Posts

Showing posts from 2021

بُڈُوک کُمب

Image
 چھب ریکانی نگور کا بُڈُوک کُمب عبدالحلیم  بلوچستان اپنے سنگلاخ چٹانوں، مٹی کے پہاڑوں کے پر اسرار اشکال،  قدرتی چشموں، پر کشش ساحل اور ریگستانوں کی وجہ سے جِدت کا پیکر ہیں۔ یہ منظر اپنے نظارہ کرنے والوں پر عجیب کیفیت طاری کرتے ہیں۔  آئیئے ہم آپ کو صوبہ بلوچستان کے ضلع گوادر میں واقع پانی کے ایک قدرتی ذخیرہ جسے بلوچی زبان میں "کُمب" کہتے ہیں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ یہ کُمب مٹی  کے دو خشک ٹیلوں کے درمیان واقع ہے۔ اِس کُمب کا پانی اپنی نیلے رنگت کی وجہ سے آنکھوں کو خِیرہ کرتی ہیں۔  اِس کُمب کی تصویر دُر محمد نگوری کی مدد سے حاصل کی گئی ہے۔ یہ کُمب گوادر شہر سے شمال کی طرف نگور کے ایک قصبے چھب ریکانی میں واقع ہے جس میں سالہا سال پانی کا ذخیرہ موجود ہوتا ہے۔ گوادر شہر سے یہ کُمب تقریبا 35 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ مقامی لوگ اسے "بُڈُوک کمب" کے نام سے پکارتے ہیں۔  دُرمحمد نگوری کا تعلق نگور کے ڈَگارُو نامی قصبے سے ہے۔ وہ ڈسٹرکٹ کونسل گوادر کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔ دُر محمد نگوری اِس کُمب کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ کُمب سربندن ندی کے سنگم پر واقع ہے جس کا پانی دَڑامب نامی

شیطان ءِ بَزگی

Image
بلوچی افسانہ: شیطان ءِ بزگی  تحریر: ارشاد عالم مترجم: عبدالحلیم حیاتان وہ ایک گڈریا تھا۔ وہ علی الصبح گاؤں کا ریوڈ لیکر چرانے کے لئے جنگل کی طرف نکل جاتا تھا۔ ایک روز وہ ریوڈ چرا رہا تھا کہ وہاں پر ایک پک اپ گاڑی آکر رُکتی ہے۔ سلام و دعا کے بعد گڈریا نے گاڑی پر سوار لوگوں کے لئے دودھ پتی چائے بنائی۔ چائے نوش کرنے کے بعد وہ لوگ وہاں سے روانہ ہوتے ہیں۔ دوسرے دن گڈریا پھر اِسی مقام پر ریوڈ چرا رہا تھا۔ پھر وہی لوگ گاڈی کے ساتھ وہاں آکر رُکتے ہیں۔ اِس مرتبہ گاڈی میں بہت ساز و سامان بھی لدا ہواتھا۔ چائے پانی پینے کے بعد وہ پھر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ اُن کے جانے کے بعد گڈریا گہری سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ یہ کون لوگ ہیں اور کیا کاروبار کرتے ہیں؟۔ یہاں پر نہ کوئی سرائے ہے۔ ہونا ہو یہ ضرور دشمن دار لوگ ہیں، اسمگلر ہیں یا ڈاکو ہونگے۔ گڈریا مسلسل اپنے خیالوں کے گھوڑے دورہا تھا۔ جب وہ رات کو گھر لوٹا تو اُس کو رات دیر تک نیند بھی نہیں آئی۔ زیادہ تر اِس کو اِس بات کا ملال رہا کہ اُس نے اُن اجنبی لوگوں سے انکی حقیقت کے بارے میں کیوں نہیں پوچھا۔؟ تیسرے دن وہ لوگ پھر گڈریا کے پاس آتے ہیں۔ گڈریا ا

بلوچستان کے ماہی گیروں کے خوشحالی کے دن کب شروع ہونگے؟۔

Image
 بلوچستان کے ماہی گیروں کے خوشحالی کے دن کب شروع ہونگے؟۔ عبدالحلیم  بلوچستان کا ساحلی پٹی 770 کلومیٹر طویل ہے۔ گڈانی سے لیکر جیونی تک یہ ساحل نہ صرف دل فریب مناظر کا حسین امتزاج ہے بلکہ یہ دنیا بھر کی مختلف انواع اقسام کی آبی حیات سے بھری پڑی ہے۔جب کوئی مکران کوسٹل ھائی وے سے اپنی سفر کا آغاز کرتاہے تو موجیں مارتا سمندر اس کی سفر کی تمام تھکان کو ہلکان کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے جبکہ ساحل، ریت اور پہاڑوں کا سنگم اس کی آنکھوں کو خیرا کرنے میں مددگار ثابت ہونگی۔ یہاں پر فشنگ انڈسٹریز اور سیاحت کو فروغ دینے کے لئے بہت سے مواقع موجود ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بلیو اکانومی ملکی معشیت کو مستحکم کرنے کا ایک اہم جُز سمجھا جاتا ہے۔ بلیو اکانومی کی ترقی میں پاکستان خطے کے دیگر ممالک سے بہت پیچھے ہے۔ بالخصوص بلوچستان کا ساحل پائیدار منصوبہ بندی کے حوالے سے ابھی تک تشنہ لب ہے۔ نہ صرف تشنہ لب ہے بلکہ ماہی گیری کی صنعت زوال پذیری اور غیر قانونی ٹرالرنگ کے آسیب کا شکار ہے۔ بلوچستان کا ساحل عرصہ ہوا ہے غیر قانونی ٹرالرنگ کے نرغے میں ہے۔ موثر قانونی سازی کی عمل درآمد میں حائل کمزوریوں کی وجہ سے گڈان

گوادر یونیورسٹی کے قیام کا خواب کب پورا ہوگا؟

Image
گوادر یونیورسٹی کے قیام کا خواب کب پورا ہوگا؟ عبدالحلیم  اس وقت گوادر کے نوجوانوں کی جانب سے گوادر یونیورسٹی کے قیام کے لئے سوشل میڈیا کے تمام ذرائع پر #GwadarNeedsUniversity کی ہیشٹیگ کی کمپین جاری ہے۔ بالخصوص سماجی رابطہ کی سب سے موثر ترین ویب سائیٹ ٹویئٹر پر یہ کپمین زوروں پر ہے۔ اس کے علاوہ گوادر یونیورسٹی کی کمپین کا پلے کارڈز گوادر کا ہر شہری تھامے ہوئے سوشل میڈیا پر گوادر یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ گوادر میں میگا پروجیکٹس کے آغاز کے ساتھ ہی گوادر کے مقامی آبادی کو یہ مژدہ سنایا گیا تھا کہ بہت جلد یہاں پر اعلٰی ثانوی اور فنی ادارے قائم کئے جائینگے تاکہ مقامی نوجوان میگا پروجیکٹس کی تکمیل کے بعد اعلٰی تعلیم یافتہ اور ہنر مند بنکر ترقی کے عمل کا حصہ بن جائے۔ گوادر پورٹ بن گیا اس کے بعد سی پیک کے منصوبے بھی شروع ہوگئے آج کا دن ہے گوادر میں اعلٰی تعلیمی درسگاہوں کے قیام کا منصوبہ ادھورا ہے۔  خصوصاً سی پیک کے متعارف ہونے کے بعد گوادر میں اعلٰی تعلیمی درسگاہوں کی تعمیر کی نوید کو شد و مد کے ساتھ پذیرائی بھی دی گئی۔ اس ضمن میں اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان میاں م

جیونی شہر کی اہمیت اور پانی کا بحرن

Image
   جیونی شہر کی اہمیت اور پانی کا بحران عبدالحلیم ضلع گوادر کا ساحلی شہر جیونی گوادر سے تقریبا 75 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور ایرانی سرحد سے جیونی کی مسافت صرف 34 کلومیٹر  کی دوری پر ہے۔ جیونی زمانہ قدیم سے  خطے میں اسٹریٹجک اہمیت کا حامل علاقہ رہا ہے جو خلیج فارس سے اور اس سے نقل و حمل کے راستوں سے متصل ہے۔ تقسیم ہند سے قبل یہ علاقہ برطانیہ کا بندوبستی علاقہ رہا ہے۔ جیونی شہر سے تقریبا 10 کلومیٹر کے فاصلہ پر برطانیہ کے زمانہ میں قائم ایئرپورٹ اب بھی موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ایئرپورٹ جنگ عظیم دوئم کے دوران  استعمال میں لایا گیا تھا۔ پی آئی اے کی ڈومیسٹک پروازیں بھی اس ایئرپورٹ سے اپنی اڑانیں بھرتی تھیں لیکن عرصہ ہوا ہے ایئرپورٹ کو فلائٹ آپریشن کے لئے بند کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جیونی کا ساحل غروب آفتاب کےمنظر کی وجہ سے بھی مشہور ہے جس کا اندازہ وکٹوریہ ہٹ کی تعمیر سے لگایا جاسکتا ہے۔ کہتے ہیں وکٹوریہ کی ملکہ نے جیونی کے ساحل پر ہٹ کی تعمیرات کا حکم  دیا تھا تاکہ جب ان کا یہاں آنا ہو تو وہ غروب آفتاب کا نظارہ کرسکیں۔ لیکن اس کے شواہد موجود نہیں  وکٹوریہ کی ملکہ اس مقصد کے لئے ی

استاد عبدالمجید گوادری، ایک عہد ساز شاعر

Image
استاد عبدالمجید گوادری، ایک عہد ساز شاعر عبدالحلیم بلوچی زبان کے معروف راجی شاعر استاد عبدالمجید گوادری 1937 میں بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں پیدا ہوئے۔ مرحوم نے اپنا کیریئر بطور استاد شروع کیا۔ وہ ایک عرصہ تک درس و تد ریس کے شعبہ سے وابستہ رہے۔ ساٹھ کی دہائی میں وہ یہ شعبہ ترک کر کے مسقط اومان چلے گئے، جہاں ان کو بطور سویلین مسقط آرمی میں استاد مقر ر کیا گیا۔ وہ اومانی فو ج میں انگریزی کے ساتھ ساتھ بلوچی بھی پڑھاتے رہے۔ طویل عرصہ تک اومانی فوج میں خدمات سرانجام دینے کے بعد ان کو وہاں کی شہریت دی گئی۔ استاد عبدالمجید گوادر ی نے دیارِ غیر میں رہ کر بھی اپنی زبان سے قربت او ر لگاؤ کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ وہ آخری سانس تک بلوچی ادب کی خدمت کرتے ہوئے اپنی ادبی تخلیقات کو منظر عام پر لاتے رہے۔ استاد کو بلوچی زبان کے معروف شاعر، ماہر لسانیات اور محقق مرحوم سید ظہور شاہ کی سنگت بھی حاصل رہی تھی اور ظہور شاہ کی رہنمائی میں استاد اور مرحوم اللہ بخش جوہر بلوچی صنف کی شاعری میں ان سے فیض یاب ہوتے رہے ہیں۔ استاد عبدالمجید گوادری کی شاعری کا اسلوب انہتائی اہمیت کا حامل ہے۔ وہ اپنی شاعری میں ای

گوادر میں ناکو عیدو کی ریڈیو کی دکان

Image
  گوادر میں ناکو عیدو کی ریڈیو کی دکان عبدالحلیم گوادر کا شاہی بازار کسی زمانہ میں اپنی اہم تجارتی اور زندگی کی رمق آموز رعنائیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا لیکن وقت کے تیز و تند تھپیڑوں نے شاہی بازار کی رعنا ئیوں کے رنگ کو اب بے رنگ کر دیا ہے۔ لیکن اس میں ایسی متعدد باقیات اب بھی موجود ہیں جو اجڑتے ہوئے شاہی بازار گوادر میں ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتی اور ماضی کے رنگوں کی یاد دلاتی ہیں۔ ان باقیات میں سے ایک ناکو عیدو ریڈیو ساز کی دکان بھی ہے۔ ناکو عیدو نے اپنے اس ہنر کا آغاز ہماری یاداداشت سے قبل کیا۔ کیونکہ جب ہم آغا خان اسکول میں پڑ ھنے جاتے تھے تو شاہی بازار کی پررونق گلیاں ہمارا رستہ ہوا کرتی تھیں اوران رستوں میں عیدو ریڈیو ساز کی دکان بھی پڑتی تھی۔ دکان میں بیٹھا ہوا بزرگ شخص پرانے اور ہر قسم کے ریڈیو کے پرزے جوڑتے ہوئے نظر آتا تھا۔ اس منظر کو کئی برس بیت چکے ہیں لیکن ناکو عیدو کا ہنر ہنوز جاری ہے۔ ہمارے مہربان دوست اور ناکو عیدو کے بیٹے نور (نور کمیونیکیشن گوادر والے) کہتے ہیں کہ ان کے والد بزرگوار کا یہ ہنر گزشتہ 50 سالوں سے جاری ہے. اُن کے والد ریڈیو بنانے کے ساتھ

دشت ءِ کوھنیں آپ واری ھوٹگ

Image
 دشت ءِ کوھنیں آپ واری ھوٹگ  عبدالحلیم مکران ءِ ھند ءُ دمگاں  بازے کوھنیں ءُ کدیمی جاگہ ھست اَنت کہ اشانی تھا یکّے کسَر ڈَنُک ءَ باز کوھنیں آپ واری ھوٹگے ھم ھست۔ اے ھوٹگ یَک ھدائی بندگے کہ نام ئے میا مَلّگ بوتگ ہمائی ءَ وتی وھد ءَ جوڈ کُتگ۔ مِیا ملَگ چونائی ءَ سیادی ءَ منی بُن پِیرُک بیت۔  میّا ملّگ ءِ جوڈ کُتگیں اے ھوٹگ ءَ کساس دو سد سال بیت۔ ھوٹگ دشت ضلع کیچ ءِ کَسر ڈَنُک بازار ءِ دَمگ ءَ اِنت کہ ھمے جاگہ ءَ گَرگانڈ گُش اَنت۔ پمشکہ اے ھوٹگ ءِ نام چہ گَرگانڈ ءَ مشھور اِنت۔  اے ھوٹگ گَلگانی راہ ءِ سر ءَ جوڈ کَنگ بیتگ۔ آ زمانگ ءَ چوش کہ گاڈی ءُ موٹرانی سَر ءَ سپر کنگءِ ھچ پیمیں آسراتی نہ بُوتگ پمیشکہ مَردماں اُشتر ءِ سر ءَ سپر کُتگ ءُ گَلگیاں گیشتر گرگانڈ ءِ راہ کار مَرز کُتگ۔زگریانی کوہ ءِ مُراد ءَ رؤکیں کاروان ھم چَمِدا گوستگ ءُ شُتگ اَنت۔ ھمے کاروانی اگاں شَپ کَپتگ اَنت یا دم ءِ بالا کنَگ لوٹ اِتگ ئے گُڑا ھمے ھوٹگ آھانی بُنجَل بوتگ بزاں یک ھسابے ءَ گَلگیانی منزلے بیتگ۔ آ زمانگ ءَ واجہ میا مَلّگ ءُ آئی ءِ کہول ءِ مَردم وت ھم ھمے ھوٹگ ءِ ھاک ءِ سر ءَ جھمِنند بیتگ اَنت۔ گلک کہ اتکگ اَنت

میں کنارا دیکھ نہ پایا!

Image
میں کنارا دیکھ نہ پایا! عبدالحلیم عید کی شام میں نے اپنے پیاروں امی جان، دادی جان اور شہید لالا جان کے ایصالِ ثواب کے لیے قبرستان کا رخ کیا اور کچھ دیر اپنے پیاروں کے مقبروں کا دیدار کرنے کے بعد واپس گھر لوٹ رہاتھا کہ دل نے امنگ بھری کہ دیمی زِر کا بھی نظارہ کروں. کیونکہ وبا کے دنوں میں امسال عید کا تہوار بہت پھیکا ثابت ہوا ہے لہٰذا اپنی اس بوریت کو ختم کرنے کے لیے میں نے اپنے موٹر سائیکل کا رخ دیمی زِر کی طرف کیا. دیمی زِر سے ہماری کئی یادیں وابستہ ہیں. بچپن، لڑکپن اور جوانی کے بیشتر ایام ہم نے دیمی زِر کی آغوش اور اس کے کنارے گزارے ہیں. دیمی زر کی مست لہروں اور ہمارا جیون ساتھی جیسا تعلق ہے. جب جون جولائی کی جھلسا دینے والی گرمی ہمیں ستاتی تو دیمی زِر کا نیلگوں پانی ہماری راحت کا ساماں پیدا کرتا. پھر ہم ہوتے اور دیمی زِر کی ٹھاٹھیں مارتی لہریں اور لہروں سے کھیلنے کے لیے کنارہ پر کھڑی کشتیوں سے "پَرش” لکڑی کی پٹی لے کر روایتی سرفیسنگ کرتے. کبھی ہم دیمی زِر کی لہروں کو چھکما دیتے تو کبھی یہ لہریں زیر آب کرتے. لیکن لہروں سے ہم کبھی بھی جیت نہ پائے. سرفیسنگ کے بعد "شُر” نامی چھ