ایران کا سیاحتی سفر (1)
عبدالحلیم حیاتان
2023 کی گرمیوں کی تعطیلات گزارنے کے لئے ذہن بن گیا تھا لیکن منزل کا تعین نہیں ہو پارہا تھا۔ پھر دُرّا نائیک حسین جو کہ میرا کزن ہے اُن سے ملاقات کے دوران ایران جانے کا پروگرام بن گیا کیونکہ دُرّا سال 2022 میں اپنے دوستوں کے ساتھ ایران کے شمالی علاقوں کا سفر کرچکا تھا۔ پاسپورٹ بنوائی اور ویزے حاصل کئے، پھر ہم دونوں نے رخت سفر باندھ لیا۔ ہم نے ایران کا سفر 12 جولائی کو شروع کیا۔ گْوادر سے ایران کا سفر راھداری کے علاوہ ویزا پر کرنے کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ پاک ایران گبد ریمدان بارڈر کراسنگ پوائنٹ پر سال 2020 میں امیگریشن کا آغاز کیا گیا ہے جب کہ راھداری پر جانے کی سہولت برسوں پہلے دی گئی تھی۔
راھداری پر ایران کے سرحدی علاقوں اور چاہ بہار تک سفر کی اجازت ہے آگے کی سفر کے لئے پوچھ گچھ کی صورت میں قانونی کاروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن پاسپورٹ ویزہ پر بلا روک ٹوک آپ ایران میں ہر جگہ ہوائی اور زمینی سفر کرنے کے مجاز ہونگے۔ ایران کے سفر کے لئے ہم نے گبد ریمدان کراسنگ بارڈر کا انتخاب کیا جسے ٹو ففٹی (250) بارڈر بھی کہتے ہیں۔ میں نے آخری بار ایران کا سفر راھداری پر 4 سال قبل کیا تھا اور ہمارا یہ سفر ایرانی بلوچستان کے دیہی علاقوں کے علاوہ چاہ بہار تک محدود رہا تھا۔ ماضی کے سفر کے دوران ٹو ففٹی بارڈر پر مسافروں کے لئے کوئی بھی سہولت میسر نہیں تھی اور نہ ہی امیگریشن پوائنٹ وجود میں لایا گیا تھا۔
لیکن اب ٹو ففٹی بارڈر پر مسافروں کو سرحد پار پہنچنے کے لئے کچھ سہولیات میسر ہیں جیسے انتظار کرنے کے لئے شیڈ اور مرد و خواتین کے لئے واش روم تعمیر کئے گئے ہیں جبکہ این ایچ اے "نیشنل ھائی ویز اتھارٹی" نے پاک ایران ٹو ففٹی بارڈر تک ساحلی شاہراہ کو مزید وسعت دے دی ہے۔ پاکستان اور ایران نے بارڈر پر "بارڈر ٹریڈ" کے فروغ کے لئے بارڈر مارکیٹ بھی قائم کئے ہیں لیکن یہ مارکیٹ تاحال نہیں کھولے گئے ہیں۔ بارڈر پر رہائش و طعام کے لئے ہوٹل بھی تعمیر کئے گئے ہیں۔ بارڈر پر بڑی مقدار اور تعداد میں ایرانی گیس اور دیگر میٹیریل کا بھی کاروبار کیا جاتا ہے جب کہ پاکستان سے گائے اور بیل ایران فروخت کے لئے لے جائے جاتے ہیں۔
کراسنگ پوائنٹ عبور کرنے کے بعد ہم نے پہلے نوبندیان کا انتخاب کیا۔ سرحد پار کھڑی ایک گاڑی میں ہم تین مسافر سوار ہوئے۔ تیسرے مسافر کا تعلق صوبہ پنجاب کے شہر ملتان سے تھا۔ ملتانی بھی ویزا پر ایران جارہا تھا اور استفسار پر اُس نے بتایا کہ "وہ تہران جارہا ہے کیونکہ تہران یونیورسٹی میں اُس کے رشتہ دار پڑھ رہے ہیں اور چاہ بہار میں بھی اُن کے جاننے والے رہتے ہیں"۔ راستے میں دُرّا نے ملتانی سے پوچھا کہیں ایران کے ویزے کی آڑ میں آپ ترکی تو نہیں جاؤگے؟ وہ زیرِ لب مسکرایا اور سر ہلاتے ہوئے کہا نہیں۔ میں نے دُرّا سے کہا کہ مجھے شک ہے یہ شخص اچھی نیت سے ایران کے سفر پر نہیں آیا ہے۔ ہو نا ہو یہ شخص ایران سے آگے کی سفر کا سوچھ رہا ہے کیونکہ باتوں ہی باتوں میں وہ کہہ رہا تھا کہ وہ ایک ماہ ایران میں قیام کرے گا لیکن اُس کے پاس سفری سامان کا بس ایک ہینڈ بیگ تھا جس میں بمشکل دو جوڑے کپڑے ہی سما سکتے ہیں، سفری سامان دیکھ کر اُس کے آگے کا سفر مشکوک لگ رہا تھا۔ لیکن دِلوں کا حال اللہ بہتر جانتا ہے۔ نو بندیان سے ملتانی چاہ بہار کے لئے روانہ ہوا۔
اسحاق رحیم اپنے بلوچی زبان میں لکھے گئے سفر نامہ "گنجیں باھو ءُ دشتیاری" کے پندرہویں قسط میں لکھتے ہیں "نوبندیان باھو دشتیاری کا سب سے بڑا کاروبار مرکز ہے۔ یہاں پر سیکڑوں کے حساب سے دکان موجود ہیں جس سے لوگوں کا ذریعہ معاش اور کاروباری وابستہ ہے۔ نئے دور میں نوبندیان کو علاقائی لوگ (کراچی کُوچک) یعنی "چھوٹا کراچی" بھی کہتے ہیں۔ نوبندیان بنیادی طور پر ایک چھوٹا قصبہ ہوتا ہے۔ یہاں پر سکونت اختیار کرنے والے لوگ صابرو خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اِن لوگوں کا ذریعہ معاش کا انحصار اُس وقت بارانی زمینوں پر ہوتا ہے۔
وہ مزید لکھتے ہیں گمان یہی ہے کہ یہ نوکبندی یا نوبندی اور پھر نوبندیان پڑتا ہے، یعنی نئی بند یا نو تعمیر شدہ بند۔ ایران میں اسلامی انقلاب سے کچھ سال پہلے دُزّاپ (زاھدان) سے چاہ بہار کی سڑک پھرہ (ایران شھر) سے شروع ہوکر چاہ بہار تک لائی جاتی ہے تو اُس وقت یہی فیصلہ ہوتا ہے کہ یہ سڑک نوبندیان سے نیچے جنوب کی طرف گزاری کر نگور کے راستے سے ہوکر چاہ بہار جائے گی۔ لیکن نگور کے لوگ نہیں مانتے اور وہاں سے سڑک گزارنے پر راضی نہیں ہوتے۔ اُس دور میں نوبندیان کے سربراہ صابرو خاندان کے داد کریم کمالان ہوتے ہیں۔ وہ سرکار سے رقابت قائم کرتے ہیں اور زاھدان سے چاہ بہار تک مرکزی شاہراہ نوبندیان سے گزرتی ہے اِس وجہ سے نوبندیان ایک گزرگاہ اور مرکز بنتی ہے"۔
میرا اور دُرّا کا ارادہ تھا کہ ہم نوبندیان سے ڈائریکٹ کُنارَک جائینگے لیکن ہمیں نوبندیان سے کُنارَک جانے کے لئے ڈائرکٹ گاڑی دستیاب نہیں ہوسکی، اِس لئے ہم نے چاہ بہار کے لئے ٹیکسی پکڑی اور چاہ بہار کے لئے روانہ ہوگئے۔ چاہ بہار ایرانی بلوچستان کی اہم بندرگاہ کا حامل ساحلی شہر ہے اور یہاں پر فری ٹریڈ زون بھی قائم ہے جہاں تجارت کثرت سے کی جاتی ہے۔ چاہ بہار کی سڑکیں کشادہ ہیں اور یہاں پر صفائی کا نظام کچھ حد تک بہتر ہے کچھ حد تک اِس لئے کہ چاہ بہار کی سڑکوں پر ایک جگہ پر گندا نالہ بہہ رہا تھا لیکن مجموعی طورپر پر سڑکوں کی صفائی اچھی تھی۔ چوک اور چوراہوں کو خوبصورتی سے سجایا گیا ہے۔
چاہ بہار میں ایک جوان کندھے پر پلاسٹک کی بوری اٹھاکر کچرا چُن رہا تھا جو حلیہ سے نشئی معلوم ہورہا تھا۔ یہ منظر گوادر شہر کی گلیوں اور سڑکوں پر ہم روزانہ دیکھتے ہیں جہاں نشئی افراد اپنے نشہ کی طلب پورا کرنے کے لئے کچرا چُن کر فروخت کرتے ہیں۔ چاہ بہار کی سڑکوں پر کچرا چُننے والا جوان بھی بلوچ تھا اور وہ حلیہ سے نشئی لگ رہا تھا۔ گوادر کا بلوچ ہو یا چاہ بہار کا بلوچ، نشہ کرنا شاید بلوچ کا مقدر بن گیا ہے۔ ہائے رے بلوچ تیری قسمت!!!
چاہ بہار سے ہم نے کُنارَک کے لئے ٹیکسی پکڑی، کُنارَک ایران کا ساحلی شہر ہے جو چاہ بہار سے 45 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ کنارک میں ہمارا کزن عبدالرحمن ہمارے آنے کا منتظر تھا۔ دوپہر کو عبدالرحمن نے ہماری مہمانی کی، کھانا کھانے کے بعد ہم نے کچھ دیر کے لئے قیلولہ لیا۔ دو پہر کی نیند پوری کرنے کے بعد نہا دھوکر تازہ دم ہوئے اسی اثناء میں عبدالرحمن نے مسعود کو فون کرکے بلا لیا۔ عبدالرحمن مسعود کا ہونے والا ہم زلف ہے اور عبدالرحمن کے کہنے پر مسعود ایران کے آگے کے سفر کا ہمارا گائیڈ تھا کیونکہ ہم فارسی زبان سے نابلد تھے، مغربی بلوچستان "ایرانی بلوچستان" سے آگے ایرانی لوگ فارسی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں بات نہیں کرسکتے اور نہ ہی سمجھتے ہیں۔
مسعود ہمیں اپنی گاڑی پر کُنارَک کے ساحل پر لے گیا اور مختلف مقامات دکھائے۔ کُنارَک کی اکثریتی آبادی سنی اور بلوچ ہیں۔ یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش سمندر سے وابستہ ہے۔ کنارک میں ایرانی نیوی کا نیول بیس بھی موجود ہے۔ کنارک میں کشتی سازی کی صنعت بھی قائم ہے جہاں چھوٹی اور بڑی کشتیاں سمیت بڑے بڑے لانچ تیار کئے جاتے ہیں۔ کنارک میں زیادہ تر فائبر گلاس کی کشتیاں بنائی جاتی ہیں۔ کنارک کے ساحل پر بڑی لانچوں اور کشتیوں کی حفاظت کے لئے ایک بڑی گودی تعمیر کی گئی ہے جہاں پہنچنے کے لئے پختہ سڑک بنائی گئی ہے۔ ساحل کنارے تفریح گاہ بھی تعمیر کئے گئے ہیں جہاں لوگ سمندر کا نظارہ کرنے جاتے ہیں اور لوگ گودی پر بھی جاکر تفریح کا مزہ لیتے ہیں۔
رات کو ہم کُنارَک میں عبدالرحمن کے یہاں مہمان ٹہرے۔
Comments
Post a Comment