حق دوتحریک: کریک ڈاؤن اور گرفتاریوں کے بعد

عبدالحلیم حیاتان 

گزشتہ سال 26 دسمبر کو حق دوتحریک کے دھرنے پر کریک ڈاؤن، گرفتاریوں اور مولانا ھدایت الرحمن کی رُوپوشی کے بعد یہی تبصرہ کیا جارہا تھا کہ حق دوتحریک شاید پھر سے منظم ہو نا پائے یا حق دوتحریک کے رہنماؤں اور کارکنوں کے درمیان خلیج پیدا ہوگی یا وہ حق دوتحریک کی جدوجہد سے کنارہ کَش ہوجائینگے بالخصوص مولانا ھدایت الرحمن کی پالیسیوں سے اختلاف کرینگے۔ لیکن اَب تک کا جو منظر نامہ ہے وہ تمام تبصروں کو بظاہر اُلٹ دکھائی دیتا ہے۔

کیونکہ رہائی کے بعد حق دوتحریک کے دوسرے بڑے رہنماء حسین واڈیلہ نے سوشل میڈیا پر وائرل اپنے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ مولانا ھدایت الرحمن کی عدم گرفتاری اُن کی حکمت عملی کا حصہ تھا جبکہ حق دوتحریک کے جو کارکنان جیل سے رہا ہوئے ہیں وہ بھی حق دوتحریک سے اپنی وابستگی کا اعادہ کرتے ہوئے دکھائی دیئے۔ پسنی میں رہائی کے بعد حق دوتحریک کے کارکنان کا استقبال کیا گیا۔ 

واضح رہے کہ حق دوتحریک جب سے وجود میں آئی ہے تب سے احتجاج پر ہے۔ حق دوتحریک نے 2021 اور 2022 میں طویل دھرنے دیئے۔ چیک پوسٹوں پر غیر ضروری پوچھ گچھ یا کمی، ماہی گیروں کو سمندر میں آزادانہ طورپر شکار پر جانے کی اجازت اور بارڈر کے کاروبار میں کچھ حد تک آسانیاں پیدا ہونے کے جیسے اقدامات کا اکثریتی سوچ حق دوتحریک کو کریڈٹ دیتی ہے۔  

تاھم حق دوتحریک کی پزیرائی کو متعدد حلقے بالخصوص قوم پرست سیاسی جماعتیں اُن کو کاٹا لگانے کی تھیوری سے پرکھ رہے ہیں۔ قوم پرست سیاسی جماعتوں کا یہی استدلال ہے کہ جو باتیں حق دوتحریک یا مولانا ھدایت الرحمن کرتے ہیں اگر کوئی بھی قوم پرست سیاسی جماعت کے رہنماء کرے تو اُن کے لئے مشکلات پیدا کئے جائینگے۔

حق دوتحریک نے 2021 اور 2022 پر جو دھرنے دیئے تھے وہ پُرامن تھے لیکن کیا وجہ تھی کہ حق دوتحریک کے 2022 کے دھرنے کے لئے حکومت کو کریک ڈاؤن کرنا پڑا اور گرفتاریاں عمل لائی گئیں؟۔ اِس حوالے سے جو صاحبِ رائے رکھنے والے لوگ ہیں اُن کے مطابق حق دوتحریک کے رہنماؤں سے صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو کی قیادت میں اعلی سطحی وفد کے مزاکرات ناکام ہونے خصوصاً گوادر پورٹ کو ملانے والے اہم شاہراہ "ایکسپریس وے" جو چائنا کی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو منصوبے کا بھی حصہ ہے وہاں دھرنا دینے کے باعث حکومت کو یہ سخت اقدامات کرنا پڑے۔

لیکن 26 دسمبر 2022 کے بعد گوادر شہر کے حالات انتہائی کشیدہ اور کاروباری مراکز بند رہے جس کے نتیجے میں مسلسل دس دِنوں تک گوادر شہر میں موبائل فونز اور ہر قسم کی انٹرنیٹ سروس بند کردی گئی۔ سڑکوں پر جلاو گھیراؤ ہوا، پولیس کمپلیکس کے مین داخلی گیٹ کو آگ لگائی گئی۔ مظاہروں نے پُرتشدد شکل اختیار کی۔ سب سے افسوس ناک واقعہ ڈیرہ مراد جمالی سے تعلق رکھنے والے ایک پولیس جوان کی شھادت کا بھی رونما ہوا۔ پولیس جوان کی قتل کا مقدمہ مولانا ھدایت الرحمن اور حق دوتحریک کے دوسرے رہنماؤں کے خلاف درج کیا گیا ہے۔ 

