مولا چٹک کا قدرتی حسن اور اِس پہاڑی سلسلے کی تاریخی اہمیت۔

 

 عبدالحلیم حیاتان 

ملا چٹک خضدار کے علاقے مولا میں واقع ہے۔ مولا چٹک کا خضدار شہر سے زمینی فاصلہ تقریباً 65 کلومیٹر ہے جو خضدار سے شمال مشرق کی سمت میں پڑتا ہے۔ مولا چٹک کی وجہ شہرت یہاں کے پہاڑوں سے نکلنے والے متعدد چھوٹی بڑی آبشاریں ہیں اِس وجہ سے اِس کا نام مولا چٹک پڑا ہے۔ لیکن جِس پہاڑی سلسلے میں مولا چٹک کا قدرتی حسن چھپا ہے اِن پہاڑوں کی ایک تاریخی اہمیت بھی ہے اور یہ اہمیت بلوچستان کی مزاحمتی تحریک کی نسبت سے جوڑا جاتا ہے۔
 
عیدالاضحٰی کی تعطیلات کے دوران مجھے بھی مولا چٹک کے سفر کا موقع ملا۔ اِس سفر میں برکت اللہ، شفقت علی، حاجی اختر اور شکور میرے ہمسفر رہے تھے۔ 

مولا چٹک کی مسافت خضدار شہر سے تقریباً پانچ گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ ملا چٹک کا راستہ شہداد کوٹ سندھ کی سڑک سے نکلتا ہے لیکن یہ راستہ انتہائی خستہ حال، دشوار گزار اور پہاڑی سلسلوں پر مشتمل جو کئی بڑی اور چھوٹے چڑھائی عبور کرنے کے بعد مولا چٹوک تک پہنچتا ہے جِس کی وجہ سے سفر میں پانچ گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔ مولا چٹک کے قدرتی حسن کو ایکسپلور کرنے کے لئے سیاحوں کو کھٹن سفر کے لئے ذہنی طور پر تیار رہنا پڑے گا۔

پانچ گھنٹے کا سفر طے کرکے ہم مولا چٹک کے سنگلاخ اور بنجر پہاڑوں میں پہنچے۔ پہاڑ کے نیچے مولا چٹک کی آبشاروں کا پانی ندی میں  بہہ رہا تھا۔ گرم لُو بھی چل رہی تھی. گرمی سے بچنے کے لئے ہم نے ندی میں ڈبکی لگائی جس سے ٹھنڈک کا احساس پیدا ہوا۔ نہانے کے بعد سفر کی ساری تھکاوٹ دور ہوگئی اور موسم کی سختی بھی غارت ہونے لگی۔ 

ندی کے ساتھ ہی پہاڑ کے دامن میں کیمپنگ کی۔ رات بھر ندی کی پانی کی مدھم آواز ابھر رہی تھی جیسے وہ پہاڑوں کو جگا رہی ہے۔ اور ندی کے پانی کا پتھروں سے ٹھکرانے پر ایسا گمان ہورہا تھا کہ پانی گُنگُنا رہا ہے۔ بقول شاعر،

کوہساروں کی عطا رسم نہیں خاموشی
رات سو جاۓ تو بہتا ہوا چشمہ بولے

صبح ناشتہ کھانے کے بعد مولا چٹوک کی آبشاروں کی طرف چل دیئے۔ آبشاروں تک پہنچنے کے لئے سیاحوں کو پیدل سفر کرنا پڑے گا کیونکہ یہ راستہ بہتی ندی اور چھوٹے جھرنوں سے ہوکر جاتی ہے۔ آبشاروں تک پہنچنے کے لئے آنے جانے میں تقریباً ایک گھنٹہ کا وقت صرف ہوگا۔ پانی اتنا گہرا نہیں پیدل چلتے ہوئے پانی کو آسانی سے عبور کیا جاسکتا ہے۔ 

