ایران کا سیاحتی سفر (آخری حصہ)

 عبدالحلیم حیاتان

رامسر کی خوبصورت نظاروں اور وادیوں کے مناظر اپنے دل و دماغ میں محفوظ کرنے کے بعد اب ہماری اگلی منزل ایران کا دوسرا بڑا شہر مشھد تھا، سو رامسر سے ہم مشھد کے لئے روانہ ہوئے۔ ہم نے جو سبزہ اور خوبصورت وادیوں کے مناظر شمالی ایران کے جن علاقوں اور قصبات میں دیکھے تھے اب مشھد کی طرف کوچ کرنے سے وہ مناظر کم ہوتے گئے کیونکہ مشھد کی طرف روانہ ہونے کے بعد خوبصورت اور سبزے سے ڈھکے پہاڑ اور وادیاں بتدریج کم دکھائی دینے لگتی ہیں۔ جیسے جیسے ہم مشھد کی طرف بڑھنے لگے ہم نے خوبصورت وادیوں اور سبزہ کو کم پایا۔ مشھد پہنچنے سے پہلے کئی آبادیاں بھی آتی ہیں۔

ان میں مین شاہراہ پر ہمیں بلوچ آباد نام کی آبادی کا ایک بورڈ بھی نظر آیا اور ساتھ ہی شاہراہ پر کچھ فرلانگ کے فاصلے پر وہ آبادی بھی واقع ہے جسے بلوچ آباد کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ بلوچ آباد ایران کے صوبہ گلستان میں واقع ہے۔ ہم کچھ دیر کے لئے وہاں رکے اور بورڈ کے ساتھ تصویر کھینچی۔ اس آبادی کے نام کا وجہ تسمیہ بلوچ آباد اس لئے ہے کہ یہاں پر بلوچ آباد ہیں جو صدیوں قبل ہجرت کرکے یہاں آکر رچ بس گئے، اس لئے اس آبادی کا نام بلوچ آباد پڑا ہے۔ کہتے ہیں کہ سیستان اور بلوچستان کے علاوہ  ایران کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے بلوچ قبائل نے 1940 اور 1950 کی دہائیوں میں بہتر ذرائع معاش اور بہتر سے بہتر آسائشِ زندگی کے حصول کے لئے صوبہ گلستان کی طرف ہجرت کی جو اِس صوبے کے مختلف علاقوں میں آباد ہو گئے۔ اور تب سے یہ آبادی یہاں موجود ہے اور اُن کی شناخت کے لئے اس آبادی کو بلوچ آباد سے منسوب کیا گیا ہے تاکہ ہر کسی کو پتہ چلے کہ یہاں پر بلوچ مہاجر بستے ہیں۔ 

ہم 24 گھنٹے سے زائد کا سفر طے کرنے کے بعد علی الصبح صبح مشھد پہنچے۔ ہوٹل بُک کیا اور کچھ دیر کے لئے نیند لی۔ پھر دوپہر کو مشھد شہر دیکھنے کے لئے نکلے۔ پیدل چلتے ہوئے ہم امام رضا کی درگاہ پر گئے جو ہمارے قیام گا سے کچھ ہی فاصلے پر واقع تھا۔

مشھد:
مشہد شمال مشرقی ایران کا شہر ہے جو صوبہ رضوی خراسان کا مرکز بھی ہے۔ مشھد شہر افشاری دور میں ایران کا دارالحکومت رہا تھا۔ مشہد کا پرانا نام ثناء آباد تھا، صفوی سلطنت کے دوران اِس کا نام مشہد رکھا گیا۔ مشہد عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب شھادت کی جگہ یا شہیدوں کی جگہ، مزار، درگاہ یا آستانہ ہے۔ مشہد شہر کا نام آٹھویں شیعہ امام "امام رضا" کے مزار کے نام پر رکھا گیا ہے۔ عباسی خلیفہ ہارون الرشید بھی اسی مزار کے اندر مدفُون ہیں۔

کہتے ہیں کہ امام رضا ماہ صفر 203 ھجری میں ماموں عباسی کے ہاتھوں شہید کئے گئے۔ امام رضا کی آرام گاہ (میوزیم، کتب خانہ، سیمینار، مسجد گوہر شاد اور جامعہ رضوی) پر مشتمل ہے۔ مزار کے اطراف میں مارکیٹ، بڑے بڑے شاپنگ مال، دکانیں اور ہوٹل قائم کئے گئے ہیں۔ یہاں کے بازار کو امام رضا بازار کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ مزار کو خوبصورتی سے بنایا گیا ہے۔ مزار کا کل رقبہ تقریبا 598,657 مربع میٹر پر محیط ہے۔ ہر سال لاکھوں شیعہ زائرین امام علی رضا کے مزار کی زیارت کے لئے آتے ہیں۔

بالخصوص ماہ محرم الحرام میں امام رضا کا مزار زائرین سے بھر جاتا ہے جہاں دنیا بھر کے اہلِ تشیع کے لوگ جمع ہوکر عبادت کرتے ہیں اور امام رضا سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ جس وقت ہم مشھد میں تھے یہ مہنیہ محرم الحرام کا مہینہ تھا تو مشھد میں ہر طرف ماتمی جلوس نکالے جارہے تھے اور اہلِ تشیع کے لوگ حضرت امام حسین رضہ اور شھدا کربلا سے اظہارِ عقیدت کے لئے سینہ خوبی کرتے ہوئے دکھائی دیئے اور مشھد شہر کی فضائیں یا حسین کی صداؤں سے گونج رہی تھی۔ حضرت امام رضا کے مزار پر تھل دھرنے کی جگہ نہیں تھی، حضرت امام رضا کی مزار کو بہترین نقش و نگار سے آراستہ کیا گیا ہے جس میں اسلامی نقش و نگاری کی واضح جھلک دکھائی دیتا ہے۔ ہم نے کافی کوشش کی کہ مزار پر جائیں لیکن زائرین کی بے تحاشا رش کی وجہ سے ہم مزار تک نہیں پہنچ پائے۔ مزار کے گنبد سنہری رنگ کے ہیں جو رات کو روشنیوں سے جگمگاتے ہوئے مشہد شہر کی دلفریب منظر کشی کرتی ہیں۔

کچھ دیر درگاہ پر وقت صرف کرنے کے بعد ہمارا ساتھی مسعود ہمیں اپنے ایک دوست کی ہئیر ڈریسر کی دکان پر لے گیا جو مشھد بازار کی پررُونق مقام پر واقع ہے، ہم نے دوپہر کا کھانا وہاں کھایا۔ مسعود نے اپنے ایک کاروباری دوست کو وہاں فون کرکے بلایا جو اپنے ہم ذلف کے ساتھ وہاں پہنچا۔ پروگرام بنا کہ رات کو اُن کے فارم ہاؤس پر دعوت ہوگی۔ رات کو ہم مسعود کے کاروباری دوست کے فارم ہاؤس پر اُنکے مہمان بنے۔ دعوت اڑانے کے بعد رات کو فارم ہاؤس پر ہی قیام کیا اور صبح کا ناشتہ کھانے کے بعد ہم واپس اپنی قیام گاہ ہوٹل آئے۔

اگلی صبح ہماری منزل مشھد سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سیاحتی مقام اخلم تھا۔ ہم نے ٹیکسی کرایہ پر لی اور اخلم کے لئے روانہ ہوگئے۔ اخلم مشہد شہر سے 80 کلومیٹر شمال مغرب میں اور چناران سے 24 کلومیٹر دور، بنالود پہاڑی سلسلے اور اخلام گاؤں سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اخلم وادی میں مختلف قسم کے خوبصورت پھولوں اور پودوں اور بہت سے پھلوں کے باغات کے ساتھ گھنے درخت ہیں۔ وادی میں پتھریلی دیواریں ہیں جن کی اُونچائی تقریباً 200/300 میٹر ہے۔ 

اخلم وادی میں کئی آبشاریں ہیں جن میں سے 4 مستقل اور کئی موسمی آبشاریں ہیں۔ مرکزی اخلماد آبشار تقریباً 40 میٹر بلند ہے۔ رات کو ہم نے اخلم میں قیام کیا۔ رات کو وادی اخلم میں موسم سرد تھا اور خُنکی کی وجہ سے ہمیں کمبل اوڑھنے کی ضرورت پیش آئی جب کہ نلکے کا پانی ٹھنڈا تھا۔ صبح ہم مشھد شہر کے لئے روانہ ہوئے لیکن راستے میں ہم نے طوس شہر کا بھی چکر لگایا۔ طوس شہر کی وجہ شہرت یہاں پر ایران کے صوفی بزرگ شاعر فردوسی کے مزار کی نسبت سے ہے۔ 

فارسی زبان کے عظیم شاعر فردوسی کے مزار پر حاضری:

فردوسی کا مقبرہ طوس، ایران، صوبہ خراسان میں واقع ہے۔ یہ 1930ء کی دہائی کے اوائل میں رضا شاہ کے دور حکومت میں تعمیر کیا گیا ہے۔ فردوسی کو فارسی زبان و ادب میں ایک اہم مقام اور عزت حاصل ہے۔ فردوسی فارسی زبان کی شاعری کی کتاب شاہنامہ کے مصنف ہیں۔ شاہنامہ کے لفظی معنی شاہ کے بارے یا کارنامے ہیں۔ شاہنامہ فردوسی کو فارسی ادب میں ممتاز مقام حاصل رکھنے والی شاعرانہ تصنیف جو فردوسی نے تقریباً 1000 عیسوی میں لکھی۔ شاہنامہ کا مجموعہ ساٹھ ہزار سے زائد اشعار پر مشتمل ہے جس میں ایرانی داستانیں اور ایرانی سلطنت کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ شاہنامہ فردوسی میں عظیم فارس سے لے کر اسلامی سلطنت کے قیام تک کی تیذیب، تمدن اور ثقافت کا بھر پور احاطہ کیا گیا یے۔ تمام واقعات کو شاعرانہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ شاہنامہ فردوسی دنیا کی طویل ترین تعریفی نظموں پر مشتمل شاعری کی کتاب بھی ہے جسے فارسی ادب میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ طوس مشہد شہر سے تقریبا 30 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ فردوسی کا اصل نام ابوالقاسم فردوسی تھا۔ فردوسی کا مزار ایران کی فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ سنگ مرمر سے مزین فردوسی کا مزار انتہائی خوبصورتی سے تعمیر کیا گیا ہے۔ فردوسی کے مزار کا رقبہ تیس ہزار میٹر کیوبک پر مشتمل ہے۔ 

فردوسی کے مزار پر ایران بھر سے عقیدت مند آئے ہوئے تھے اور جو بھی مزار پر حاضری دیتا تھا تو وہ پہلے سلام کرکے مزار کو ادب و احترام سے ہاتھ لگاتے۔ مزار کے اندر ایک منی میوزیم بھی بنایا گیا ہے جس میں فردوسی کے کتاب اور دیگر یادگاریں رکھی گئی ہیں۔ جب کہ مزار کی دیواروں پر فردوسی کے اشعار کنندہ کئے گئے ہیں۔ حکیم ابو القاسم طوسی المعروف فردوسی 940 عیسوی (329 ھجری) میں ایران خراسان شہر کے طوس کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ فردوسی 1020 عیسوی (410 ھجری) کو اَسی سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ 

فردوسی کا مزار دیکھنے کے بعد ہم مشھد شہر آئے اور رات کو قیام کے بعد صبح چاہ بہار کی فلائٹ پکڑی اور کنارک ایئرپورٹ پورٹ پر لینڈ کیا۔ دوپہر کو عبدالرحمن کے ہاں مہمان ٹہرے اور غروب آفتاب کے بعد چاہ بہار کے لئے روانہ ہوگئے۔ رات کو عبدالرحمن کے بہنوئی کے مہمان بنے جو ہم سے خندہ پیشانی سے ملے اور پر تکلف عشائیہ دیا۔ رات کو ہم نے میزبانوں سے گپ شپ کی اور باتوں باتوں میں ایران کے دیگر شہروں جہاں فارسی یعنی گجر آبادی کی اکثریت ہے وہاں کی سہولیات اور انفراسٹرکچر کا ذکر زیر بحث آیا جس پر ہمارے چاہ بہار کے میزبانوں نے کہا کہ آپ لوگ شمالی ایران کا سیر کرکے آئے ہیں۔ ایرانی بلوچستان کو بھی دیکھ لیں کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟۔

"وہ کہنے لگے چاہ بہار تا کنارک سڑک گزشتہ کئی سالوں سے ایک رویہ روڑ تھا اب جاکر اسے دو رویہ بنایا جارہا ہے۔ چاہ بہار پورٹ سٹی ہے۔ یہاں آزاد تجارتی زون بھی قائم ہے لیکن یہاں پر گیس پائپ لائن کی سہولت نہیں۔ گوکہ بنیادی سہولیات ایرانی بلوچستان میں ہر جگہ موجود ہیں لیکن جو سہولتیں اور آسائشیں فارسی علاقوں میں ہیں وہ یہاں پر دستیاب نہیں۔ اگر آپ ایران کے شیعہ اکثریتی علاقوں کی ترقی دیکھیں گے تو سنی اکثریتی علاقوں کے مقابلے میں اُن  کو (شیعہ اکثریتی علاقوں) کو زیادہ ترقی یافتہ پائینگے"۔

رات کو چاہ بہار میں قیام کے بعد صبح ہم ریمدان گبد کراسنگ بارڈر سے گْوادر پہنچے۔ یوں ہمارا ایران کا یادگار اور سیاحتی سفر تمام ہوا۔ ایران بلا شبہ گھومنے پھرنے کے لاحق ملک ہے۔ ایران عظیم تہذیب و تمدن اور ثقافت کا امین ملک ہے۔ ایران میں قدامت پسند حکومت ضرور قائم ہے جن کی سخت گیر پالیسیوں سے وہاں کے شہری دل ہی دل میں ناخوش بھی ہیں مگر ایران نے اپنی تہذیب اور ثقافت کو زندہ کیا ہے۔ 

بالخصوص ثقافتی ورثہ کو محفوظ بنایا ہے اور ٹورازم کو فروغ دیا ہے جو ایران کی ھزاروں سال سے قائم تہذیب اور تمدن کی عکاسی کرتا ہے جس سے ایران کی ہزاروں سال پر محیط شاندار تہذیب اور ثقافت سے کماحقہ طور پر آگاہی ملتی ہے۔ ایران کا سیاحتی سفر اتنا مہنگا بھی نہیں یہ متوسط طبقے کی دسترس میں ہے۔ اگر ایران پر بین الاقوامی سطح پر اقتصادی اور دیگر پابندیاں سمیت ایرانی حکام کی جانب سے رہن سہن اور شخصی آزادیاں ہٹا دی جائیں تو یہ ملک ٹورازم کے لئے دنیا بھر کے سیاحوں کا مرکز بن جائے گا اور یہ بھی بعید نہیں کہ ایران یورپ سے بھی آگے نکل جائے۔  
ختم شد

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں