Posts

Showing posts from August, 2022

جیلی فِش کی اہمیت

Image
عبدالحلیم حیاتان    گوادر کے مشرقی ساحل (دیمی زِر) پر ٹہلتے ہوئے مجھے کنارے پر بہت سے جیلی فِش پڑے ہوئے دکھائی دیئے۔ جیلی فش کو مقامی زبان میں "آپلو" کہتے ہیں۔ گوادر کے ساحل پر جیلی فِش کا ملنا عام ہے اور ایک خاص سیزن میں یہ ساحل پر بڑی تعداد میں پڑے ہوئے ملتے ہیں۔ جیلی فِش ایک منفرد اور دلچسپ سمندری مخلوق ہے۔ لیکن اب جیلی فِش کو بیکار سمندری مخلوق نہیں سمجھا جاتا بلکہ اِس کی خرید و فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔  ماہرین کے مطابق جیلی فِش 650 ملین سال پہلے سے دنیا میں موجود ہے اور اِس کی دو ہزار سے زائد اقسام ہیں۔ جیلی فِش کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ایک بہت ہی متجسس جانور ہے کیونکہ اِس کا نہ تو دماغ ہے اور نہ ہی اعصابی نظام لیکن اِس کے جسم کے گرد 24 آنکھیں ہوتی ہیں۔ سائنسدانوں کی جانب سے تحقیق کے دوران یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ جیلی فِش ایک ایسا جاندار ہے جو آکسیجن کے بغیر بھی زندہ رہ سکتی ہے۔ جیلی فِش کی خوراک چھوٹی مچھلیاں، جھینگے اور سمندری پودے ہوتے ہیں جبکہ وہ خود کچھووں کی پسندیدہ خوراک ہے۔ ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق "چند سال پہلے تک ماہی گیر جال میں پھنسنے وا

سیلاب کی تباہ کاریاں اور قومی سیاسی قیادت کا کردار۔ ‬

Image
  عبدالحلیم حیاتان  سیلاب ملک کے بیشتر حصوں میں اپنے پیچھے تباہی کی کئی ہولناک داستانیں چھوڑ چکا ہے۔ سیلاب نے ملک کے چاروں صوبوں کے علاوہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو شدید طور پر متاثر کیا ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں آنے والا شدید ترین قدرتی آفت ہے جس نے انسانی المیہ کو جنم دیا ہے۔ اب تک کی معلومات کے مطابق سیلاب سے 1.5 ملین لوگ متاثر ہوئے ہیں لیکن اِس قدر شدید انسانی المیہ جنم لینے کے بعد قومی قیادت کا اِس سے مشترکہ طورپر نمٹ کر متاثرین کی مدد کرنے کا قومی جذبہ اور کردار نظر نہیں آرہا ہے۔   جب 8 اکتوبر 2005 کو آزاد کشمیر اور خیبر پختونخواہ میں جو شدید زلزلہ آیا تھا تو اُس وقت گوادر سے لیکر خیبر تک قوم نے یکسو اور متحد ہوکر بلا رنگ و نسل، قوم اور مذہب کے زلزلہ زَدگان کی دل کھول کر مدد کرکے انسانیت کی خدمت کی روشن مثال قائم کی، حیف آج وہ جذبہ نظر نہیں آتا۔ ملک نیئرنگی سیاست کا شکار ہے۔ قومی سیاسی قیادت کا کردار دائروں میں سمٹ کر رہ گیا ہے۔   سیاسی عداوت اور خلیج اِس قدر بڑھ گئی ہے کہ سیاسی قیادت اپنے بیانئے کی جنگ لڑرہی ہے اور ہر روز نئی سازشی تھیوری بھنے جارہے ہیں، اور سیلاب متاثرین

جی آر ملا، بلوچی زبان ءِ وَش تبیں شاعر

Image
  عبدالحلیم حیاتان  بلوچی زبان ءِ راجی شاعر جی آر ملا ءِ سیادی چہ بلوچستان ءِ بَندنی دمگ جیمُڑی اِنت۔ جی آر ملا 1939 ءَجیمُڑی ودی بیتگ۔ جی آر ملا ءِ اسل نام غلام رسول اِنت۔ جی آر ملا  بلوچی زبان ءِ گچینی شاعراں چی یک شاعر ءِ بیتگ۔ واجہ ءِ کماتگیں شھر راجی پگر ءُ سسا ءِ وَدینگ ءُ زمین ءَ گوں چہ ابید  عشق ءُ مھر ءَ چی بندوک ءُ چَکار اَنت۔ جی آر ملا ءَ پہ بلوچی زبان ءُ ادب ءِ دیمرئی واست ءَ بلوچی زبان ءِ مزن نامے شاعر واجہ سید ظہورشاہ ہاشمی ءِ اَم کوپگی ہم کُتگ۔ بلوچی زبان ءِ اولی لبز بَلد بزاں "سید گنج" ءِ رِد ءُ بند دیگ ءِ ہاتر ءَ آئی وتی گران بہائیں جُھد کُتگاں۔ واجہ ءَ سید ءِ کارانی دیم ءَ بَرگ ءِ واست ءَ گوں وتی دگہ ہمرایاں سید ہاشمی اکیڈمی جوڈ کُتگ۔ اول سَر ءَ اکیڈمی ءَ کراچی ءَ وتی کار بندات کُتگاں۔ مَرچاں اکیڈمی گوادر ءَ کار ءَ  اِنت۔ جی آر ملا ءِ یک شھری دپتر ءِ دیم ءَ آرگ بیتگ کہ نام ءِ "بَژن" اِنت۔ سید ہاشمی اکیڈمی گوادر ءِ چیردستی ءَ واجہ ءِ کلیات چہ "مھلبیں آتار” ءِ نام ءَ شِنگ کَنگ بیتگ۔ کلیات ءِ تھا شعری دپتر  "درد ءِ کپوت نالیت” ہم آوار کنگ بی

سیلاب سے تباہ حال بلوچستان

Image
    عبدالحلیم حیاتان حالیہ بارشوں کے دوران بلوچستان میں پر طرف نظر آنے والے مناظر ہولناکیوں اور تباہی کی کئی داستانیں رقم کررہی ہیں۔ مسلسل ہونے والی بارشوں اور ندی نالوں کے بپھر جانے کے بعد ہنستے بستے گھر پانی میں بہہ چکے ہیں۔ بارشوں سے پہلے اِن گھروں کے آنگن خوشیوں سے شاد و آباد دکھائی دیتے تھے لیکن اب نہ گھر بچے اور نہ آنگن سب کچھ ملیا میٹ ہوگئے۔ کل تک جن بستیوں کے مکین ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹتے تھے اب وہ اپنے جان کی امان کی فکر میں ہیں۔  سیلاب کے بعد ہزاروں کی تعداد میں گھرانے کھلے آسمان کے نیچے آگئے ہیں اور جان بچھانے کے لئے اہل و اعمال سمیت محفوظ مقامات کا رخ کررہے ہیں۔ والدین اپنے جگر گوشوں کو اپنے سینے پر لگائے در بدر بٹھک رہے ہیں۔ سیلاب سے متاثرین کی حالت قابلِ رحم ہے لیکن ہے کوئی کہ وہ سیلاب متاثرین کا دکھ بانٹا رہا ہے؟ اب تک کی اطلاعات کے مطابق سیلاب متاثرین بے یارو مددگار گار پڑے ہوئے ہیں۔ کئی سیلاب متاثرین اپنے اجڑے ہوئے گھروں کا ملبہ دیکھکر یاس و آس کی تصویر بن ہوئے ہیں اور اپنے ماضی کے خوشحال دنوں کو یاد کررہے ہیں۔ اور ساتھ ہی حکومتی امداد کے بھی منتظر ہیں مگر حکومت ہیں

نئی نسل ہم سے زیادہ قابل ہے

Image
بلوچی تحریر: وہاب مجید  مترجم: عبدالحلیم حیاتان   ہمارے معاشرے میں جب انسان پر بڑھایا آتا ہے اور وہ جب ریٹائرڈ ہوجاتا ہے تو اُس کی زندگی کا سب سے بڑا اثاثہ اُس کا ماضی بن جاتا ہے، اور وہ ہمیشہ اپنے ماضی کو یاد کرتا رہتا ہے۔ اِس لئے ہمارے اکثر بزرگ اپنی ماضی کی تعریفیں کرتے ہوئے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ "اُن کے دور میں تعلیم، دانش، ایکٹیوازم، دوستی اور احترام آج کے دور کے مقابلے میں بہتر تھے"۔ "آج کی نسل ٹک ٹاک جنریشن کا ہے اور یہ  سنجیدہ علم اور عمل سے عاری ہے"۔ اُن کے پاس اپنی اِس دلیل کو ثابت کرنے کے لئے کسی بھی قسم کی تحقیقی مواد موجود نہیں۔ لیکن میرے نزدیک اچھے، برے، با علم، بے علم، باعمل، بے عمل، سنجیدہ اور غیر سنجیدہ پن کے حامل کردار ہر دور میں موجود ہوا کرتے تھے۔ ویسے بزرگوں کی دلیل کے پیچھے انسان کا ایک نفسیاتی مسئلہ جڑا ہوا ہوتا ہے۔ اگر ایک انسان کے پاس کوئی کام کاج نہ ہو، وہ گھر بیٹھا رہے اور صرف سوچتا رہے یا وہ صرف اپنے ہم عمر لوگوں کے ساتھ بیٹھکر اپنا وقت گزارے اور اُس کا نئی نسل کے ساتھ کسی بھی قسم کا انٹرکشن نہ ہو تو ضرور کنوئیں کا مینڈک ثابت ہوگا۔ اِس

بلوچی افسانہ:خون میں لت پت کوئٹہ

Image
بلوچی افسانہ:خون میں لت پت کوئٹہ تحریر: ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ مترجم: عبدالحلیم حیاتان فجر کی اذان ہوتے ہی نیند سے بیدار ہونا اور چہل قدمی کرنا میرا معمول ہے۔ کوئٹہ میں گرمیوں کے موسم میں صبح کی چہل قدمی دل و دماغ کو الگ تاثیر اور تازگی فراہم کرتی ہے۔ چہل قدمی کے بعد چائے نوش کرتا ہوں اور چائے کا چسکہ لینے کے ساتھ چھ روزمانے پڑھنا بھی میرے مشغلہ میں شامل ہے۔ دن کو جو کام نمٹانے ہوتے ہیں، وہ میں ایک کاغذ پر order of the day لکھ کر اپنے حلقہ اور دوستوں کی فون کالز موصول کرتا ہوں۔ میرے رفقائے کار کو میری صبح وقتی اٹھنے کی عادت کا بخوبی علم ہے۔ میری اس عادت سے واقفیت رکھنے کی وجہ سے اقتدار کے دنوں میں وہ مجھے صبح سویرے ہی فون کیا کرتے ہیں۔ فون کرنے والوں کا ایک تانتا باندھا رہتا جو کھٹی میٹھی باتیں سناتے۔ بعض زہر افشانی بھی کرتے اور مطالبات کی لمبی فہرست بھی گنواتے۔ جن لوگوں نے آپ کو ووٹ دے کر ایوان تک پہنچایا ان کی کھٹی میٹھی باتوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھار خون بلند فشار مارتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا کٹھن اور مشکل کام سیاست کرنا ہے، بالخصوص پارلیمانی سیاست، ک

بلوچی ساز و آواز کے بادشاہ اُستاد نورخان بزنجو

Image
  عبدالحلیم حیاتان  بلوچی موسیقی کا شعبہ خداداد صلاحیتوں کے حامل فنکاروں کی وجہ سے زرخیزیت کی عکاس ہے۔ بلوچی کا کلاسیکل موسیقی ہو یا جدید موسیقی، اِس نے ایک سے ایک نام پیدا کئے ہیں۔ اِن میں ایک نام اُستاد نورخان بزنجو کا بھی ہے۔  اُستاد نورخان بزنجو کا تعلق ادب اور فنونِ لطیفہ کے حوالے سے مکران کے مشہور ساحلی شہر پسنی سے ہے۔ پسنی کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس نے ادب، آرٹ اور فنِ موسیقی میں کئی نامور شخصیات کو جنم دیا ہے۔ ایک لحاظ سے پسنی کو چھوٹا لکھنو بھی کہتے ہیں۔ اُستاد نورخان بزنجو جوانی میں ہی فنِ موسیقی سے وابستہ ہوگئے تھے۔ اُنہوں نے موسیقی کا فَن کراچی میں اُستاد عمر سے سیکھا تھا۔   اُستاد نورخان بزنجو کو جدید بلوچی موسیقی کا منفرد گلوکار بھی کہا جاتا ہے۔ اُن کی منفرد طرز گائیکی کی وجہ سے جدید بلوچی موسیقی کو مزید فروغ ملا اور دیکھتے ہی دیکھتے بلوچی موسیقی میں گائیکی کا فَن پروان چڑھنے لگا۔ نورخان بزنجو نہ صرف ایک گائیک تھے بلکہ بلوچی فنِ موسیقی میں اُن کو اُستاد کا درجہ حاصل تھا۔ وہ ایک خداداد صلاحیتوں کے گائیک تھے۔ راگ اور ساز و آواز پر اُن کو مکمل عبور حاصل تھا۔  اُستاد نورخان ب