Posts

Showing posts from June, 2023

سید نمدی

Image
  مترجم: عبدالحلیم حیاتان مسقط 15 اکتوبر 1962ء !جوھر عافیت میں رہیں** یہ جاننا ضروری ہے کہ بمبئی میں مجھے آپ کا کوئی خط نہیں ملا ہے البتہ میں نے اُمید لگائے رکھی تھی کہ شاید ایک خط آجائے لیکن اُمید پوری نہیں ہوئی۔ ابھی گزشتہ ڈاک میں سید نظام شاہ کے خط سے آگاہی ملی کہ آپ کے ارسال کئے گئے خطوط میں سے ایک خط بمبئی پہنچا ہے لیکن میرے وہاں سے نکلنے اور مسقط میں ایک ماہ دس دن قیام کرنے کے بعد۔ "جانتے ہوئے" کا الفاظ آپ نے اپنے دل کو خوش کرنے کے لئے اصلاح کرکے استعمال کیا ہے کیونکہ ھر حوالے سے دل کو رکھنے کے لئے کوئی وجہ ڈھونڈنی پڑتی ہے اور اگر اِس قدر جلدی اِس طرح ارزاں قیمت پر وجہ ہاتھ لگے تو کون ہے کہ اپنے آپ کو بڑی مصیبت میں ڈالے۔ لیکن! ہاں! آپ کی بات درست ہے مگر وہ کتاب جوکہ آپ کے نام پر ہے ابھی تک بمبئی سے نہیں آیا ویسے چھپ کر تیار ہے۔  یہ زندگانی اسی طرح کے بے رنگ خوابوں کا مسکن ہے کہ دھیرے دھیرے اپنے آپ کو اِس زندگانی کے ساتھ اِس طرح ایک کرتی ہے کہ اِن کے درمیان باریک ترین رستہ بھی نہیں بن سکتا۔ یہ بارشوں کا پہلا قطرہ ہے آگے دھند والی بارشیں ہیں کہ اچانک گرج کر برس رہے ہیں ص

بلوچی افسانہ: نئی ذمہ داری 

Image
  تحریر: یونس حسین  مترجم: عبدالحلیم حیاتان    میں دکان کھول رہا تھا کہ ایک اونچی آواز میرے کانوں پر پڑی۔ "اتنی آدھی رات میں یہ کون ہوسکتا ہے"۔ میں گھبرا گیا پھر اطمینان ہوا کہ یہ ناکو جامی ہے۔ ایک لمحہ کے لئے میرے ہاتھ کانپنے لگے لیکن میں نے تالا کھولا اور پھر شٹر اوپر کیا بھاری آواز سے وہ پھر چلایا"اڑے کون ہے" ۔۔ عبدل تم ہو؟،، جب میں نے اپنا نام سنا تو جو ارادہ میں نے کیا تھا میں نے اپنے ہاتھ دھیرے سے کھینچ لئے اور اندھیرے میں ناکو جامی کے وجود کو محسوس کرنے لگا اور اُس طرف دیکھنے لگا کہ وہاں سے ناکو کی آواز آرہی تھی ویسے ناکو جامی ایران کا رہائشی تھا۔ وہ اپنی جوانی میں یہاں ساحل کنارے پر آیا تھا اور مستری کا کام کرنے لگا جب کام جم گیا تو اس نے اپنے بچوں کو بھی یہاں پر بلا لیا اور ہمیشہ کے لئے یہی پہ بس گیا۔ تالا مع چابیاں میرے مٹھی میں تھے، دکان میں بہت اندھیرا چھایا ہوا تھا لیکن مجھے اندازہ تھا کہ میں اپنے قدم کہاں رکھوں اور کہاں پہ آگے بڑھوں، پٹرول کی تیز بو میری ناکھ میں محسوس ہونے لگی مجھے اندازہ ہوا کہ شام کو میں نے پٹرول کے ڈرمب کا ڈھکن بند نہیں کیا تھا، کچ

سید نمدی

Image
  مترجم: عبدالحلیم حیاتان  مسقط   ستمبر 1962ء 15 !میرے دونوں دوستوں خوش اور شاداں رہیں** نیلگوں سمندر میں سے ایک موج پیچ و تاب کھاتے ہوئے بڑی اُمید کے ساتھ ساحل کی طرف بڑھ رہا تھا اور بڑی بے چینی کے ساتھ اپنی مرادوں کے بد صورت منزل پر پہنچا لیکن وہ ساحل کہ جس کے گرد اُس کی زندگی کا ایک حصہ قیمت ادا کرنے کے بدلے ختم ہوچکا تھا وہ ساحل اُس کا سواگت کرنے والا نہیں تھا۔  اسی طرح ادھوری خواہش کے ساتھ ایک غم یہ تھا کہ ہم نے اِس دیار میں چھوڑے گئے دو ایسے سوغات کہ جن کو ایک آنکھ سے دیکھنے کے لئے سات سال بے چینی کے ساتھ گزرے تھے لیکن وہ لمحہ بھر بھی دیکھنے کو نہ ملے۔  سات سال تک گم رہنے کے بعد صرف چھوٹی چھوٹی تبدیلی کے سوا اِس شہر کی ہر چیز اپنی بنیادی حیثیت میں موجود تھی۔ یکم ستمبر کی صبح 10 بجے اسی سرزمین پر قدم رکھ دیئے جو سات قبل چھوڑا گیا تھا۔  شام پانچ بجے کلاکوٹ، بندر روڈ، جونا مارکیٹ، لی مارکیٹ، جونا کمبار واڑہ، حسن ولیج، گولی مار اور جناح اسپتال گھوم آئے اور گزرے ہوئے یادوں کے تیروں اور خنجر سے دو سو مرتبہ زخمی دل کے مندمل زخم پھر تازہ کئے۔ پھر بھی بڑے ارمانوں کے ساتھ بے خبری اور تشنگ

سید نمدی

Image
  مترجم: عبدالحلیم حیاتان  مسقط 15 ستمبر 1962ء  ماسی زھرہ خوش اور خرم رہیں!  سات سال بعد یہ ایک ایسا دِن تھا جو کہ آپ لوگوں کے ساتھ شام تک بسر ہوئی جو میرے لئے ایک ادھورا خواب تھا جسے دوبارہ دیکھنے کے لئے روح ایک طرح سے بے چین بھی ہے۔ مجھے حال حال میں یہ اُمید نہیں تھی کہ اچانک آپ لوگوں کے ساتھ مجلس اور نشست ہوگی۔    اِس ایک دن میں ہونے والی ملاقات نے میرے لئے دو کام کئے۔ ایک یہ کہ دل سے ایک بڑی ارمان نکلی اور دل کو کچھ آرام ملا۔ کیونکہ اِن سات سالوں میں میرا دل آپ لوگوں سے ملنے کے لئے بے چین رہا تھا۔ ملاقات کے بعد دل کو کچھ سکون ملا۔ لیکن یہ سکون صرف اِس قدر برقرار رہی جب میں آپ لوگوں کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔  جب میں نے جہاز پر قدم رکھے تو ایک مرتبہ پھر ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں آپ لوگوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہورہا ہوں۔ اِس طرح کی کشمکش سے دوچار ہونے کے بعد نیند مجھ پر حرام ہوگئی۔ پوری رات نیند میری آنکھوں کے قریب نہیں گزری۔ میں بے بس ہوا اور بستر سے اٹھا صبح تک کرسی پر بیٹھ کر سمندر کے سیاہی مائل پانیوں اور لہروں کے ساتھ مجلس سجائی جہاں جہاز ساکن پانیوں کے نرم اور نازک سینے کو چی