سو ہم مولا چٹک پہنچے۔ دو تنگ پہاڑوں کے درمیان آبشار اور چشمے نکل رہے تھے۔ آبشاروں اور چشموں کی وجہ سے پہاڑوں کے درمیان قدرتی سوئمنگ پول بن گئے ہیں جہاں منچھلے اور ہر عمر کے افراد نہانے میں مصروف تھے جو آبشاروں اور چشموں کے پانی کا مزہ لے رہے تھے۔ جب لُو چل رہی ہو اور آپ کو نہانے کے لئے ٹھنڈا پانی میسر ہو تو کون نہیں ہوگا کہ وہ پانی میں ڈبکی نہیں لگائے۔ مولا چٹک میں موسم کی سختی چاہے کتنی بھی ہو لیکن یہاں کے آبشاروں کا پانی اپنی ہیت بدلتا ہے جو ہر موسم میں نہانے کے قابل ہوتا ہے۔ 

پہاڑی سلسلوں اور چشموں سے بہنے والے پانی نے سنگلاخ اور بنجر پہاڑوں کے حسن میں نکھار پیدا کیا ہے۔ پانی کے مسلسل بہنے کی وجہ سے پہاڑوں کی ساخت قدرت کی کاریگری کو آشکار کئے ہوئے تھے جو یہاں کے حسن کو دوبالا کرتے ہیں جبکہ پہاڑوں سے کئی مقامات پر پانی آبشاروں کی صورت میں نیچے گر رہا تھا جس نے سبزہ کی بنیاد رکھ دی ہے اور پہاڑ کی چوٹی پر اگے ہوئے گھاس سے پانی گر رہا تھا جس میں بھی ٹھنڈک کی تاثیر محسوس ہوتی ہے۔


ہم نے مولا چٹک کے آبشاروں اور چشموں کے پانی میں خوب نہاکر انجوائے کیا۔ پہاڑ سے نکلنے والے بڑی آبشار کے پانی کے نیچے کھڑے ہونے کے بعد جب پانی آپ پر گرتا ہے تو آپ سفر کی ساری تھکاوٹ بھول جاتے ہیں گویا آپ فزیوتھراپی یا مساج کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ہمارے آنے کے بعد یہاں سیاحوں کی آمد کا سلسلہ بتدریج جاری تھا، سیاحوں کی آمد کا سلسلہ شام گئے تک جاری رہتا ہے۔ دراصل مولا چٹک کے آبشاروں اور چشموں کے پانیوں میں غوطہ لگانا ہی مولا چٹک کے حسن سے ہم آہنگ کراتا ہے۔ کیونکہ مولا چٹک کے پہاڑی سلسلے سنگلاخ اور بنجر پہاڑوں پر مشتمل ہے جہاں آنکھوں کو خیرا کرنے والی کوئی چیز نہیں بس یہی آبشاریں اور چشمے ہیں جو تازگی کا احساس دلاتی ہیں۔  

ملا چٹک کی تاریخی اہمیت:
ابتداء میں ہم ذکر کررہے تھے کہ مولا چٹک کے پہاڑی سلسلے میں جو قدرتی حسن چُھپا ہے اِس قدرتی حسن کے علاوہ اِس پہاڑی سلسلے کی ایک تاریخی اہمیت ہے۔ اور یہ تاریخی اہمیت ساٹھ کی دہائی میں بلوچستان میں ابھرنے والی مسلح مزاحمتی تحریک سے پیوستہ ہے جس کے سرخیل نواب نوروز خان المعروف بابو نوروز خان تھے۔ جب ہم نے مولا چٹک کا سفر شروع کیا تو ہمارے گاڑی کے ڈرائیور سمیع اللہ بتا رہے تھے کہ نواب نوروز خان اور اُن کے ساتھیوں نے جب مسلح بغاوت شروع کی تھی تو مولا چٹک کے پہاڑی سلسلے اُن کی پناہ گاہ تھے۔ 

اِس بات کی تصدیق خضدار میں ہمارے میزبان عبدالقادر قمبرانی کے ایک دوست سعید نے بھی کی۔ بقول سعید "جب نواب نوروز خان اور اُن کے ساتھیوں نے مزاحمت کا راستہ اختیار کرکے پہاڑوں کا رُخ کیا تو جس جگہ پر مولا چٹک کی آبشاریں واقع ہیں تو اِس سے کچھ پَرے جو پہاڑ واقع ہیں وہاں جاکر نواب روز خان اور اُن کے ساتھیوں نے اپنی مسلح بغاوت کا آغاز کیا"۔ 

سعید کہتے ہیں"جب مولا چٹک کی آبشار اور چشموں کا اختتام ہوتا ہے تو ایک اور پہاڑی سلسلہ شروع ہوتا اور یہ پہاڑ وہی ہیں جہاں نواب نوروز خان کی قیادت میں ریاست کے خلاف مسلح تحریک شروع کی گئی۔ اور وہ یہی پہاڑ ہیں جہاں نواب روز خان کو ایوبی آمریت کے دور میں قرآن پاک کا واسطہ دے کر پہاڑوں سے نیچے اتارا گیا لیکن بعد میں دھوکہ دے کر اُن کو اور اُن کے ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا"۔ 

نواب نوروزخان اور اُن کی ساتھیوں کی مسلح تحریک بلوچستان کی تاریخ کا حصہ ہے۔ نواب نوروزخان کو دھوکے سے قرآن پاک کا واسطہ دے کر پہاڑوں سے نیچے اُتارا گیا لیکن اُن کو گرفتار کرکے جیل منتقل کیا گیا۔ 15 جولائی 1960 کو نواب روز خان کے ساتھیوں کو سکھر اور حیدرآباد جیل میں پھانسی دی گئی جن میں اُن کا بیٹا بٹے خان بھی شامل تھے جب کہ نواب نوروزخان کو پیراں سالی کی وجہ سے عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ نواب نوروزخان 25 دسمبر 1965 میں حیدرآباد جیل میں انتقال کرگئے۔ 

راقم نے مولا چٹک کی قدرتی حسن کے بارے میں سُنا تھا لیکن یہاں کے پہاڑوں میں بلوچ مسلح تحریک چلنے کے بارے میں آگاہی نہیں تھی شاید آپ میں سے کسی کو ہو؟۔ لیکن راستہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے ہم اُن پہاڑوں پر نہیں پُہنچ سکے جہاں نواب نوروز خان اور ساتھیوں نے مسلح بغاوت کے بعد مزکورہ پہاڑوں کا رُخ کیا تھا جِس کا ہمیں ملال ہے۔ مولا چٹک کے پہاڑی سلسلے میں قدرتی حسن اور بلوچستان کی مسلح بغاوت کی تاریخ دونوں کے راز موجود ہیں۔

مولا چٹک کا سفر طویل ہے ایک طرح سے یہ ایک ایڈونچر بھی ہے۔ اِس خوبصورت جگہ کو سیاحوں کے لئے مزید پرکشش بنانے کے لئے حکومتی توجہ نہیں مل رہی ہے۔ پہاڑ جہاں نیچے مولا چٹک کی ندی بہتی ہے وہاں پر تین ریزورٹ اور کچھ شیڈ تعمیر کئے گئے ہیں جو زیرِ تعمیر ہیں۔ آس پاس کھانے پینے کے ہوٹل اور دکان موجود نہیں۔ صرف ایک جھونپڑی نما دکان موجود ہے جو بند تھا جب کہ اِس دکان سے متصل دو سائبان قائم کئے گئے ہیں۔ 

جب بھی آپ کا مَن مولا چٹوک جانے کا کہے تو بڑی گاڑیوں "فور وہیل" کا استعمال کریں، کھانے پینے کی چیزوں اور کیپمنگ کا مکمل بندوست کرکے یہاں آئیں۔ اور جو لوگ موٹر بائیک کے سفر یا موٹر بائیکنگ کا شوق رکھتے ہیں اُن کے لئے یہ ایک بہترین ایڈونچر ہوگا۔ ہم نے راستے میں مقامی اور ملک کے دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے کئی موٹر بائیکرز کو مولا چٹک جاتے ہوئے دیکھا۔ 

یقیناً بلوچستان کی پہچان یہاں کی سنگلاخ و بنجر پہاڑ اور بے آب و گیاہ زمین ہیں لیکن اِن میں بھی قدرتی کا حسن چُھپا ہوا ہے جِس طرح مولا چٹک قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ اہلِ بلوچستان کو چاہئے کو وہ اپنی سرزمین کو بھی ایکسپلور کریں اور بلوچستان کے اُن نظاروں تک پہنچیں جو اب تک دُنیا کی نظروں سے اُوجھل ہیں۔ یہ سرزمین بھی بہت خوبصورت ہے۔   

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں