شیطان ءِ بَزگی

بلوچی افسانہ: شیطان ءِ بزگی

 تحریر: ارشاد عالم

مترجم: عبدالحلیم حیاتان

وہ ایک گڈریا تھا۔ وہ علی الصبح گاؤں کا ریوڈ لیکر چرانے کے لئے جنگل کی طرف نکل جاتا تھا۔ ایک روز وہ ریوڈ چرا رہا تھا کہ وہاں پر ایک پک اپ گاڑی آکر رُکتی ہے۔ سلام و دعا کے بعد گڈریا نے گاڑی پر سوار لوگوں کے لئے دودھ پتی چائے بنائی۔ چائے نوش کرنے کے بعد وہ لوگ وہاں سے روانہ ہوتے ہیں۔

دوسرے دن گڈریا پھر اِسی مقام پر ریوڈ چرا رہا تھا۔ پھر وہی لوگ گاڈی کے ساتھ وہاں آکر رُکتے ہیں۔ اِس مرتبہ گاڈی میں بہت ساز و سامان بھی لدا ہواتھا۔ چائے پانی پینے کے بعد وہ پھر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ اُن کے جانے کے بعد گڈریا گہری سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ یہ کون لوگ ہیں اور کیا کاروبار کرتے ہیں؟۔

یہاں پر نہ کوئی سرائے ہے۔ ہونا ہو یہ ضرور دشمن دار لوگ ہیں، اسمگلر ہیں یا ڈاکو ہونگے۔ گڈریا مسلسل اپنے خیالوں کے گھوڑے دورہا تھا۔ جب وہ رات کو گھر لوٹا تو اُس کو رات دیر تک نیند بھی نہیں آئی۔ زیادہ تر اِس کو اِس بات کا ملال رہا کہ اُس نے اُن اجنبی لوگوں سے انکی حقیقت کے بارے میں کیوں نہیں پوچھا۔؟

تیسرے دن وہ لوگ پھر گڈریا کے پاس آتے ہیں۔ گڈریا اُن سے کہنے لگتا ہے کہ اگر آپ لوگ بُرا مت منائیں تو میں آپ لوگوں سے  کچھ پوچھنا چاہتا ہوں؟۔ 

 نہیں۔ ہم بُرا نہیں منائینگے۔ تم کو جو بھی پوچھنا ہے۔ پوچھیں۔ اُن میں سے ایک بڑی مونچھوں والے اور موٹے شخص نے گڈریا کو یہ کہکر اسکو پوچھنے کی اجازت دے دی۔ 

 آپ لوگ کیا کام کرتے ہیں۔ جس مقام پر آپ لوگ آکر رُکتے ہو یہ چاروں طرف سے پہاڑوں میں گِرا ہواہے۔ یہاں کا موسم بھی سخت ہے اور درجہ حرارت اس قدر زیادہ ہے کہ یہاں اڑان بھرنے والے پرندے بھی گرمی کی شدت سے آسمان سے گر کر مرجاتے ہیں۔ یہاں پر نہ کوئی سرائے ہے اور نہ کوئی آبادی۔ لیکن آپ لوگ گاڈی لیکر اس ویران جگہ میں کیوں سرگرداں ہیں؟۔ گڈریا نے سوالیہ اندازے میں اُن سے دریافت کیا۔ 

ہماری حقیقت اصل میں یہ ہے کہ ہمارا کام شیطانیت کے اوصاف پر مبنی ہے۔ ہمیں شیطان جو حکم دیتا ہے ہم اس کو بجا لاتے ہیں۔ ہم جو بھی کرتے ہیں وہ شیطان کے حکم سے ہوتا ہے۔ شیطان اگر ہم سے کہے فلاں کو قتل کرو ہم دریغ نہیں کرتے۔ فلاں کو لوٹ لو ہم دیر نہیں کرتے۔ یہ ویرانہ ہمارا مسکن ہے۔ اُن میں سے پست قد والے ایک شخص نے گڈریا کو مخاطب کرتے ہوئے جواب دیا۔ 

لیکن شیطانی اوصاف اللہ کے ہاں سخت ناپسندیدہ عمل ہے۔ آپ لوگوں کو خُوفِ خُدا نہیں ہوتا۔؟ گڈریا نے معصومانہ انداز میں اُن سے دریافت کیا۔ 

وہ گڈریا کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں ہاں ہمیں خُدا کا خُوف بھی ہے لیکن ناں و نفقہ کا  غم بھی ساتھ لیئے پھرتے ہے۔ کیا تم کو اِس چیز کا علم ہے کہ اِس معاشرے میں ہر بُرے کام کرنے والے کی تعظیم کی جاتی ہے۔ بُرے کام میں دُولت کا حصول چنداں مشکل کام نہیں۔ اگر کسی کے پاس دولت نہیں تو اُس کی تعظیم بھی اِس معاشرے میں ناممکن ہے۔ ہماری تعظیم اِس معاشرے کے بڑے سے بڑے افسروں اور شُرفاء سے کئی گنا زیادہ ہے۔ 

گڈریا یہ باتیں سُننے کے بعد حیرت میں پڑجاتاہے۔ وہ لوگ بھی محسوس کرتے ہیں کہ گڈریا اپنی مجبوری اور لاچاری کے سامنے بے بس ہے۔ کیا تم ہمارے ساتھ ملکر ہمارے کام میں ہمارا ہاتھ بٹھاؤگے۔؟ اُن میں سے ایک شخص نے گڈریا سے اِس کی رضامندی پوچھی۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد گڈریا حامی بھر لیتا ہے۔ تمھارا کام صرف یہی ہوگا کہ تم یہ گھٹڑی فلاں شخص تک پہنچاؤ۔ بڑے مونچھوں والے شخص نے گڈریا کو یہ کہکر ھدایت کی۔  

ایک شخص گاڑی سے ایک گھٹڑی اٹھاکر لاتا ہے جو ہیروئن سے بھرا ہوا تھا۔ گڈریا یہ گھٹڑی اٹھانے کے بعد ریوڈ کو ہانکتے ہوئے وہاں سے روانہ ہوتا ہے۔ گڈریا یہ گھٹڑی کسی معروف شخص کے حوالے کرتا ہے۔ اگلے دن وہ لوگ پھر گڈریا سے ملتے ہیں اور  ایک اور گھٹڑی اسکے حوالے کرکے ھدایت کرتے ہیں اس کو فلاں شخص تک پہنچاؤ۔ اس کام کے عیوض وہ گڈریا کو پچاس ہزار روپے بھی دیتے ہیں۔ 

کچھ عرصہ گزرنے کے بعد گڈریا ریوڈ چَرانے کا کام چھوڑ دیتا ہے۔ اب دھیرے دھیرے گڈریا کی اطوار اور طرز زندگی میں نمایاں تبدیلی آتی ہے۔ اب وہ پُرانے اور پیوند لگے کپڑوں کی بجائے نئے کپڑے زیب تن کرنے لگا۔ پُرانے چپل کی بجائے اب اُس کے پاؤں میں نئے جوتے تھے۔ اُس نے اپنے ہاتھ کی کلائی پر قیمتی گھڑی بھی باندھ رکھی تھی۔ گڈریا کی طرز زندگی کو دیکھکر اُس کے گاؤں کے لوگ حیرت زدہ ہوکر ایک دوسرے سے پوچھنے لگتے ہیں یہ گڈریا کیسے مال دار بن گیا؟۔ اس کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا ہے؟۔ 

گاؤں کے لوگوں کے علاوہ گڈریا کے رشتہ دار بھی اسکی رہن سہن اور رکھ رکھاؤ کو دیکھکر دَنگ رہ جاتے ہیں۔ وہ آپس میں سرگوشی کرتے ہوئے کہتے ہیں ایک سال پہلے اِس کے پاس کھانے کو بھی کچھ نہیں تھا۔ اور یہ دانے دانہ کے لئے دوسروں کا محتاج رہا ہے۔ آخر اِسے کونسا خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے؟۔ 

کچھ عرصے بعد گڈریا اپنی بوسیدہ جھونپڑی کی جگہ ایک عالی شان عمارت کھڑی کردیتا ہے۔ وہ اپنے لئے ایک پر طعیش مہمان خانہ بھی تعمیر کرتا ہے۔ اُس کے مہمان خانہ میں ہمیشہ بھیڑ لگا رہتا ہے۔ وہ ہر رات شراب و سرور کی محفل سجاتا ہے۔ اَب اس کے تعلقات بڑے سے بڑے لوگوں سے استوار ہوگئے تھے۔ وزیر اور بڑے سے بڑا سرکاری افسر اُس کے دوست بن گئے۔ اگر گاؤں کے کسی بھی شخص کو کوئی کام آن پڑتا تو وہ سفارش کے لئے اُس کے پاس چلے جاتے۔ 

پہلے لوگ اُس کو صوالی کے نام سے پُکارتے تھے۔ اب اسکو لوگ واجہ صالح محمد کے نام سے پُکارنے لگے۔ ایک دن صالح محمد اپنے گھر میں اکیلے بیٹھکر شراب پی رہا تھا۔ وہ اپنے ماضی میں جھانکنے لگتا ہے۔ پھر اِسے اپنی آخرت کا بھی خیال آتا ہے۔ وہ دل ہی دل میں نادم ہوکر کہتا ہے کہ اس دنیا کے لئے اُس نے بہت جتن کرکے یہ مقام حاصل کیا ہے لیکن آخرت کے لئے اُس کے پھلے کچھ بھی نہیں۔ ہر انسان کو اپنی آخرت سنوارنے کے لئے نیکی والے کام کرنے ہوتے ہیں۔ مجھے بھی نیکی کے کام کرنے ہونگے تاکہ اللہ میری بخشش فرمائے۔ 

یہ فکر کرتے ہوئے اس کا دل نرم پڑتا ہے۔ وہ پنجگانہ نماز کا اہتمام کرتا ہے۔ کچھ عرصے بعد وہ حج پر بھی چلا جاتا ہے۔ وہ واجہ صالح محمد سے حاجی صالح محمد بن گیا۔ سارا گاؤں اُس کی تعریفیں کرنے لگتا ہے کہ حاجی ایک بہترین اوصاف کے مالک مددگار اور قوم دوست شخصیت ہیں۔ 

رات کو حاجی صالح محمد گہری نیند سورہا تھا۔ وہ خواب دیکھتا ہے کہ شیطان آیا ہوا ہے اور اس کے سرآنے پر کھڑا ہے۔ شیطان زار و قطار کے ساتھ رورہا ہے۔ روتے ہوئے شیطان اُس کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے اَڑے صوالی تم کو وہ دن یاد نہیں جب تمھارے پاؤں میں چپل نہیں تھے۔ تم کھانے کے لئے دانے دانے کا محتاج تھے۔ اگر آج تم صاحب مال ہو تو وہ میری وجہ سے ہے۔ افسوس تم نے مجھے بھلادیا ہے۔ میرے احسانوں کو تم نے فراموش کردیا ہے۔ اب تمھارے گھر کے سامنے ھذا من فضل ربی بھی کنندہ ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں