نئی نسل ہم سے زیادہ قابل ہے


بلوچی تحریر: وہاب مجید 
مترجم: عبدالحلیم حیاتان  
ہمارے معاشرے میں جب انسان پر بڑھایا آتا ہے اور وہ جب ریٹائرڈ ہوجاتا ہے تو اُس کی زندگی کا سب سے بڑا اثاثہ اُس کا ماضی بن جاتا ہے، اور وہ ہمیشہ اپنے ماضی کو یاد کرتا رہتا ہے۔ اِس لئے ہمارے اکثر بزرگ اپنی ماضی کی تعریفیں کرتے ہوئے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ "اُن کے دور میں تعلیم، دانش، ایکٹیوازم، دوستی اور احترام آج کے دور کے مقابلے میں بہتر تھے"۔ "آج کی نسل ٹک ٹاک جنریشن کا ہے اور یہ  سنجیدہ علم اور عمل سے عاری ہے"۔

اُن کے پاس اپنی اِس دلیل کو ثابت کرنے کے لئے کسی بھی قسم کی تحقیقی مواد موجود نہیں۔ لیکن میرے نزدیک اچھے، برے، با علم، بے علم، باعمل، بے عمل، سنجیدہ اور غیر سنجیدہ پن کے حامل کردار ہر دور میں موجود ہوا کرتے تھے۔ ویسے بزرگوں کی دلیل کے پیچھے انسان کا ایک نفسیاتی مسئلہ جڑا ہوا ہوتا ہے۔ اگر ایک انسان کے پاس کوئی کام کاج نہ ہو، وہ گھر بیٹھا رہے اور صرف سوچتا رہے یا وہ صرف اپنے ہم عمر لوگوں کے ساتھ بیٹھکر اپنا وقت گزارے اور اُس کا نئی نسل کے ساتھ کسی بھی قسم کا انٹرکشن نہ ہو تو ضرور کنوئیں کا مینڈک ثابت ہوگا۔ اِس کے علاوہ جنریشن گیپ بھی اِس کی وجہ ہوسکتی ہے یا یہ ماضی کی تعریف Nostalgia یا Narcissism بھی ہوسکتا ہے۔ 

سچائی یہی ہے کہ بزرگوں اور نوجوانوں کا یہ مسئلہ ہر دور میں ہر معاشرے کا مسئلہ رہے ہیں۔ دراصل یہ معاشرے کی تبدیلی کی نشانی ہوتی ہے۔ یہ قدیم اور جدید روایتوں کی جنگ ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ اپنی سوچ تبدیل نہ کرنے اور نئی سوچ کو اختیار نہ کرنے کی بھی جنگ ہے۔ اپنے آباؤ اجداد کی روایات کو چھوڑنا بہت گراں ہوتا ہے، اِس لئے یہ "کلچرل شاک" کا بھی مسئلہ بن جاتا ہے۔  

انسانی معاشرے میں روایت اور ثقافت کی تبدیلی دھیرے دھیرے آتی ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف بلوچ معاشرے کو درپیش ہیں بلکہ یہ مسئلہ دنیا کے دیگر معاشروں کو بھی درپیش تھا۔ لیکن کچھ معاشرے بہت جلد تبدیلی کے فلسفہ کو قبول کرتے ہوئے آگے نکل گئے۔ اور کچھ ہماری طرح ریاستی زیادتیوں بشمول بوسیدہ روایات کے گرد و غبار میں گم نظر آتے ہیں۔ لیکن کوئی بھی معاشرہ ٹہراؤ کا شکار نہیں بن سکتا۔ وقت کا پہیہ ہمیشہ آگے کی طرف چلتا رہتا ہے۔ اگر کوئی اِس کے ساتھ چلے تو وہ آگے جاکر اپنے لئے کامیابیاں سمیٹتا ہے۔ اگر کوئی زبردستی اِس پہیہ کو روایات کے نام پر روکنا چاہے، وہ انسان ہو یا کوئی بھی قوم، وقت کا بے رحم پہیہ اِس کو روندتے ہوئے آگے کی طرف نکل جاتا یے۔  

مثال کے طورپر بلوچ کلچر میں خواتین کی تعلیم، سرکاری یا پرائیویٹ ملازمت اختیار کرنا، بلوچ کی نئی اقدار میں سے ایک اقدار ہے۔ ہوسکتا ہے یہ بلوچ کی پہلی اور دوسری خاتون جنریشن ہے جو کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہے۔ اِس کے بعد وہ میڈیکل، تعلیم،  سیاست، ادب اور صحافت سمیت دیگر شعبوں میں کنڑیبیوٹ کررہی ہیں۔ یہ تبدیلی ایسے نہیں آئی ہے۔ آج سے تقریبا چالیس پچاس سال قبل اُس وقت کے بلوچ سیاسی، سماجی اور ادبی جہد کاروں نے عام لوگوں کو اِس چیز کی آگاہی فراہم کی تھی اور اُن کی ذہن سازی کرتے ہوئے بتایا تھا لڑکیاں بھی انسان ہیں اُن کے اور لڑکوں کے حقوق برابر ہیں۔ 

ایک لڑکی کو پڑھانے سے نہ صرف وہ خود ایک لاحق اور قابل انسان بن جاتا ہے۔ بالفرض اگر وہ کوئی ملازمت اختیار کرے تو اِس کے مالی فوائد بھی ہوتے ہیں۔ ایک تعلیم یافتہ ہی سیاست کو بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ اِس کے علاوہ وہ اپنے صنفی، انسانی اور قومی حقوق سے بھی آشنا ہوتا ہے۔ لڑکیوں کو پڑھانے کا سب سے اہم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ پھر نئی آنے والی نسل کو تعلیم یافتہ بناکر ایک قابل انسان بنا سکتی ہے۔ 

بلوچ نوجوانوں کی بابت میں نے کسی بھی قسم کی تحقیق نہیں کی ہے اور نہ ہی میرے پاس اپنی بات ثابت کرنے کے لئے کوئی ڈیٹا موجود ہے۔ لیکن میرے کام کا نیچر ہی ایسا ہے کہ میرا اکثر طالب علموں اور تعلیم یافتہ نوجوانوں سے انٹریکشن ہوتا رہتا ہے اور اُن سے  گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ میں اپنے مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ آج کی نسل ہم سے زیادہ قابل اور تعلیم یافتہ ہے۔ ہوسکتا ہے اِن میں ٹک ٹاک استعمال کرنے والے موجود ہوں لیکن اُن کی اکثریت اپنے معاشرے اور ارد گرد کے سیاسی، سماجی اور مالی حالات سے کما حقہ طور پر آگاہی رکھتے ہیں۔ 

تعلیم اور شعور کے علاوہ آج سیاست کے شعبہ میں بھی آپ کو بلوچ لڑکے اور لڑکیوں کا بڑا کردار نظر آتا ہے۔ میرے نزدیک بلوچ معاشرے میں بالخصوص بلوچ تعلیم یافتہ لڑکیوں کا موجودہ سیاسی کردار بلوچ معاشرے کی فکری اور روایات کی تبدیلی کی نشانی ہے۔ آج سے تیس یا چالیس سال قبل لڑکیوں کا ایسا کوئی کردار  دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اسی طرح شہروں میں سرکاری یا پرائیویٹ ملازمتوں پر بالخصوص ایجوکیشن، محکمہ صحت اور این جی اوز میں تعلیم یافتہ لڑکیوں کا رخ کرنا بھی ماضی میں دکھائی نہیں دیتا ہے۔ 

تعلیم اور سیاست کے علاوہ بلوچ نوجوان صحافت، ادب اور زبان کی ترقی کے لئے بھی اپنا کردار بخوبی اداکررہے ہیں۔ میرے خیال میں اِس کی ایک اہم وجہ ایک عرصہ قبل ایک چھوٹے مڈل کلاس کا ڈیولپ ہونا بھی ہے جو بلوچ معاشرے کے تمام شعبوں کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ تاہم اِس مڈل کلاس کا سائیز کم ہے۔ اب بھی بلوچ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی بڑی تعداد دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہے جہاں پر تعلیم، صحت عامہ، روزگار اور زندگی کی دیگر سہولیات ناپید ہیں۔ اگر دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے زیادہ سے زیادہ لوگ بہتر زندگی گزارنے کے لئے شہری تعلیم اور دیگر موجود سہولیات سے فائدہ اٹھائیں تو اِس طرح سے بلوچ معاشرہ زیادہ مستحکم ہوکر تیزی سے تبدیلی کی طرف گامزن ہوسکتا ہے۔ 

بنی آدم کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر دور میں پرانی اور نئی نسل کے درمیان فکری اور روایتی جنگ ہوتی رہی ہے۔ یہ جنگ "تھیسس" اور "اینٹی تھیسس" کی جنگ تھی اور بالآخر "سنتھیسس synthesis" سامنے آیا جس نے نئی روایات، علم اور دانش کو آگے بڑھایا۔ آج بلوچ معاشرہ اِسی "فیز" سے گزر رہا ہے۔ 

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں