میں کنارا دیکھ نہ پایا!

میں کنارا دیکھ نہ پایا!



عبدالحلیم

عید کی شام میں نے اپنے پیاروں امی جان، دادی جان اور شہید لالا جان کے ایصالِ ثواب کے لیے قبرستان کا رخ کیا اور کچھ دیر اپنے پیاروں کے مقبروں کا دیدار کرنے کے بعد واپس گھر لوٹ رہاتھا کہ دل نے امنگ بھری کہ دیمی زِر کا بھی نظارہ کروں.

کیونکہ وبا کے دنوں میں امسال عید کا تہوار بہت پھیکا ثابت ہوا ہے لہٰذا اپنی اس بوریت کو ختم کرنے کے لیے میں نے اپنے موٹر سائیکل کا رخ دیمی زِر کی طرف کیا.

دیمی زِر سے ہماری کئی یادیں وابستہ ہیں. بچپن، لڑکپن اور جوانی کے بیشتر ایام ہم نے دیمی زِر کی آغوش اور اس کے کنارے گزارے ہیں. دیمی زر کی مست لہروں اور ہمارا جیون ساتھی جیسا تعلق ہے. جب جون جولائی کی جھلسا دینے والی گرمی ہمیں ستاتی تو دیمی زِر کا نیلگوں پانی ہماری راحت کا ساماں پیدا کرتا.

پھر ہم ہوتے اور دیمی زِر کی ٹھاٹھیں مارتی لہریں اور لہروں سے کھیلنے کے لیے کنارہ پر کھڑی کشتیوں سے "پَرش” لکڑی کی پٹی لے کر روایتی سرفیسنگ کرتے. کبھی ہم دیمی زِر کی لہروں کو چھکما دیتے تو کبھی یہ لہریں زیر آب کرتے. لیکن لہروں سے ہم کبھی بھی جیت نہ پائے.

سرفیسنگ کے بعد "شُر” نامی چھوٹی مچھلی کا شکار بھی ہمارے شوق میں شامل تھا. کنارے پر پڑی "چھتل” مزری یعنی پیش سے بنائی گئی چٹائی کے ٹکڑے جمع کر کے آگ جلاتے پھر شُر مچھلی کا باربی کیو کر کے شوق سے کھاتے. شام کو رفیق صدیق، سرفراز محمد اور دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر کرکٹ اور فٹ بال کھیل کر وقت گزارتے.

پہلے دیمی زِر کا ایک حسن نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ یہ کثیرالمقاصد قدرتی سرگرمیوں کا بھی مرکز تھا جس میں جمعہ کی شام شکار سے چھٹی لینے والے مچھیرے سمندر کے "آلاڈ” یعنی جزر کے بعد اپنی کشتیوں کی مرمت اور رنگ و روغن کا کام کرتے ہوئے نظر آتے اور کھیل کود گویا کنارے کا بنیادی حسن ٹھہرا.

شام شروع ہوتے ہی فٹ بال اور کرکٹ کے میدان سجائے جاتے. بچے اور بچیاں ریت کے گھروندے بنانے میں مگن نظر آتے. وہ کیکڑے کے بل میں پانی ڈال کر اسے باہر نکلنے پر مجبور کرتے اور پھر بچے اسے پکڑ کر کہتے "کلو کلو بگوش تئی راست ءِ چم کجام اِنت”، یعنی کیکڑے بتا تیری دائیں آنکھ کون سی ہے؟

پھر وقت نے انگڑائی لی. دیمی زِر کا کنارہ بین الاقوامی تعمیرات کی سائٹ بن گیا اور ایک سال سے زائد کا عرصہ ہوا ہے کہ ایکسپریس وے کی تعمیر جاری ہے. کنارے کے تقریبا 90 فیصدی حصے کی بھرائی کی جا چکی ہے.

اب وہ وقت دور نہیں کہ جو کنارا پہلے نیچرل پارک یا کھیل کا میدان ہوا کرتا تھا یا جہاں دیمی زِر کے "آلاڈ” کے بعد مچھیرے اپنی کشتیاں کھڑی کر کے مرمت اور رنگ و روغن کا کام کرتے تھے، اب مستقبل قریب میں اس پر ٹرالرز گوادر بندرگاہ سے اپنا کنٹینر لے کر دوڑتے ہوئے نظر آئیں گے.

میں کافی دیر ناظم بنگلہ جو گوادر کی پاکستان میں شمولیت سے پہلے کسی برٹش مسٹر وین نامی انتظامی افسر کا دفتر اور رہائش گاہ ہوا کرتا تھا، سے ملحقہ ٹیلے پر کھڑا رہا اور بہت کوشش کی کہ کنارا دیکھ لوں. وہ کنارا جس کے آنگن میں ہم نے اپنے بچپن کے خوشیوں بھرے لمحات گزارتے تھے، اور مچھیرے اپنی کشتیوں کی دیکھ بھال کرتے تھے لیکن میں اپنی اس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکا.

دیمی زِر میں لنگرانداز کشتیاں ساحل پر بہت سی تبدیلوں کی گواہ بن رہی ہیں اور ساحل کے ساتھ آباد بستیاں کنارا چھن جانے کے بعد دیمی زِر اور کشتیوں کی رشتے کی سلامتی کے لیے فکر مند دکھائی دیتی ہیں.

عید کی تعطیلات کہ وجہ سے کشتیاں بڑی تعداد میں قطار در قطار دیمی زِر میں لنگر انداز تھیں اور وہ ہوا کے دوش پر سمندر میں پیدا ہونے والے طلاطم کی وجہ سے جھول بھی رہی تھیں.

لیکن کنارے کے اوجھل ہونے کے بعد یہ منظر اب پہلے کی طرح دلکش دکھائی نہیں دے رہا تھا. یہ منظر اس قدر پھیکا تھا جس طرح امسال کرونا کی عالمی وبا کی وجہ سے عید کا تہوار پھیکا پڑ چکا ہے.

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں