پائیدار ماہی گیری اور فرینڈلی ایکوسسٹم ماہی گیری کا فروغ

 عبدالحلیم حیاتان 

پائیدار ماہی گیری اور فرینڈلی ایکوسسٹم ماہی گیری کا فروغ سمندری ماحولیاتی نظام کو برقرار رکھنے اور ماہی گیروں کے روزگار کو مستحکم کرنے کا موثر ذریعہ ہے۔ لیکن بلوچستان میں پائیدار ماہی گیری کے طریقہ کار پر عمل در آمد نہیں کیا جاتا جس سے فرینڈلی ایکوسسٹم ماہی گیری کا فروغ نہیں ہورہا ہے جس کے سبب ماہی گیروں کا ذریعہ معاش متاثر ہے۔ بلوچستان کا ساحل 770 میل طویل ہے یہ ساحل ضلع لسبیلہ سے لے کر ضلع گوادر جیونی تک اختتام پذیر ہوتی ہے جس کے بعد فارس اور خلیج کی سمندری حدود شروع ہوتی ہیں۔ بلوچستان کا ساحل اپنی منفرد انواع و اقسام کی سمندری آبی حیات کے لئے بھی اہمیت کا حامل ہے۔ بلوچستان کی ساحلی پٹی دنیا بھر میں پائے جانے والے نایاب مچھلیوں اور دیگر آبی حیات و جانوروں کا مسکن بھی ہے۔ استولا (ہفت تلار) جیسے میرین پروٹیکڈڈ ایریا بھی قرار دے دیا گیا ہے بلوچستان کے ساحل کا حصہ ہے جہاں کورل ریف، سمندری پرندے، جانوروں اور مچھلیوں کی پناہ گائیں بھی موجود ہیں۔ حکومت بلوچستان نے استولا کو 2017 میں میرین پروٹیکڈڈ ایریا قرار دیا تھا۔

اسی طرح گوادر کے کوہ باتیل کے عقب میں واقع "کپیسی بیچ" جیونی کا "گریان بیچ" اور گنز کا ساحل "دران بیچ" بھی نایاب کچھووں کی مسکن گاہوں کے لئے مشہور ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں کچھوے ان بیچز پر آکر انڈے دیتی ہیں۔  

بلوچستان کے ساحل کی متعدد شکار گائیں بھی ہیں جہاں ایک زمانہ میں مچھلیوں کی بہتات پائی جاتی تھی ایک وقت ایسا بھی تھا کہ ماہی گیر ان شکار گاہوں سے کثرت کے ساتھ مچھلیوں کے شکار کرکے اپنے شب و روز راحت کے ساتھ گزارتے تھے لیکن رفتہ رفتہ بلوچستان کا ساحل مچھلیوں کے شکار کے لئے محدود ہوتا جارہا ہے اب ماہی گیر بمشکل شکار کرپاتے ہیں جس کی وجہ پائیدار ماہی گیری کے طریقہ کار کا موجود نہ ہونا ہے۔ ممنوعہ جالوں کے استعمال بالخصوص غیرقانونی ٹرالرنگ کے بڑھتے کاروبار نے بلوچستان کی اہم شکار گائیں تباہ کردی ہیں۔ غیرپائیدار ماہی گیری کی روش نے ماہی گیری کے شعبہ پر کاری ضرب لگائی ہے جو بڑھتا جارہا ہے۔ اور ساتھ ہی سمندری ماحولیاتی نظام خطرات سے دوچار ہوگیا ہے۔ 

دنیا بھر میں جہاں ساحل واقع ہیں وہاں پائیدار ماہی گیری کو فروغ دیا گیا ہے۔ جہاں پائیدار ماہی گیری کے لئے فرینڈلی ایکو سسٹم ماہی گیری کے طریقہ کار کے تحت ماہی گیری کے طریقے اپنائے گئے ہیں تاکہ آبی حیات کی نسل کشی اور ان کے معدومی کے خطرات کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ ماہی گیروں کے روزگار کو مستحکم کیا جاسکے۔ آبی حیات کی نسل کو بچانے کے لئے سمندری ماحولیاتی نظام (ایکوسسٹم) کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔

پائیدار ماہی گیری کے طریقہ کار کو اپنانے سے فرینڈلی ایکوسسٹم ماہی گیری کو فروغ ملتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے بلوچستان میں پائیدار ماہی گیری کے فروغ کے لئے پالیسی موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں فرینڈلی ایکوسسٹم ماہی گیری کا طریقہ کار نظر نہیں آتا۔ شکار اور بس شکار پر اکتفا کیا جاتا ہے جس سے سمندری ماحولیاتی نظام خطرات سے دوچار ہے۔ پہلے بلوچستان کے ساحل پر مچھلیوں یا دیگر آبی حیات کی نسل کثرت سے پائے جاتے تھے اب وہ ناپید ہوگئے ہیں۔ غیرپائیدار ماہی گیری کا یہ عالم ہے کہ گوادر کے مغربی ساحل (پدی زر) میں نایاب اور معدومی کے خطرے سے دوچار نایاب کچھووں کی نسل مردہ حالت میں پائے جاتے ہیں۔ دیگر آبی حیات بھی ساحل پر آکر ہلاک ہوتے ہیں جو غیرپائیدار ماہی گیری کا نتیجہ ہیں جو سمندر کے ایکو سسٹم کے لئے مسلسل خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ 

استولا جو میرین پروٹیکڈڈ ایریا ہے اور وہ بیچز جہاں کچھوے انڈے دیتی ہیں بھی غیرپائیدار ماہی گیری یا ممنوعہ جالوں کے استعمال کی روش سے اب غیر محفوظ ہوگئی ہیں جو سمندر کے ایکو سسٹم کے لئے خطرے کی علامت بن رہا ہے۔ 

بلوچستان میں ممنوعہ جالوں کے استعمال کے لئے قانون موجود ہے لیکن ان قوانین کا اطلاق نہ ہونے کے باعث یہ پائیدار ماہی گیری کی راہ میں رکاوٹ بن گئی ہے۔ اس کے علاوہ شکار کی کثرت بھی ایک مسئلہ بنا ہوا ہے، جب مچھلیوں کے انڈے دینے کا سیزن شروع ہوتا ہے تو عین اس وقت ان کا شکار کیا جاتا ہے جس سے مچھلیوں کی نسل معدومی کے خطرے کا شکار ہے اور یہ بھی سمندر کے ایکو سسٹم کو نقصان پہنچارہے ہیں۔  

ماہرین حیاتیات کا کہنا ہے کہ: "سمندری ماحولیاتی نظام (ایکوسسٹم) کو دوام بخشنے کے لئے آبی حیات اور جانوروں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ سمندر میں انواع اقسام کی مخلوقات کہ موجودگی کی وجہ سے یہ نظام برقرار ہے اگر یہ مخلوقات نہ ہوں تو یہ نظام متاثر ہوگا"۔

لیکن پائیدار ماہی گیری کے طریقہ کار کے فقدان کی وجہ سے سمندری ماحولیاتی نظام کو سنگین خطرات لاحق ہوچکے ہیں جو ایکوسسٹم پر مسلسل منفی اثرات مرتب کررہے ہیں۔ ایکو سسٹم کو برقرار رکھنے کے لئے پائیدار ماہی گیری کو فروغ دینا ہوگا۔ اس وقت دنیا میں مچھلیوں کے شکار کے لئے جدید طریقہ کار کا استعمال ہورہا ہے جو فرینڈلی ایکوسسٹم ماہی گیری سے ہم آہنگ ہے لیکن بلوچستان کے ماہی گیر روایتی طریقہ کار کے تحت مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں جو پائیدار ماہی گیری کے زمرے میں نہیں آتے۔ اس کے علاوہ بین الصوبائی ٹرالرز بے دریغ طور پر بلوچستان کے ساحل کا رخ کررہے ہیں جو انتہائی مہلک جالوں سے لیس ہوتے ہیں جو آبی حیات کا کثرت سے شکار کرکے لے جاتے ہیں جب کہ مقامی سطح پر پلاسٹک یا ان جالوں کا استعمال کیا جاتا ہے جو آبی حیات کے لئے ضرر رساں ہیں جو سمندری ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچا ریے ہیں۔ 

ماہرین کا کہنا ہے کہ: "سمندری ماحول کا تحفظ اور ماہی گیروں کی جدید خطوط پر تربیت کے فراہم کرنے سے ہی ماہی گیری کا شعبہ قومی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کے پانیوں میں مچھلی کی کئی اقسام میں کمی دیکھی جارہی ہے جس کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ سمندری ماحول، سمندری حیات اور ماہی گیروں کے معاشی تحفظ کے لئے جدید طریقے اور ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا جائے تاکہ پائیدار ماہی گیری کو دوام مل سکے اور فرینڈلی ایکوسسٹم ماہی گیری کے طریقہ کار کو فروغ ملے"۔ 

سمندری نظام کے تحفظ اور آبی حیات کی نسل کشی کو روکنے کے لئے پائیدار ماہی گیری کا ہونا ناگزیر ہے جس کے لئے فرینڈلی ایکو سسٹم ماہی گیری کے طریقہ کار کو فروغ کو دینا ہوگا تب جاکر اس کے مثبت اثرات دیرپا ثابت ہوسکتے ہیں اگر ایسا نہیں کیا گیا تو سمندری حیات اور سمندری ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچے گا اور یہ عوامل ماہی گیروں کے زریعہ معاش کے ذرائع کو مزید سکڑنے کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔   

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر کا تاریخی "واچ ٹاور"

گْوادر بک فیسٹیول کا آخری دن

گْوادر بُک فیسٹیول کا پہلا دن