بلوچی افسانہ:خون میں لت پت کوئٹہ
بلوچی افسانہ:خون میں لت پت کوئٹہ
تحریر: ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ
مترجم: عبدالحلیم حیاتان
فجر کی اذان ہوتے ہی نیند سے بیدار ہونا اور چہل قدمی کرنا میرا معمول ہے۔ کوئٹہ میں گرمیوں کے موسم میں صبح کی چہل قدمی دل و دماغ کو الگ تاثیر اور تازگی فراہم کرتی ہے۔ چہل قدمی کے بعد چائے نوش کرتا ہوں اور چائے کا چسکہ لینے کے ساتھ چھ روزمانے پڑھنا بھی میرے مشغلہ میں شامل ہے۔ دن کو جو کام نمٹانے ہوتے ہیں، وہ میں ایک کاغذ پر order of the day لکھ کر اپنے حلقہ اور دوستوں کی فون کالز موصول کرتا ہوں۔
میرے رفقائے کار کو میری صبح وقتی اٹھنے کی عادت کا بخوبی علم ہے۔ میری اس عادت سے واقفیت رکھنے کی وجہ سے اقتدار کے دنوں میں وہ مجھے صبح سویرے ہی فون کیا کرتے ہیں۔ فون کرنے والوں کا ایک تانتا باندھا رہتا جو کھٹی میٹھی باتیں سناتے۔ بعض زہر افشانی بھی کرتے اور مطالبات کی لمبی فہرست بھی گنواتے۔ جن لوگوں نے آپ کو ووٹ دے کر ایوان تک پہنچایا ان کی کھٹی میٹھی باتوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
کبھی کبھار خون بلند فشار مارتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا کٹھن اور مشکل کام سیاست کرنا ہے، بالخصوص پارلیمانی سیاست، کیوں کہ موجودہ دور نے ایک اور کروٹ لی ہے جس میں نظریہ، وطن و قوم دوستی، عوامی خدمت اور ایمانداری کے عوامل ثانوی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ جس نے بھی آپ کو ووٹ دیا ہے اس کے ہر جائز و ناجائز کام کی انجام دہی آپ کے لیے ناگزیر ٹھہرتی ہے۔
اِن دنوں میں ریڈ زون میں سرکاری رہائش گاہ میں رہائش پذیر ہوں۔ یہ رہائش گاہ انگریزوں نے بڑی شان و شوکت سے کھڑی کی ہے۔ میں اس سرکاری عمارت کے سبزہ زار میں کرسی لگا کر اس کے اندر باہر اور اطراف میں انگریز ہی کے زمانہ سے لگائے گئے درختوں کا نظارہ کرنے لگا۔ انار، سیب، انگور اور چیری کے شاخیں اپنی فصلوں سے جھکی ہوئی ہیں، اور موسمی پھول اپنی محسور کن مہک ہر سو پھیلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کتاب بینی کے لیے میں صبح و شام اس باغیچے میں ہوتا ہوں۔
اچانک ایک زوردار دھماکے کی آواز سنائی دی۔ گیٹ پر تعینات سیکورٹی عملہ سے استفسار کیا کہ معلوم کریں یہ دھماکہ کہاں ہوا ہے، تو پولیس کنٹرول روم سے جوابی پیغام ملا کہ یہ دھماکہ سول اسپتال میں وکلا پر ہوا ہے۔
میں نے جلدی سے گاڑی نکالی اور سول اسپتال جانے لگا تاکہ صورت حال سے آگاہی حاصل کر سکوں کیونکہ وکلا رہنماؤں میں ہمارے بہت سے عزیز دوست بھی شامل تھے۔ ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ سول اسپتال پہنچ جائیں لیکن سائنس کالج چوک پر سخت ناکہ بندی کی وجہ سے کسی کو آگے جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔ پھر ہمیں بتایا گیا کہ زخمیوں کو سی ایم ایچ اسپتال لے جایا جا رہا ہے۔
ہم بہت سے دوست سی ایم ایچ چلے گئے لیکن وہاں ہمیں گیٹ پر روکا گیا۔ ہمارے اوسان خطا ہو رہے تھے کیوں کہ ہم اپنی آنکھوں سے خون میں لت پت اپنے ساتھیوں کو دیکھ رہے تھے۔ لیکن ہم بے بس تھے اور ان کی مدد نہیں کر پا رہے تھے۔ اسی اثنا میں مجھے ایک دوست کی فون کال بھی آئی کہ زخمی ساتھی جاں بر نہیں ہو رہے کیوں کہ سی ایم ایچ میں سرجن کی کمی ہے۔
میں نے وزیراعلیٰ کو فون کر کے صورت حال سے آگاہ کیا اور سی ایم ایچ میں سرجن کی کمی دور کرنے کی درخواست کی۔ ہمارے سارے دوست ناامیدی کا شکار ہوتے جا رہے تھے۔ میں بھی ناامیدی کے ساتھ گھر لوٹ گیا اور ٹی وی کھول کر اس دلخراش واقعہ کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ دیکھنے لگا۔ ٹی وی پر لمحہ بہ لمحہ وکلا ساتھیوں کی شہادت کی خبر نشر ہونے لگی۔ چاکر رند، قاضی بشیر، باز محمد کاکڑ، قہار شاہ، سنگت جمالدینی اور دیگر ہم میں نہیں رہے۔
یہ اندوہناک خبریں ہمارے سروں پر آسمان گرا رہی تھیں۔ دل بیٹھ سا گیا اور قوتِ گویائی بھی جواب دے رہی تھی۔ ایک لمحہ میں ہمارے 75 فاضل اور جید دوست لقمہ اجل بن گئے۔ تیس سالہ کا اثاثہ ایک خودکش حملہ کی بھینٹ چڑھ گیا تھا۔
پھر میں اپنے تیس سالہ سیاسی جدو جہد کا احاطہ کرنے لگا… اس میں آنے والے نشیب و فراز، کامیابیوں اور ناکامیوں کو پرکھنے لگا اور اس دوران ملکی بیانیہ اور پالیسی سازی پر بھی سوچنے لگا۔ جہاں مجھے طالع آزما قوتوں، عرب حکمرانوں اور عالمی سامراج کی ملی بھگت سے سوشل ازم کا راستہ روکنے کے لیے ان کی جانب سے جہادی فلسفہ کو بڑھاوا دینے کی منصوبہ سازی کے نتیجے میں تباہ کاریوں کی لمبی فہرست نظر آئی۔ جس کے بھیانک اثرات کی قیمت آج بھی ہر ایک کو چکانی پڑ رہی ہے۔
جنونیت اور انتہا پسندی کے جس اژدھا کی بے دریغ طور پر ڈالر اور ریال خرچ کر کے سرپرستی کی گئی، اب وہ یہ بے قابو چکا ہے۔
یہ ہماری ہر آنے والی نسل کا پیچھا کر رہا ہے۔ پتہ نہیں یہ اژدھا اور کتنی معصوم جانوں کو نگلے گا۔ یہ ہمارا تاک کر پیچھا کر رہا ہے۔ اس کی بھوک مٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی، اور ہم آئے روز اپنے پیاروں کی فاتحہ پر بیٹھ کر ان کے بچھڑ جانے کا ماتم منانے پر مجبور ہیں.
Comments
Post a Comment