سید نمدی

 مترجم: عبدالحلیم حیاتان 

 بحرین 

4 جون 1961ء  
میرے بھائی جیسے دوست جمعہ خان سلامت اور شاد رہو!   
میرے لئے یہ باعثِ خوشی اور شادمانی ہے کہ میرے سارے خطوط آپ لوگوں تک پہنچ چکے ہیں۔ میری بے چینی کو غارت کرنے کے لئے یہ پیغام میرے لئے ایک طرح اطمنان بخش ہے۔ رہ جاتی ہے آپ لوگوں کی مصروفیت اور سُست روی اِس میں ہم سب شاملِ حال ہیں۔ میرا سب سے بڑا غم یہی ہے کہ آپ لوگوں کے خطوط کا نا آنا میرے لئے تعجب کا باعث بنا ہوا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ لوگوں نے کسی اور جگہ کوچ کیا ہے اور وہاں پر مقیم ہو۔ یہ بات بھی کہتا ہوں کہ جب تک آپ لوگوں کا خط مجھ تک نہیں پہنچاتا ہے میں آپ لوگوں کی دبئی موجودگی سے مطمئن نہیں رہونگا۔ 

جی ہاں! میں نے سُنا ہے کہ عبدالحئی جمشیرزئی بحرین آیا ہوا تھا لیکن وہ مجھ سے نہیں ملا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ مصروف رہا تھا۔ 

میں بالکل خیریت سے ہوں اور کمزور سانسیں چل رہی ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے آپ کو لکھا تھا کہ ڈاکٹر نے مجھے آرام کے غَرض سے روکے رکھا ہے۔ دوائی نہیں لے رہاہوں۔ آرام کرنے کی وجہ میری کمزوری تھی جو پہلے دردِ جگر کی وجہ سے مجھے لاحق ہوا تھا۔ ابھی میں کسی بھی قسم کی شکایت نہیں کررہا۔ 

منحوس داراء نے عبدالحئی کو ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھین لیا ہے ساتھ ہی بہت سی مائیں بے اولاد، بچے یتیم، عورتیں بیوا ہوئی ہیں، بھائیوں کو بہنوں اور بہنوں کو بھائیوں سے محروم کیا ہے۔ کسی کے کان پر جو تک نہیں رینگتی۔
 
بلوچی زبان کو "علاقائی زبان" قبول کرنا پُرانی بات ہے! اُس زمانے میں جب میں "ریڈیو پاکستان" میں بلوچی پروگراموں کا پروڈیوسر رہا تھا تو پاکستان کی حکومت نے سندھی، پشتو، پنجابی اور بلوچی کو بطور علاقائی یا صوبائی زبان قبول کیا تھا جب کہ اردو اور بنگالی زبان کو سرکاری زبان قرار دیا گیا تھا۔ لیکن ایک بات آپ لوگوں کی درست ہے کہ کیونکہ ہر چھ ماہ بعد نئی حکومت نئے سربراہان کے ساتھ منتخب ہوتی ہے جوکہ پہلے کہی ہوئی تمام باتوں کو یکسر فراموش کردیتی ہے۔ یعنی یہ بھی نئی بات میں شُمار کی جاسکتی ہے۔ 

بلوچی زبان کے متعلق 1957ء میں (جب میں بحرین میں تھا) ایک دوست نے مجھے لکھا تھا کہ حکومتِ پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ بلوچستان میں چار کتابیں پڑھائی جاسکتی ہیں۔ یہ بھی اعلان کیا تھا کہ جو بھی بلوچی کے یہ چار کتابیں لکھے گا حکومتِ پاکستان اُن کو خود شائع کرے گی۔ لیکن تاحال یہ کتابیں کوئی بھی نہیں لکھ سکا۔  

یہ بھی نئی بات ہے کہ حکومت آج کل لاچار بلوچوں کا خوش آمدی بنا ہوا ہے لیکن جانتا ہوں کہ اِس میں اُس کا اپنا مفاد ہے۔ 

آزات اور عبداللہ جمالدینی کی گرفتاری بہت تکلیف دہ ہے مگر آئے رے بے بسی۔ یہ بہت ہی چونکا دینے والی خبر ہے کہ داؤد جان نے اپنے آپ کو غیر قوم کے ہاتھوں بدنام کیا ہے۔ 

میرے نزدیک ہماری سلائی بُنیاد سے ہی رَد تھی۔ اِس کے لئے اب بہت بڑی جدوجُہد کی ضرورت ہے۔ بے بس تو بے بس ہی ہوتا ہے لیکن جو تگڑے ہیں وہ بھی ہمار طرح بے بسی کا شکار ہیں۔ 

اب بات رہ گئی ہے گجر کی خط کا۔ خط ایک لفافے میں ہے اور اس پر پتہ پہلے لکھا ہوا تیار ہے۔ ارسال کرنے والا کا پتہ بھی لکھا ہے۔ آپ لوگ اس لفافے کو کسی اور "رجسٹر لفافے" کے اندر ڈال کر اور یہی پتہ اس پر لکھیں۔ واپسی کا پتہ میں نے آپ لوگوں کے نام پر کیا ہے جو اس طرح ہے۔ 
"S. DARYA POOR, C/O J. KHAN BALOCH P. O BOX 403 DUBAI"
اُمید کرتا ہوں کہ اگر جواب آئے گا تو اسے آپ جلد از جلد کسی اور لفافے میں رجسٹر کرکے مجھے ارسال فرمائینگے۔  

آپ لوگوں کی سلامتی کا طَلب گار۔  

آپ کا 
سید ھاشمی

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں