سیلاب کی تباہ کاریاں اور قومی سیاسی قیادت کا کردار۔ ‬

 

عبدالحلیم حیاتان 

سیلاب ملک کے بیشتر حصوں میں اپنے پیچھے تباہی کی کئی ہولناک داستانیں چھوڑ چکا ہے۔ سیلاب نے ملک کے چاروں صوبوں کے علاوہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو شدید طور پر متاثر کیا ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں آنے والا شدید ترین قدرتی آفت ہے جس نے انسانی المیہ کو جنم دیا ہے۔ اب تک کی معلومات کے مطابق سیلاب سے 1.5 ملین لوگ متاثر ہوئے ہیں لیکن اِس قدر شدید انسانی المیہ جنم لینے کے بعد قومی قیادت کا اِس سے مشترکہ طورپر نمٹ کر متاثرین کی مدد کرنے کا قومی جذبہ اور کردار نظر نہیں آرہا ہے۔  

جب 8 اکتوبر 2005 کو آزاد کشمیر اور خیبر پختونخواہ میں جو شدید زلزلہ آیا تھا تو اُس وقت گوادر سے لیکر خیبر تک قوم نے یکسو اور متحد ہوکر بلا رنگ و نسل، قوم اور مذہب کے زلزلہ زَدگان کی دل کھول کر مدد کرکے انسانیت کی خدمت کی روشن مثال قائم کی، حیف آج وہ جذبہ نظر نہیں آتا۔ ملک نیئرنگی سیاست کا شکار ہے۔ قومی سیاسی قیادت کا کردار دائروں میں سمٹ کر رہ گیا ہے۔  

سیاسی عداوت اور خلیج اِس قدر بڑھ گئی ہے کہ سیاسی قیادت اپنے بیانئے کی جنگ لڑرہی ہے اور ہر روز نئی سازشی تھیوری بھنے جارہے ہیں، اور سیلاب متاثرین کا کرب نئے بیانیوں اور سازشی تھیوری کے نیچے دب سا گیا ہے۔ وفاقی حکومت اور پنجاب اور خیبر پختون خواہ کی صوبائی حکومتیں اپنے مخالفین کو مقدمات میں الجھانے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کررہے ہیں۔ 

سیلاب کہ تباہ کاریاں اتنی زیادہ ہیں کہ معاشی بحران کا شکار پاکستان اِس سے نمٹنے کی سکت نہیں رکھ سکتا۔ آئے روز افراطِ زَر میں اضافہ اور مہنگائی کی شرح اُوپر ہونے کی وجہ سے ملک میں معاشی بحران کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔  

سیلاب کی تباہ کاریاں اتنی زیادہ ہیں کہ اِس کا مداوا کرنے کے لئے ریاست کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہوسکتا ہے کیونکہ سیلاب نے ایک صوبے کو متاثر نہیں کیا ہے بلکہ پورا پاکستان اس قدرتی آفت کی تباہ کاریوں کی زد میں ہے۔ متاثرین کی ازسرِ نو آبادکاری اور اُن کو معاوضوں کی ادائیگی کا ہدف عبور کرنا آسان بات نہیں لیکن سیاسی عدم استحکام اور بگڑتی پوئی معشیت کے اِس ماحول میں سیلاب متاثرین کی مدد کرنا اِس سے بڑا چیلنج ثابت ہوسکتا ہے۔  

سوشل میڈیا پر کسی نے کیا خوب معنی خیز پوسٹ شیئر کیا ہے "ووٹ دینے والے ڈوب گئے اور ووٹ حاصل کرنے والے بچ گئے"۔ مگر جو ووٹ لینے والے ہیں وہ اب بھی اپنی سیاست کھیل رہے ہیں۔ ہر طرف کھینچا تھانی کا ماحول ہے۔ سیاست ویسے بھی آج کل اقتدار حاصل کرنے کا نام رہ گیا ہے۔ بیانیا جتنا بھی پُر اَثر کیوں نہ ہو لیکن اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے کے بعد یہ دم توڑتا ہے۔ 

اِس وقت سیلاب زدگان کا کرب ہر بدلتے دن کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے اور ایک ہماری قومی سیاسی قیادت ہے جو اپنی سیاست کو متاثرین کے کرب پر فوقیت دے رہا ہے۔ یہ وقت قطعاً سیاسی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا بلکہ وقت کا تقاضا ہے کہ سیلاب زَدگان کو مصیبت سے نکالنے کے لئے قومی جذبہ پروان چڑھایا جائے۔ کیونکہ لوگ ہونگے تو سیاست ہوگی اور جب لوگ نہیں ہونگے یا ان کو بے یارومددگار چھوڑا جائے گا تو اس سیاست کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ 

اس کو سیاست نہیں مفادات کی جنگ کہا جائے گا۔ 
ویسے بھی ماضی بعید یا قریب میں جِس جِس نے سخت بیانیا اپنایا وہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد اقتدار کی بھول بھلیوں میں ہی کھو گیا۔

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں