معمول سے زیادہ بارشیں تو بڑے بڑے شہروں

حق دو تحریک نے پھر میدان سجا لیا.

 عبدالحلیم حیاتان  مُختصر عرصے میں جنم لینے والی حق دو تحریک نے بہت جلد غیر معمولی پذیرائی حاصل کرلی۔ گزشتہ سال 32 دن کا طویل دھرنا دینے کے بعد اِس تحریک کو اِس کا ثَمر بلدیاتی الیکشن کی صورت میں ملا ہے۔ بالخصوص گوادر کی میونسپل کمیٹی کے اکثریتی بلدیاتی نشستوں پر حق دو تحریک نے بھاری اکثریت سے چار جماعتی اتحاد جس میں بی این پی مینگل، نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام ف اور پی این پی عوامی شامل تھیں کو حیران کن شکست سے دوچار کیا۔ واضح رہے کہ صوبے میں بی این پی مینگل، نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کی سیاسی حوالے سے گرفت مضبوط سمجھی جاتی ہے۔ یہ جماعتیں برسرِ اقتدار بھی رہی ہیں اور ماضی کے ضلع گوادر کے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں بھی نمایاں کامیابی حاصل کرکے نمایاں پوزیشن پر بھی رہے ہیں لیکن اِس کے باوجود اِن جماعتوں کو بلدیاتی الیکشن میں گوادر شہر جس کی ایک اہمیت بھی ہے اُن کو ایک نوخیز حق دو تحریک کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ گوادر کی میونسپل کمیٹی کے بلدیاتی نشستوں کے علاوہ حق دو تحریک نے میونسپل کمیٹی پسنی اور اورماڑہ میں بھی توقع کے برعکس کامیابی سمیٹی۔ یوسی سربندن میں ک