حق دو تحریک نے پھر میدان سجا لیا.

 عبدالحلیم حیاتان 

مُختصر عرصے میں جنم لینے والی حق دو تحریک نے بہت جلد غیر معمولی پذیرائی حاصل کرلی۔ گزشتہ سال 32 دن کا طویل دھرنا دینے کے بعد اِس تحریک کو اِس کا ثَمر بلدیاتی الیکشن کی صورت میں ملا ہے۔ بالخصوص گوادر کی میونسپل کمیٹی کے اکثریتی بلدیاتی نشستوں پر حق دو تحریک نے بھاری اکثریت سے چار جماعتی اتحاد جس میں بی این پی مینگل، نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام ف اور پی این پی عوامی شامل تھیں کو حیران کن شکست سے دوچار کیا۔ واضح رہے کہ صوبے میں بی این پی مینگل، نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کی سیاسی حوالے سے گرفت مضبوط سمجھی جاتی ہے۔

یہ جماعتیں برسرِ اقتدار بھی رہی ہیں اور ماضی کے ضلع گوادر کے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں بھی نمایاں کامیابی حاصل کرکے نمایاں پوزیشن پر بھی رہے ہیں لیکن اِس کے باوجود اِن جماعتوں کو بلدیاتی الیکشن میں گوادر شہر جس کی ایک اہمیت بھی ہے اُن کو ایک نوخیز حق دو تحریک کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ گوادر کی میونسپل کمیٹی کے بلدیاتی نشستوں کے علاوہ حق دو تحریک نے میونسپل کمیٹی پسنی اور اورماڑہ میں بھی توقع کے برعکس کامیابی سمیٹی۔ یوسی سربندن میں کلین سوئیپ کیا۔ ضلع گوادر کے متعدد یونین کونسل کی نشستوں پر بھی حق دوتحریک کے اُمیدوار کامیاب رہے۔ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے باوجود حق دو تحریک مسلسل احتجاج پر ہے۔

حق دو تحریک نے نے اپنا پہلا احتجاجی دھرنا 15 نومبر 2021 کو دیا تھا۔ 16 دسمبر 2021 کو صوبائی حکومت سے مذاکرات کرنے کے بعد حق دوتحریک نے اپنا دھرنا ختم کردیا تھا۔ دھرنے میں وزیر اعلٰی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور صوبائی وزراء سمیت اعلٰی حکومتی عہدیداروں نے گوادر آکر حق دو تحریک کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کئے اور دھرنے کے شرکاء کے سامنے تحریری معاہدہ نامہ پر دستخط بھی کئے۔ تاہم حق دو تحریک کے رہنماؤں نے رواں سال پھر سے دھرنے کا آغاز کیا ہے اور دھرنے کا مقام پھر سے وائی ناکہ کو چُنا گیا ہے۔ 

حق دوتحریک کے رہنماؤں نے دوبارہ دھرنے دینے کا جواز یہ پیش کیا ہے کہ صوبائی حکومت نے تحریری معاہدے پر من و عن عمل نہیں کیا ہے۔ یاد رہے کہ سابقہ دھرنے میں حق دوتحریک نے کوئی 11 نکاتی مطالبات پیش کئے تھے لیکن اب جو حالیہ دھرنا شروع کیا گیا ہے اس میں 42 نکاتی مطالبہ رکھے گئے ہیں۔ جب حق دوتحریک نے اپنا پہلا دھرنا دیا تھا تو اِس میں حق دو گوادر کا نعرہ بلند کیا گیا تھا لیکن چلتے چلتے اِسے حق دو تحریک بلوچستان سے منسوب کیا گیا ہے۔ اور ساتھ ہی اِس تحریک کو بلوچستان بھر میں وسعت دینے اور اِسے باقاعدہ تنظیمی ڈھانچے میں تبدیل کرنے کا اعلان بھی سامنے آیا تھا۔ لیکن اب تک بظاہر حق دوتحریک بلوچستان کو بطور سیاسی تنظیم رجسٹرڈ نہیں کیا گیا ہے۔

حق دو تحریک کی بنیاد جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکریٹری مولانا ھدایت الرحمن بلوچ نے ڈالی ہے اور وہ اِس وقت تحریک کے روح رواں سمجھے جاتے ہیں جب کہ دیگر اہم رہنماؤں میں شعلہ بیان حسین واڈیلہ شامل ہیں جو ماضی میں قوم پرست سیاست کا حصہ تھے اُن کی سیاسی وابستگی بی این پی مینگل سے رہی تھی۔ حسین واڈیلہ کی سیاسی تربیت بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے فلیٹ فارم سے ہوئی ہے۔ لیکن اب حسین واڈیلہ اپنی سیاسی جماعت سے لاتعلقی کا اعلان کرنے کے بعد حق دو تحریک میں متحرک ہیں اور وہ مولانا ھدایت الرحمن بلوچ کی قیادت پر اعتماد کرتے ہیں۔ ساتھ ہی اُن کا شمار حق دو تحریک کے دوسرے بڑے رہنماء کے طورپر ہوتا ہے۔ 

حق دو تحریک کے مختصر عرصے میں پروان چڑھنے کے بعد بہت سے لوگ اور اِس تحریک کے ناقدین اِسے سازشی تھیوری کی نظریئے سے پرکھ رہے ہیں۔ لیکن حق دو تحریک کے احتجاج کے بعد بعض بنیادی مسائل کے حل میں پیش رفت کو اکثریتی رائے کے مطابق صرف رکھنا بد نیتی ہوگی بالخصوص چیک پوسٹوں میں بلا وجہ پوچھ تاچھ میں کمی، بارڈر کاروبار میں ماضی کے مقابلے میں پیدا ہونے والی آسانیاں اور مقامی ماہی گیروں کو سمندر میں آزادانہ شکار کی اجازت ملنے کا کریڈٹ حق دو تحریک کو دیا جارہا ہے۔ حق دو تحریک کو لانچ کرنے کی تھیوری کیا ہے وہ بھی آنے والے وقتوں میں سامنے آئے گا لیکن فی الحال حق دو تحریک کو عوامی حمایت اور ہمددری حاصل ہے اِس سے اِنکار نہیں کیا جاسکتا۔ 

رہا سوال حق دو تحریک کو رجسٹرڈ کرنے کی یا اسے باقاعدہ تنظیمی سانچے میں ڈالنے کی یہ اہم ہے۔ کیونکہ وقتی طور پر اٹھنے والی تحریکیں زیادہ دیر تک عوام کو مجتمع نہیں کرسکتیں اور جب باقاعدہ تنظیم یا سیاسی فلیٹ فارم موجود نہ ہو تو ہمددردوں اور یا تحریک سے جڑت رکھنے والوں کی تعداد منتشر ہونے کا بھی امکان ہے۔ حق دوتحریک بلوچستان کی قیادت کرنے والے مولانا ھدایت الرحمن بلوچ، جماعت اسلامی کے بنیادی اور نظریاتی سیاسی کارکن ہیں۔ اُن کی سیاسی پرورش جماعت اسلامی کی فلیٹ فارم پر ہوئی ہے اور گزشتہ دو عشروں سے جماعت اسلامی کے جھنڈے تلے جدو جہد کرتے ہوئے اِس مقام پر پہنچے ہیں۔ حق دو تحریک بلوچستان کی بطور سیاسی جماعت کی تشکیل کے بعد اصولاً مولانا کو جماعت اسلامی یا حق دو تحریک میں کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔ 

باقی سازشی تھیوری کیا ہے اور کیونکر حق دو تحریک ابھر کر سامنے آئی ہے وہ الگ بحث ہے اور اس بحث کے جنم لینے کی بنیادی وجہ وہ تجربات ہیں جس کا ہماری ملکی سیاست سے گہرا تعلق ہے۔ بہر کیف اِس وقت حق دو تحریک نے بلدیاتی الیکشن میں ملنے والی مینڈیٹ کے تہیں اکثریتی رائے کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے جس نے پہلی بار ضلع گوادر کے سیاسی تالاب کے پانیوں میں طلاطم پیدا کیا ہے۔

مستقبل میں حق دو تحریک کے خدوخال کیا ہونگے وہ بھی سامنے آئے گا۔ حق دو تحریک فی الحال ضلع گوادر کی سیاست کا اہم جُز بن چکا ہے سیاسی جماعتوں کو اِس کا مقابلہ کیسے کرنا وہ اُن کی حکمت عملی پر منحصر ہوگا۔ موجودہ دور تیز ترین معلومات اور آگاہی کا دور ہے۔ مصنوعی اور خوش آمدی تدابیر اختیار کرکے اکثریتی رائے کو اپنی طرف متوجہ کرنا مشکل امر ہے۔ عوام سے لاتعلقی اور عوامی مسائل سے بیگانگی اختیار کرنے سے سیاسی پزیرآئی یا پاپولرٹی کا حصول عبث ثابت ہوسکتا ہے۔
  


Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں