Posts

سید نمدی

Image
 مترجم: عبدالحلیم حیاتان شارجہ 26 مارچ 63 جوھر خوش رہیں!  اِس بات کو آپ کسی اور کے علاوہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں کسی بھی خط کے جواب دینے میں تاخیر نہیں کرتا مگر آپ کے تین خطوط کا جواب نہ دینا حیران کُن ہے۔ تینوں خطوط میرے سامنے ہیں جس میں ایک خط کی تحریر کا دن 13 فروری 63 ہے اِس کے علاوہ جو میں نے سمجھا ہے اگلے دن یعنی 19 فروری 63 اِس شعر کے دو مصرعے کے بارے میں لکھا گیا ہے جو کہ خط کے اختتام پر لکھے گئے۔ آپ کے دو مصرعے،  اجل اومان کتگ زاناں منی دینکار ءِ آوار ءَ  منی دیم ءَ مروچی ایرجنت ساہ ءَ منیگ ءَ را  کے معنی کو میں نے سمجھا ہے۔ بہت خوب کہا ہے "آوار" کے معنی یہاں بہت ہی دِلکش ہے۔ ویسے "آوار" یہاں پر دو سے تین کے معنی سے ھم آہنگ ہے بنیادی معنی ایک ہی ہیں۔ "اُلس" اور "نوکیں دَور" بلوچی سے لئے گئے ہیں۔ بلوچی زبان کے تہیں اِس کو ہماری زبان اور ادب کا نام دیا گیا ہے۔ اگر ناں اِس بات کو ہرجگہ کے بلوچی زبان کے ادیب اور شاعر بخوبی جانتے ہیں کہ زبان کو اُنہوں نے کس نہج پر پہنچایا ہے۔ لیکن ہر کوئی اِس پر خاموش ہے مبادہ کوئی اِنہیں طعنہ نہ دیں کہ &qu

سید نمدی

Image
  مترجم: عبدالحلیم حیاتان  مسقط  26 دسمبر 1962ء جوھر خوش و خرم رہیں!  17 دسمبر 1962 کو لکھا گیا خط کل شام مجھے موصول ہوا ہے جو کہ پرسوں آنے والے ہوائی جہاز سے پُہنچا ہے اور آج جمعہ کا دِن ہے آپ کے خط کا جواب لکھ رہاہوں تاکہ کل جو ہوائی جہاز آپ کے ملک سے یہاں آئے اور پرسوں واپسی پر یہ خط لے جائے۔   پہلے خط کے جواب کے دیر سے آنے کی وجوہات سے آپ آگاہ رہے ہونگے جو حیرانگی کی بات نہیں کہ میرا مستقل رفیق مجھے کبھی بھی دغا نہیں دیتا وگرنہ میں اِس کا نام "مستقل رفیق" کبھی بھی نہیں رکھتا۔   میں ایک مرتبہ پھر کہتا ہوں کہ بلوچ قوم، بلوچی اور بلوچستان کو سب سے پہلے آپ جیسے ہم عصر نوجوانوں کی ضرورت ہے اور اِس بات کو آپ لوگ بخوبی جانتے ہیں۔ اگرچہ مانتے ہو یا نہیں مانتے یہ بارِگراں ہر صورت آپ لوگوں کے کندھوں پر ہے۔ اِس لئے میری نصیحت یہی ہے کہ اِس امانت کو منزل تک پہنچانے کے لئے کسی بھی قسم کی کوتاہی نہ کریں اور یہ بار جب تک منزل تک نہیں پہنچے کسی بھی صورت تمھارے کندھوں سے نہیں ہٹے گا۔ اگر لاپرواہی اور کوتائی کروگے پھر یقین جانو یہ بارِ گراں آپ لوگوں کے کندھوں سے ہٹنے کی بجائے آپ لوگوں پر ہ

سپر ءِ ￵اھوال

Image
عبدالحلیم حیاتان گْوادر گرم اَت لین ھم شوک نہ اِتاں۔ توپانیں گرم  ءَ چہ  وتارا رکّینَگ  ءِ ￵ ھاتر  ءَ دِل ھُلّ کُت کہ گوں سنگتاں پاکستان  ءِ ￵گوریچانی  ءُ ￶سارت اِیں دمگانی تَر  ءُ ￶تاب  ءَ ￴برواں ۔ ما چہ گْوادر  ءَ ￴جولائی  ءِ ￵10 تاریخ  ءَ ￴وتی سپر  ءِ ￵بندات کُرت۔ مئے اولی بُنجَل بلوچستان  ءِ ￵مزن شھر شال اَت۔ دومی روچ  ءَ ￴ما پہ اسلام آباد  ءِ ￵سپر دَر کپتیں۔ شال  ءَ ￴بگر تا اسلام آباد  ءَ ￴ مئے سپر ”Sleeping Bus“ گوما بُوتگ  ءَ۔ اے اولی بَر اَت کہ من  ءُ ￶مئے گیشتراِیں سَنگت ”Sleeping Bus“  ءِ سپراِتیں۔ کساس 18 کلاکانی  ءَ ￴سپر  ءَ ￴رَند ما ھاکمانی شھر اسلام آباد  ءَ ￴سَربیت اِیں۔ بلے 18 کلاکانی سپر  ءَ ￴ما بقول  ءِ ￵اے بی دشتی  ءِ ￵ئیگ ءَ "سُچ مُچ" نبیت اِیں۔ بزاں کہ دَم نہ بُرت۔ اے ہمے ”Sleeping Bus“  ءِ ￵کمال اَت۔ ”Sleeping Bus“  ءِ ￵نَول بزاں کہ کرایہ 5000 کلدار اِنت۔  اسلام آباد  ءَ ￴یک شپے  ￶جَلّگ  ءَ ￴پَد مئے سپر کے پی کے  ءِ ￵گوریچانی دَمگانی واست  ءَ ￴بندات بیت۔ مئے اولی بُنجل “بحرین” شھر اَت۔ شپ  ءَ ￴عشا ءِ ￵وھد  ءُ ￶پاساں ما بحرین  ءَ ￴سَر بیتیں ۔ ھَور نرم نرم

ماہی گیروں پر لیبر لاز کے اطلاق کی موجودہ صورتحال

Image
     عبدالحلیم حیاتان  مزدوروں کی طرح ماہی گیروں کا پیشہ بھی پُر خطر سمجھا جاتا ہے مگر ماہی گیروں کو دیگر مزدور پیشہ افراد کے مقابلے میں لیبر لاز یا قوانین کے تحت طے کردہ مراعات سے محرومی کا سامنا ہے۔ صنعتوں یا کارخانوں میں کام کرنے والے کارکُن لیبر قوانین کے تحت قانونی مراعات اور دیگر سہولتوں کا حق دار ہوتے ہیں۔ اگر ماہی گیروں کو دورانِ کام کسی بھی قسم کا نقصان پہنچے تو اُن کی دستگیری کرنے والا کوئی بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی ماہی گیروں کو لیبر قوانین کے تحت معاوضہ ملتا ہے۔ ماہی گیروں کی سوشل سیکورٹی رسک پر ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ماہی گیروں کو قانون مراعات وغیرہ کے لئے کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں کہ جن سے اُن کی سوشل سیکورٹی کے مسائل حل ہو سکیں۔ دورانِ شکار ماہی گیر قدرتی آفات اور ناگہانی واقعات کا شکار ہوکر جانی و مالی نقصان اٹھاتے ہیں لیکن لیبر قوانین کا اطلاق نہ ہونے کی وجہ سے ماہی گیر مزدوروں میں شُمار نہیں جِس کے سبب ماہی گیروں کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہوتا۔ حکومت معاوضہ دے تو ماہی گیر اپنی زندگی کی ناؤ چلانے کا اہل بَن سکتا ہے۔ اگر حکومت نظر انداز کرے تو ماہی گیر اپنی زندگی کی تمام ج

مولا چٹک کا قدرتی حسن اور اِس پہاڑی سلسلے کی تاریخی اہمیت۔

Image
    عبدالحلیم حیاتان  ملا چٹک خضدار کے علاقے مولا میں واقع ہے۔ مولا چٹک کا خضدار شہر سے زمینی فاصلہ تقریباً 65 کلومیٹر ہے جو خضدار سے شمال مشرق کی سمت میں پڑتا ہے۔ مولا چٹک کی وجہ شہرت یہاں کے پہاڑوں سے نکلنے والے متعدد چھوٹی بڑی آبشاریں ہیں اِس وجہ سے اِس کا نام مولا چٹک پڑا ہے۔ لیکن جِس پہاڑی سلسلے میں مولا چٹک کا قدرتی حسن چھپا ہے اِن پہاڑوں کی ایک تاریخی اہمیت بھی ہے اور یہ اہمیت بلوچستان کی مزاحمتی تحریک کی نسبت سے جوڑا جاتا ہے۔   عیدالاضحٰی کی تعطیلات کے دوران مجھے بھی مولا چٹک کے سفر کا موقع ملا۔ اِس سفر میں برکت اللہ، شفقت علی، حاجی اختر اور شکور میرے ہمسفر رہے تھے۔  مولا چٹک کی مسافت خضدار شہر سے تقریباً پانچ گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ ملا چٹک کا راستہ شہداد کوٹ سندھ کی سڑک سے نکلتا ہے لیکن یہ راستہ انتہائی خستہ حال، دشوار گزار اور پہاڑی سلسلوں پر مشتمل جو کئی بڑی اور چھوٹے چڑھائی عبور کرنے کے بعد مولا چٹوک تک پہنچتا ہے جِس کی وجہ سے سفر میں پانچ گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔ مولا چٹک کے قدرتی حسن کو ایکسپلور کرنے کے لئے سیاحوں کو کھٹن سفر کے لئے ذہنی طور پر تیار رہنا پڑے گا۔ پانچ گھنٹے

ترک کے لشکر کا تلار میں بے جان پتھر بن جانا

Image
عبدالحلیم حیاتان  بلوچی زُبان کے معروف ادیب ڈاکٹر اے آر داد نے حال ہی میں اپنے فیس بُک وال پر ایک بلوچی تحریر شائع کی ہے جو عبداللہ بی اے نامی لکھاری کی ہے جس کا عنوان ہے "ترک ءِ جن ءُ چُک" یعنی (ترک کے بیوی بچے)۔   جب آپ کسی زمانہ میں گْوادر سے تُربت کی طرف سفر کررہے تھے تو آپ کو تلار کے پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع ایک بڑے میدان میں کچھ ایسے پراسرار پتھر کے مجسمے نظر آتے تھے جو انسانی شبیہہ جیسے تھے لیکن گزشتہ کئی سالوں سے اِن پر اسرار اور غیر معمولی پتھروں کا منظر گوادر تُربت سفر کے دوران نظر نہیں آتے۔ کیونکہ ایم ایٹ شاہراہ یہاں سے گزر رہی ہے جس کی تعمیر کے دوران یہ پر اسرار پتھروں کے مجسمے شاہراہ کی زد میں آگئے ہیں جِن کا نشان اب مٹ چکے ہیں یا شاہراہ تلے دب چکے ہیں۔  ڈاکٹر اے آر داد نے عبداللہ بی اے کی جو تحریر شائع کی ہے اس میں عبداللہ بی اے لکھتے ہیں کہ " ترک کا لشکر ھندوستان کو تاراج کرنے کی نیت سے روانہ ہوتا ہے جب ترک کا لشکر کوئٹہ کے نزدیک پہنچتا ہے تو یہ دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ لشکر کا ایک حصہ دہلی اور بنگال سمیت دیگر ملکوں کو تاراج کرنے کے لئے پیش قدمی کرتا

ایران کا سیاحتی سفر (آخری حصہ)

Image
 عبدالحلیم حیاتان رامسر کی خوبصورت نظاروں اور وادیوں کے مناظر اپنے دل و دماغ میں محفوظ کرنے کے بعد اب ہماری اگلی منزل ایران کا دوسرا بڑا شہر مشھد تھا، سو رامسر سے ہم مشھد کے لئے روانہ ہوئے۔ ہم نے جو سبزہ اور خوبصورت وادیوں کے مناظر شمالی ایران کے جن علاقوں اور قصبات میں دیکھے تھے اب مشھد کی طرف کوچ کرنے سے وہ مناظر کم ہوتے گئے کیونکہ مشھد کی طرف روانہ ہونے کے بعد خوبصورت اور سبزے سے ڈھکے پہاڑ اور وادیاں بتدریج کم دکھائی دینے لگتی ہیں۔ جیسے جیسے ہم مشھد کی طرف بڑھنے لگے ہم نے خوبصورت وادیوں اور سبزہ کو کم پایا۔ مشھد پہنچنے سے پہلے کئی آبادیاں بھی آتی ہیں۔ ان میں مین شاہراہ پر ہمیں بلوچ آباد نام کی آبادی کا ایک بورڈ بھی نظر آیا اور ساتھ ہی شاہراہ پر کچھ فرلانگ کے فاصلے پر وہ آبادی بھی واقع ہے جسے بلوچ آباد کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ بلوچ آباد ایران کے صوبہ گلستان میں واقع ہے۔ ہم کچھ دیر کے لئے وہاں رکے اور بورڈ کے ساتھ تصویر کھینچی۔ اس آبادی کے نام کا وجہ تسمیہ بلوچ آباد اس لئے ہے کہ یہاں پر بلوچ آباد ہیں جو صدیوں قبل ہجرت کرکے یہاں آکر رچ بس گئے، اس لئے اس آبادی کا نام بلوچ آباد پڑا ہے