تاھم پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کئی دنوں تک گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رہا۔ حق دوتحریک کے کارکنوں اور اِس کے ہمددردوں کے گھروں پر چھاپے لگائے گئے جہاں چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کرنے اور چھاپوں کے دوران گھروں میں توڈ پھوڑ اور تشدد کے الزامات بھی سامنے آئے۔ جب حالات معمول پر آئے توڑ پھوڑ کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہوتے رہے۔ جلاؤ گھیراؤ سمیت پولیس افسران اور اہلکاروں پر پتھراؤ کرنے اور سرکاری اِملاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں حق دوتحریک کے دسیوں کارکنوں کو گرفتار کیا گیا اور بڑی تعداد میں حق دوتحریک کے کارکنوں کے خلاف ایف آئی درج کئے گئے۔ اِس وقت بھی مولانا ھدایت الرحمن اور اس کے دیگر ساتھی جیل میں ہیں۔

مولانا ھدایت الرحمن کی موقع سے گرفتار نہ کرنے یا مبینہ روپوشی کو حق دوتحریک کے مخالفین نے خوب اچھالا سوشل میڈیا پر اِس حوالے سے مولانا ھدایت الرحمن پر سخت تنقید کی گئی اور جب مولانا ھدایت الرحمن گرفتار ہوئے تو تب بھی مخالفین اِسے کسی مفاہمت کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ حق دو تحریک کریک ڈاؤن اور گرفتاریوں کا الزام صوبائی حکومت پر لگانے کے ساتھ ساتھ علاقہ ایم پی اے کو بھی اِس کا مہردِ الزام ٹھہراتا ہے۔ ایم پی اے کا تعلق بی این پی مینگل سے ہے۔ بی این پی مینگل نے حق دوتحریک کے اِس الزام کو سیاسی ہمددری حاصل کرنے کا پروپگنڈہ قرار دیکر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی این پی مینگل بلوچستان میں اپوزیشن میں ہے حکومت میں نہیں۔  

حق دوتحریک پر کریک ڈاؤن کے بعد خواتین کی بڑی تعداد نے بھی سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا۔ شیلنگ سے کئی خواتین زخمی بھی ہوئے۔ خواتین پر شیلنگ کا گوادر میں یہ شاید پہلا واقعہ تھا۔ حق دوتحریک کے مخالفین حق دوتحریک پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ حق دوتحریک نے شہر کے پُرامن حالات کو خراب کرنے کی دانستہ کوشش کی تاکہ اِسے زیادہ سے زیادہ عوامی حمایت مل سکے۔

حق دوتحریک کو اِس وقت دوسری سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے مقابلے میں عوامی حمایت حاصل ہے جس کا اندازہ 2021 اور 2022 کے دھرنوں کے دوران مرد اور خواتین کی الگ الگ ریلیوں میں دیکھا گیا۔ اَب یہ حق دوتحریک کے مخالفین کی حکمتِ عملی پر منحصر ہوگا کہ وہ سیاسی میدان میں حق دوتحریک کا زُور کم کرنے کے لئے رائے عامہ کو اپنی طرف کیسے متوجہ کرتے ہیں۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ مراعات اور لالچ سے اکثریت کا ذہن تبدیل کرانا عبث ہوگا کیونکہ عوامی نمائندوں کی کارکردگی سے عوام من الحیث طورپر خوش نہیں۔ 

گوادر شہر اِس وقت بنیادی انفراسٹرکچر سے محروم ہے۔ گوادر شہر کا بڑا نام ہے، گوادر پورٹ موجود ہے اور شہر سی پیک کا مرکز ہے لیکن یہاں کوئی قابلِ ذکر عوامی منصوبہ موجود نہیں جو مثال کے طورپر پیش کیا جاسکے۔ گوادر کی گٹر ابلتی سڑکیں اور بارشوں کے دوران نکاسی آب کے پریشان کن مسائل ہیں۔ علاج و معالجہ، پانی، بجلی اور تعلیمی سہولیات ناپید ہیں۔ نوجوان بڑی تعداد میں بے روزگار ہیں اور ماہی گیروں کے سر پر غیر قانونی ٹرالرنگ کی تلوار مستقل طورپر لٹک رہی ہے۔

تاھم کریک ڈاؤن اور گرفتاریوں کے بعد حق دو تحریک کے صفوں میں کسی بھی قسم کی اِختلاف زبانِ عام نہیں۔ فی الحال حق دوتحریک ضلع گوادر کی سیاست میں اپنے حریفوں کے لئے ایک بڑا چیلنج بنا رہے گا۔ لیکن سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں کیونکہ حالات تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتے۔ عام انتخابات کے دنگل میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے مقابلے میں عام انتخابات کا معرکہ سر کرنا اتنا آسان نہیں۔

بالخصوص ضلع گوادر میں بہت سے فیکٹر موجود ہیں اور یہ فیکٹر ہمیشہ سے نتائج پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ لیکن کریک ڈاؤن اور گرفتاریوں نے حق دوتحریک کو مزید اسپیس دیا ہے اور اِس بنا پر حق دوتحریک مزید عوامی حمایت حاصل کرسکتی ہے، چائے اسے کوئی سازشی تھیوری سے جوڈے یا کوئی اور نام دے۔ اِس کا فیصلہ آنے والے وقت پر چھوڑ دیتے ہیں اور آنے والا وقت ہر چیز ثابت کرے گا۔   

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں