Posts

Showing posts from August, 2023

ایران کا سیاحتی سفر (6)

Image
  عبدالحلیم حیاتان  رشت (Rasht) شہر میں بھی رم جم برس رہی تھی ہم نے رشت کے مشہور پوائنٹ "میدانِ شھرداری" یعنی میونسپل اسکوائر کے قریب پاک ہوٹل میں قیام کیا۔ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ہم رشت شہر کی خوبصورتی کا لطف اٹھانے کے لئے ہوٹل سے باھر نکلے۔ بارش سے میدانِ شھرداری جل تھل گیا تھا اور وہاں پر لگائے گئے رنگ برنگی پھول ساون کی بوندیں پڑھنے کے بعد مزید نکھر آئے تھے جو میدان شھرداری کی خوبصورتی کو مزید دوبالا کررہے تھے۔ میدانِ شھر داری کے اطراف ریسٹورنٹ، رہائش کے لئے ہوٹل اور مارکیٹ قائم کئے گئے ہیں۔ رشت شہر کا میدانِ شھرداری رنگ و نور کے جلوے سے جیسے فروزاں تھا۔ لوگوں کی بڑی تعداد میدانِ شھرداری کی خوبصورتی کا لطف اٹھانے کے لئے میدانِ شھرداری کی طرف امنڈ آیا تھا۔ ساون کی بوندیں شام کے لمحات کو مزید خوش گوار احساس میں بدل رہے تھے۔ رنگ و روپ کا جلوہ میدانِ شھرداری کی رونقوں کو مزید جلا بخش رہی تھیں، جب کہ میدانِ شھرداری کے قریب نصب کی گئی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے جوڑے ساون کی بوندوں میں بھیگنے کا مزہ اٹھا رہے تھے اور ایسا گمان ہورہا تھا ہم یورپ میں گھوم رہے ہیں۔ رشت کا میدانِ شھرداری

گْوادر کے نوجوانوں کو ایمبولینس سروس شروع کرنے کا خیال کیسے آیا

Image
  عبدالحلیم حیاتان  گْوادر ایمبولینس سروس گْوادر نامی رضاکار تنظیم گْوادر شہر میں گزشتہ ایک سال اور آٹھ ماہ سے ایمبولینس سروس فراہم کررہی ہے۔ لیکن 20 ماہ کے دوران انسانیت کی خدمت کے اِس کام کا کریڈٹ لینے کے لئے اِس کی سوشل میڈیا پر تشہیر کی گئی اور نہ ہی اسے بڑھا چڑھاکر پیش کیا گیا۔ یہ سروس خاموشی سے جاری ہے اور وہ بھی مفت میں فراہم کی جارہی ہے۔  گْوادر ایمبولینس سروس کا دائرہ کار اندرونِ شہر کے علاوہ ضلع گوادر کے دیگر علاقوں اور تُربَت تک محدود ہے جہاں مریضوں کو ایمرجنسی کی صورت میں ھسپتال لیجانے اور لانے اور میت کو پہنچانے کا کام سرانجام دیا جاتا ہے۔ ایمبولینس سروس کے علاوہ گْوادر ایمبولینس سروس گْوادر ھسپتال میں فوت ہونے والے لاوارث افراد کی کفن دفن اور تدفین کے لئے بھی اپنی خدمات پیش کررہی ہے۔ یہ تنظیم گْوادر کے نوجوان رضاکار مل کر چلا رہے ہیں۔    ایمبولینس سروس شروع کرنے کا خیال کیسے آیا؟ گْوادر ایمبولینس سروس کے دو اہم رضا کار رکن نسیم موسیٰ اور نعیم حکیم رات گئے موٹر سائیکل پر گھر  جارہے تھے کہ دونوں کو محلے کی گلی میں دو خاتون کسی گھر کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں

ایران کا سیاحتی سفر (5)

Image
  عبدالحلیم حیاتان  خوبصورت ماسوله اور تاریخی قلعہ رودخان دیکھنے کے بعد ہمارا سفر تالش کے لئے شروع ہوتا ہے۔ تالش کے نواحی علاقے چوبر (Chubar) میں مسعود کا ایک کاروباری دوست گارمن رہائش پذیر ہے جو کیوی کے پھل کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ جب ہم ایران کے شمالی علاقوں کے لئے روانہ ہوئے تو مسعود نے فون کرکے گارمن کو اپنی صوبہ گیلان میں موجودگی کے بارے میں اطلاع دی جس پر گارمن نے مسعود سے اِصرار کیا کہ لازمی طورپر وہ اُن کے یہاں آجائیں۔ گارمن تالش شہر کے نواح میں واقع چوبر (Chubar) نامی ساحلی شہر میں سکونت رکھتے ہیں۔ گارمن کے بے حد اِصرار پر ہم تالش کے لئے نکلے۔ تالش شہر میں داخل ہوتے ہی گارمن نے ہمارا استقبال کیا۔ پھر وہ ہمیں چوبر (Chubar) کے ساحل پر واقع ایک ریسٹورنٹ لے کر گیا جہاں گارمن نے لذیذ مچھلی کے کباب سے ہمیں ڈنر کرایا۔ ڈنر میں گارمن کی زوجہ اور دوبیٹیاں بھی موجود تھیں۔ گارمن اور اُن کے خاندان کو ہم نے انتہائی مہمان نواز اور ملنسار پایا۔ غیر ملکی ہونے کے باوجود گارمن نے ہمیں اجنبی ہونے کا احساس نہیں دلایا بل کہ اپنی خوش گُفتاری سے گارمن نے مجھے اور دُرّا کو خوش گوار حیرت میں مبتلا کردی

ایران کا سیاحتی سفر (4)

Image
عبدالحلیم حیاتان  رات کو فومن شہر میں قیام کے بعد ہم فومن کے نواح میں واقع خوبصورت اور پر فضاء سیاحتی مقام  ماسوله (Masuleh) کی طرف روانہ ہوئے۔ کرایہ کے فلیٹ سے نکلنے کے بعد ہم مین سڑک پر واقع  ایک جنرل اسٹور پر گئے جو ہمارے فلیٹ سے چند قدم کے فاصلے پر واقع تھا۔ دکان کا مالک مہدی نامی فارسی گجر تھا۔ جب مسعود نے اُن سے فارسی زبان میں بات کی اور کہا کہ وہ یعنی مسعود چھبار کا ہے اور میرا اور دُرّا کا تعارف کراتے ہوئے مہدی کو بتایا کہ یہ دونوں پاکستانی شہری ہیں اور اِن کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہے جو پاک ایران بارڈر "گبد ریمدان" سے 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ساحلی شہر گوادر میں رہتے ہیں۔ مہدی ہم سے انتہائی گرم جوشی سے ملا اور اُس نے ہمیں شمال کا سفر کرنے پر خوش آمدید کہا۔ مہدی انتہائی ملنسار اور ہنس مکھ تھا جو ہم سے گُھل مل گیا جیسے وہ ہمارا پرانا شناسا ہو۔ مہدی زاھدان ایران کے مزہبی رہنماء مولانا عبدالحمید بلوچ سے انتہائی متاثر تھا باتوں باتوں میں وہ مولانا عبدالحمید کی پر اثر شخصیت کا تذکرہ کرنے لگا۔ جب ہم نے مہدی سے ذکر چھیڑا کہ ہم مزید سیاحتی مقامات کی سفر کا ارادہ رکھتے ہیں

ایران کا سیاحتی سفر (3)

Image
  عبدالحلیم حیاتان  تہران کی چکا چوند رعنائیاں دیکھنے کے بعد ہم ایران کے شمالی علاقوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔ اپنی قیام گاہ سے ٹیکسی پکڑی اور آزادی ٹاور کے قریب واقع بس ٹرمینل پہنچے جہاں ہم نے ایک اور ٹیکسی کرایہ پر لی اور شمالی علاقوں کے لئے رختِ سفر باندھ لیا۔ تہران سے نکلنے کے بعد بڑی شاہراوں پر ہماری گاڑی دوڑتی رہی، شاہراہوں کے ساتھ ریل کی پٹری بھی نظر آئی کئی مقامات پر پہاڑوں کو کاٹ کر سُرنگیں بناکر ٹریفک کے لئے مزید آسانیاں پیدا کی گئی ہیں۔ جنہیں دیکھنے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایران نے اپنے روڑ نیٹ ورک کو مثالی بنانے کے لئے قابل تعریف اقدامات کئے ہیں۔ شمال کے سفر کے دوران جگہ جگہ دل موہ لینے والے نظارے، جھیل اور ہریالی نظر آرہی تھی۔  شمالی علاقوں کے سفر کے لئے ہماری پہلی منزل ایران کے صوبے گیلان کا شہر فومن تھا سو فومن پہنچنے سے پہلے آنکھوں کو خِیرا کرنے والے مناظر نے ہمارا سہاگت گیا، رستے میں واقع پہاڑی سلسلے ہریالی اور سبز و شاداب درختوں سے ڈھکے ہوئے تھے فطرت نے پہاڑوں کے چٹانوں کو اپنی کاریگری سے چھپا لیا ہے تاحدِ نگاہ سبزہ ہی سبزہ نظر آتی ہے۔ رستے میں موجود قدرتی اور دلکش نظ

سریلی آواز کے بادشاہ نورخان بزنجو کی 20 ویں برسی

Image
  عبدالحلیم حیاتان 5 اگست بلوچی زبان کے معروف گلوکار نورخان بزنجو مرحوم کی 20 ویں برسی کا دِن ہے۔ نورخان بزنجو کا شُمار بلوچی فنِ گائیکی میں ایک عہد ساز گلوکار میں کیا جاتا ہے۔ نورخان بزنجو کا تعلق فن و ادب کی زرخیز سرزمین پَسِّنی سے تھا، وہ 4 دسمبر 1969ء کو پَسِّنی میں پیدا ہوئے اور 5 اگست 2003 کو اپنے مداحوں سے جدا ہوگئے۔ نورخان بزنجو کو اپنے مداحوں سے جدا ہوئے دو دہائی کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن اِس عرصے میں نورخان بزنجو کی آواز کا کوئی متبادل پیدا نہ ہوسکا۔  نورخان بزنجو کا فن اُن کے وفات کے بعد بھی بلوچی موسیقی میں تر و تازہ ہے۔ نورخان بزنجو کی آواز میں کمال کا سوز تھا اور اُن کی آواز سے بلوچی گیت اور غزل موتی بن کر نکلتے تھے۔ نورخان بزنجو کو اپنے مداحوں سے بچھڑے ہوئے 20 سال گزرگئے ہیں لیکن اُن کی آواز کا سحر ابھی بھی برقرار ہے اور اُن کی آواز کا جادو بلوچی موسیقی کے مداحوں  کے کانوں میں ابھی تک رس بن کر گھول رہے ہیں۔ جب بھی بلوچی فنِ میوسیقی کا تزکرہ ہوگا نورخان بزنجو اپنی سریلی آواز کے ساتھ چمکتے ہوئے ستارے کی مانند نظر آئینگے۔ نورخان بزنجو جیسے سریلی آواز کے بادشاہ اور لیجنڈری گلو

ایران کا سیاحتی سفر (2)

Image
عبدالحلیم حیاتان  کُنارَک میں رات کو قیام کرنے کے بعد ہم اگلے روز تہران کے سفر کے لئے روانہ ہوئے۔ تہران کے سفر کے لئے ہم نے ہوائی جہاز کے سفر کا انتخاب کیا کیونکہ تہران کا چاہ بہار سے زمینی فاصلہ تقریبا 1900 کلومیٹر ہے۔ طویل سفر کی دقت سے بچنے کے لئے ہم نے ہوائی جہاز کے سفر کو ترجیح دی۔ کُنرک انٹر نیشنل ایئرپورٹ سے ایران کے مختلف شہروں کے لئے فضائی سروس دستیاب ہے جب کہ بیرون ملک (خلیجی ممالک) کے سفر کے لئے بھی یہاں سے فلائٹ دستیاب ہے۔ شہر کا نام کُنرک ہے اور بلوچ اسے کُنرک کہتے ہیں مگر فارسی میں اسے بھگاڑ کر کُنارَک رکھ دیا گیا ہے۔  فارسی میں ایئرپورٹ کو فرودگاہ کہتے ہیں۔ کُنرک کا ہوائی اڈہ چابہار کی بندرگاہ سے تقریباً 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ہوائی اڈہ امریکیوں نے 1950 کی دہائی میں تعمیر کیا تھا۔ ایرانی وقت کے مطابق ہماری پرواز نے صبح 9 بجے اڑان بھری اور دو گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد ہماری پرواز تہران امام خمینی انٹر نیشنل ایئرپورٹ لینڈ کرگیا۔ تہران اسلامی جمہوریہ ایران کا دارالحکومت اور ایران کا آبادی کے حجم کے حوالے سے بڑا شہر بھی ہے۔ تہران کے معنی "Hot Place" ی