بلوچی افسانہ: نئی ذمہ داری 

 


تحریر: یونس حسین 

مترجم: عبدالحلیم حیاتان 

 

میں دکان کھول رہا تھا کہ ایک اونچی آواز میرے کانوں پر پڑی۔ "اتنی آدھی رات میں یہ کون ہوسکتا ہے"۔ میں گھبرا گیا پھر اطمینان ہوا کہ یہ ناکو جامی ہے۔ ایک لمحہ کے لئے میرے ہاتھ کانپنے لگے لیکن میں نے تالا کھولا اور پھر شٹر اوپر کیا بھاری آواز سے وہ پھر چلایا"اڑے کون ہے" ۔۔ عبدل تم ہو؟،، جب میں نے اپنا نام سنا تو جو ارادہ میں نے کیا تھا میں نے اپنے ہاتھ دھیرے سے کھینچ لئے اور اندھیرے میں ناکو جامی کے وجود کو محسوس کرنے لگا اور اُس طرف دیکھنے لگا کہ وہاں سے ناکو کی آواز آرہی تھی ویسے ناکو جامی ایران کا رہائشی تھا۔ وہ اپنی جوانی میں یہاں ساحل کنارے پر آیا تھا اور مستری کا کام کرنے لگا جب کام جم گیا تو اس نے اپنے بچوں کو بھی یہاں پر بلا لیا اور ہمیشہ کے لئے یہی پہ بس گیا۔ تالا مع چابیاں میرے مٹھی میں تھے، دکان میں بہت اندھیرا چھایا ہوا تھا لیکن مجھے اندازہ تھا کہ میں اپنے قدم کہاں رکھوں اور کہاں پہ آگے بڑھوں، پٹرول کی تیز بو میری ناکھ میں محسوس ہونے لگی مجھے اندازہ ہوا کہ شام کو میں نے پٹرول کے ڈرمب کا ڈھکن بند نہیں کیا تھا، کچھ ایسی باتیں ہوتی ہیں کہ آدمی اپنے بہت سے کام ادھورا کرکے چھوڑ دیتا ہے۔۔۔"لیکن مجھ سے کون سا گناہ سرزد ہوا تھا؟،،،" میرا گناہ یہی تھا کہ میں نے اسے اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش سمجھا۔ اپنی زندگی کا ایک حصہ سمجھا، اور ہمیشہ اُس کی نگرانی میں رہا، نہ دنیا کا خیال نہ ہی خدا کو اپنے خیالوں کی بادشاہی سونپی میرا دین، میری نمازیں، میرے خواب، میری منزل سب کچھ وہی تھا۔۔۔ اور آج مجھے یہ اندازہ ہورہا تھا کہ جو مجھے کرنا تھا وہ میں نے کیا۔۔ اب یہ دنیا میرے کسی کام کا نہیں۔۔۔،، صبح پھر یہی خیال گھوم پر کر آئینگے، اسی خیال کا ثمر تھا، مجھے اب گھر میں یاد آیا کہ پچھلے سال میں نے فشریز لیبارٹری سے زہر کی ایک شیشی کتوں کو ٹھکانے کے لئے لیا تھا، بوتل ڈرمبوں کے پیچھے دیوال کے مرحبا کے سامنے رکھا ہے۔ میں آگے بڑھا؛ ایک ڈرمب اٹھایا اور اسے قدرے دھکیلا اور رستہ بنایا ڈرمب کو دھکیلتے وقت اِس کا ڈھکن زمین پر گرا اور میں جان گیا کہ یہ ڈرمب وہی ہے کہ جس کا ڈھکن کھلا ہوا ہے۔ میں ڈھکن اٹھانے کے لئے جھکا لیکن ڈرمب کا ایک کنارہ میری پیشانی پر لگا اور میں بے چین ہوا، میری آنکھ کی ہڈی سوج گئی جب ہاتھ لگایا تو سوزش محسوس ہونے لگی اور سمجھ گیا کہ ڈرمب کے کنارے نے اسی جگہ پر زخم کیا ہے اور خون میری آنکھوں پر بہہ رہے تھے۔ میں نے ایک ہاتھ اپنے زخم پر رکھا اور زھر کی شیشی لیکر باہر نکلا، باہر نکلتے وقت میری سانسیں بحال ہونے لگیں پھر جب میں نے شٹر نیچے کیا ناکو جامی پھر سے چلانے لگا"اڑے عبدل؟،،۔۔۔ کون ہو تم؟،، میں یہ بھی جانتا تھا کہ ناکو جامی رات کو نہیں دیکھ سکتا اور بیچارہ اٹھ بھی نہیں سکتا کیونکہ اسے لپروسی (جزام) کا مرض لاحق ہوچکا تھا اور جزام نے اس کے ہاتھ اور پیر ناکارہ بنائے تھے۔ اُس کی بیوی اسے چھوڑ کر اپنے میکے ایران چلی گئی تھی، یہ بیچارہ تب سے یہی پر پڑا ہے لپروسی سینٹر نے ادھار دے کر اُس کے چبوترے کے اطراف دو دکانیں تعمیر کرکے دیئے ہیں ایک دکان یہی ہے جو ہم نے کرایہ پر لیا ہے اور دوسری دکان بنگالی کے پاس ہے جو پان بیچتا ہے۔ ہم سے ماہانہ کرایہ دو ھزار روپے لیتا ہے اور اپنے بچوں کو بھیج دیتا ہے تب سے میرے والد نے دکان لیا ہے دکان کا حساب کتاب میرے پاس ہے اور ناکو جامی کے بچوں کے پیسے بھی میں بھیج دیتا ہوں، ناکو کی بڑی بیٹی نے دو ماہ قبل بیاہ رچائی ہے اور بیٹا دسویں جماعت کا طالب علم ہے۔ بیٹے کے خط ہمیشہ آتے ہیں لیکن وہ خود نہیں آیا ہے۔۔۔ تاریکی خاموشی کے کانوں میں باتیں کررہی تھیں اور میری بربادی نے کالے ناگ کی طرح سر اٹھا لیا، میں زہر کی شیشی منہ کی طرف لے گیا، ایک دھیمی آواز سنائی دی" اڑے عبدل ایک گلاس پانی دینا میں پیاسا ہوں"۔ میں حیران ہوا یہ کیسے جان گیا کہ میں کچھ پی رہا ہوں میں نہیں چاہتا تھا کہ بات کروں لیکن میرے منہ سے نکل گیا "ہاں! آرہا ہوں"۔ "اڑے عبدل میں کب سے تم کو پکار رہا ہوں تم کچھ بھی نہیں کہتے"۔۔۔ خیر ہے۔۔۔ تم آدھی رات کو؟۔۔۔ ناکو میں تیل لینے آیا ہوں،، " تم آنا اور میرے پاس بیٹھ جاؤ میں تم سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں،، میں نے زھر کی شیشی ایک طرف رکھ دیا اور اُس کے قریب بیٹھ گیا اور اُس کے معذور ہاتھوں کو دبانے لگا"اڑے میں نے سنا ہے کہ ناخدا قادو کی لڑکی ایک لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی ہے یہ سچ ہے؟،،" ہاں ناکو! آپ نے صحیح سنا ہے،، لیکن لیکن۔۔۔ یہ وہی لڑکی ہے ناں ہر وقت تم اُس کا نام لیتے تھے؟،، مجھے یہی گمان ہورہا تھا اِس نے میرا نام پورے شہر میں زبانِ زد عام کیا ہے، میرا دھیان پھر بوتل کی طرف چلا گیا اور اپنا ھاتھ اس کے ھاتھ سے نکال کر اٹھنے کی کوشش کرنے لگا لیکن اُس نے اپنے معذور ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھ کر کہنے لگا "عورت ذات کے پیچھے کبھی بھی مت پڑیں، بلوچوں نے کہا ہے کہ عورت ذات اور چور پر کبھی بھروسہ مت کریں۔ یہ ایک نہ ایک دن اپنی اصلیت آشکار کرکے ہی رہینگے، مجھے دیکھو کس قدر لاچار ہوں۔۔۔ بوند پانی پینے کے لئے دوسروں کا محتاج ہوں لیکن میں نے اپنے دل چھوٹا نہیں کیا ہے ہمیشہ اُن کی خوشحالی کا متمنی ہوں۔ میں کہتاہوں کہ خدا اُن کے سر سلامت رکھیں بس اور تم میرے بیٹے جیسے ہو۔۔۔ میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر میں مر گیا تو میرے بچوں کا خرچہ بند نہ ہو، اِن پیسوں کو ہمیشہ کی طرح بھیج دیا کریں۔۔۔ وہ تو مکمل طور پر بھول چکے کہ اُن کا کوئی باپ بھی ہے۔۔۔۔،، پھر رونے لگا میں نے اسے تسلی دی وہ خاموش ہوگیا۔۔۔۔ تسلی دینے کے بعد مجھے طرح طرح کے خیالات آنے لگے، میں اسی لمحہ بدل گیا، میں نہیں جانتا کہ مجھ سے کوئی گناہ سرزد ہورہا ہے یا ثواب کما رہا ہوں۔ اٹھا گلاس لیکر اُس میں پانی ڈالا پھر زھر کی شیشی لیکر اِس میں خالی کیا اور ناکو جامی کو دے دیا اُس نے زھر پی لیا اور سوگیا، میں نے دکان بند کی اور گھر کی طرف روانہ ہوا، رستے میں مجھے یاد آیا کہ میں نے ڈرمب کا ڈھکن پھر سے بند نہیں کیا ہے۔


صبح والد دکان کھولے گا پھر۔۔۔۔ ؟ کل سارا دن والد کی باتیں اور طعنے سننے پڑینگے پھر یاد آیا نہیں کل والد قبرستان جائے گا ناکو جامی کو دفنانے کے لئے! 


بشکریہ: روتاک گام بلوچی سال 2000


Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں