استاد عبدالمجید گوادری، ایک عہد ساز شاعر

استاد عبدالمجید گوادری، ایک عہد ساز شاعر


عبدالحلیم

بلوچی زبان کے معروف راجی شاعر استاد عبدالمجید گوادری 1937 میں بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں پیدا ہوئے۔ مرحوم نے اپنا کیریئر بطور استاد شروع کیا۔ وہ ایک عرصہ تک درس و تد ریس کے شعبہ سے وابستہ رہے۔ ساٹھ کی دہائی میں وہ یہ شعبہ ترک کر کے مسقط اومان چلے گئے، جہاں ان کو بطور سویلین مسقط آرمی میں استاد مقر ر کیا گیا۔ وہ اومانی فو ج میں انگریزی کے ساتھ ساتھ بلوچی بھی پڑھاتے رہے۔

طویل عرصہ تک اومانی فوج میں خدمات سرانجام دینے کے بعد ان کو وہاں کی شہریت دی گئی۔ استاد عبدالمجید گوادر ی نے دیارِ غیر میں رہ کر بھی اپنی زبان سے قربت او ر لگاؤ کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ وہ آخری سانس تک بلوچی ادب کی خدمت کرتے ہوئے اپنی ادبی تخلیقات کو منظر عام پر لاتے رہے۔

استاد کو بلوچی زبان کے معروف شاعر، ماہر لسانیات اور محقق مرحوم سید ظہور شاہ کی سنگت بھی حاصل رہی تھی اور ظہور شاہ کی رہنمائی میں استاد اور مرحوم اللہ بخش جوہر بلوچی صنف کی شاعری میں ان سے فیض یاب ہوتے رہے ہیں۔ استاد عبدالمجید گوادری کی شاعری کا اسلوب انہتائی اہمیت کا حامل ہے۔ وہ اپنی شاعری میں ایسے الفاظ کا چناؤ کر تے تھے جن کی معنوعیت انتہائی گہری تھی۔ ان کی شاعری میں استعارہ، وطن سے محبت اور معاشرتی رہنمائی کے اسلوب نمایاں طور پر نظر آ تے ہیں۔

استاد ایک درویش صفت ادبی رہنما تھے۔ وہ نام و نمود کے کبھی بھی قائل نہیں رہے بلکہ اپنی تخلیقات سے اپنی ہمہ گیر شخصیت کی پہچان کراتے رہے۔ وہ ادبی پروگراموں میں شر کت کرنے سے زیادہ اپنے شعری کام کی ترویج کو فوقیت دیتے تھے۔

استاد کا ایک مشہور گیت ’’ما چکیں بلوچانی، ماچکیں بلوچانی‘‘ آج بھی ہر محفل میں گونجتا ہے۔ کئی دہائیاں بیت جانے کے باوجود یہ گیت ہر نسل کے ادبی شغف رکھنے والوں سمیت من الیحیث معاشرہ بے حد پسند کیا جاتا ہے۔ اس گیت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ یہ گیت بلوچی قومی ترانے کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ موسیقی کی محفل ہو یا دیگر کوئی ادبی سرگر میاں اس گیت کی فرمائش مسلمہ رہتی ہے۔

استاد عبدالمجید اپنی ادبی زندگی میں ایک اثاثہ تھے، جس کا پتہ ان کی متعدد تصانیف میں واضح طو ر پر ملتا ہے۔ ان کے پاس لفظوں کا ایک وسیع ذخیرہ تھا۔ بلوچی زبان و ادب میں ان کی شاعری غیرمعمولی اسلوب کا شاہکار ہے۔ اگر اس طرح کہا جائے کہ سید کے بعد استاد بلوچی شاعری میں تحقیقی اسلوب کا حامل شاعر تھے تو بے جا نہ ہوگا۔ اومان میں مقیم رہنے کے باوجود وہ اپنی جنم بھومی کے عشق کو بھی کبھی نہ بھولے بلکہ جنم بھومی کا دیدار ان کے چلن میں شامل تھا۔ استاد کی بیشتر شاعری میں اپنی جنم بھومی سے عشق اور وارفتگی کا اظہار واضح طور پر جھلکتا ہے۔

استاد عبدالمجید گوادری کو پا کستان کے علاوہ مسقط اومان کی دہری شہریت بھی حاصل تھی ۔ مگر زندگی کے آخری ایام میں وہ شدید علیل ہو کر کراچی کے ایک اسپتال میں زیر علاج رہے۔ طویل عرصہ صاحبِ فراش رہنے کے بعد مورخہ 23 فروری کو اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے۔

استاد عبدالمجید گوادر کی ادبی خدمات کے صلے میں گزشتہ برس گوادر پورٹ اتھارٹی کی تجویز پر ضلعی انتظامیہ نے ہاربر روڑ کو ان کے نام سے منسوب کیا ہے جب کہ استاد کو ان کی شاعری کی ایک کتاب پر اکادمی ادبیات پا کستان کی جانب سے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

استاد عبدالمجید گوادری نے اپنی زندگی میں کئی شعری مجموعے تصانیف کیے، جن میں گلیں باندات، نپتیں سگار، ترانج، سو سنیں گیوار، شَند، جزءُ تَلمل، ریدگیں ریز، شَدر ءُ اَرجَل، لاس ءُ الماس، ابدمان، اِناش، اَبرم، زَیچان ، اِیرلہ، ھَوات، المباتیر اور ماھلنج ءِ شراب ھانہ شامل ہیں جب کہ دیگر چار شعری مجموعہ جس میں اَجام، گِدروشیا، مھگونگ ءِ بُت ھانہ اور کاتیال زیرتصنیف ہیں۔

استاد عبدالمجید گوادری ایک عہد ساز شاعر تھے۔ انہوں نے سید ظہور شاہ ہاشمی کی طرح اپنے پیچھے ایک ضخیم ادبی ورثہ چھوڑا ہے۔ استاد کی رحلت سے بلوچی زبان و ادب ایک اور عہدساز شاعر سے محروم ہوگئے ہیں۔ شاید ان کا خلا پُر ہو سکے لیکن ان کا ادبی ورثہ بلوچی ادب اور زبان کی رہنمائی کا بہتر ین ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔


Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں