ایران کا سیاحتی سفر (4)
عبدالحلیم حیاتان
رات کو فومن شہر میں قیام کے بعد ہم فومن کے نواح میں واقع خوبصورت اور پر فضاء سیاحتی مقام ماسوله (Masuleh) کی طرف روانہ ہوئے۔ کرایہ کے فلیٹ سے نکلنے کے بعد ہم مین سڑک پر واقع ایک جنرل اسٹور پر گئے جو ہمارے فلیٹ سے چند قدم کے فاصلے پر واقع تھا۔ دکان کا مالک مہدی نامی فارسی گجر تھا۔ جب مسعود نے اُن سے فارسی زبان میں بات کی اور کہا کہ وہ یعنی مسعود چھبار کا ہے اور میرا اور دُرّا کا تعارف کراتے ہوئے مہدی کو بتایا کہ یہ دونوں پاکستانی شہری ہیں اور اِن کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہے جو پاک ایران بارڈر "گبد ریمدان" سے 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ساحلی شہر گوادر میں رہتے ہیں۔ مہدی ہم سے انتہائی گرم جوشی سے ملا اور اُس نے ہمیں شمال کا سفر کرنے پر خوش آمدید کہا۔ مہدی انتہائی ملنسار اور ہنس مکھ تھا جو ہم سے گُھل مل گیا جیسے وہ ہمارا پرانا شناسا ہو۔ مہدی زاھدان ایران کے مزہبی رہنماء مولانا عبدالحمید بلوچ سے انتہائی متاثر تھا باتوں باتوں میں وہ مولانا عبدالحمید کی پر اثر شخصیت کا تذکرہ کرنے لگا۔
جب ہم نے مہدی سے ذکر چھیڑا کہ ہم مزید سیاحتی مقامات کی سفر کا ارادہ رکھتے ہیں تو مہدی نے فوراً اپنے کسی جاننے والے ٹیکسی ڈرائیور کو فون کرکے بلایا۔ راستے میں ٹیکسی کا ڈرائیور کہنے لگا کہ مہدی اپنے علاقے کا مذہبی شخص ہے، ماہ محرم کے دوران مہدی عزاداری کے مجالس میں بیان کرتے ہیں۔ ہماری گاڑی خوبصورت نظاروں کے درمیان چل رہی تھی، سڑک کے دونوں اطراف سبزہ ہی سبزہ ہے۔ ایک طرف چاول کی فصل کی بہار تھی اور دوسری طرف آنکھوں کو خِیرا کرنے والی چائے کے باغات تھے۔ صوبہ گیلان کی اِس پٹی پر چاول اور چائے کثرت سے کاشت کی جاتی ہے۔ تاحدِ نگاہ وسیع رقبے پر چاول اور چائے کے باغات ہی نظر آرہے تھے۔ دُرّا کہنے لگا یہاں پر خالی زمین نظر نہیں آئے گا۔ ہماری گاڑی مسلسل جارہی تھی۔ دُرّا درست کہہ رہا تھا، ہمیں رستے میں بنجر اور بے آب و گیاہ زمین نظر کہیں پر نہیں آئی۔ جہاں بھی نظر دوڑائیں قدرت کا حسن جھلکتا ہے جو دِل اور دماغ کو تاسیر فراہم کرتے ہیں۔ فومن شہر سے نکلنے کے بعد ہمارے سفر کا ہدف دو سیاحتی مقامات تھے جس میں ماسوله اور قلعہ رودخان شامل تھے۔ پہلے ہم نے ماسوله کے نظارے دیکھنے کا انتخاب کیا۔
ماسوله (Masuleh):
ماسوله فومن شہر سے 32 کلومیٹر دور مغرب کی طرف بحرہ کیپسئین کے جنوبی ساحل کے قریب البرز کے پہاڑی سلسلے کے ساتھ واقع ہے۔ سطح سمندر سے ماسوله کی بلندی 1050 میٹر ہے۔ ماسوله گاؤں کے درمیان ایک دریا بھی پہاڑی کی چوٹیوں سے ایک آبشار کے ساتھ بہتا ہے جسے ماسوله رود خان دریا کہتے ہیں۔ ماسوله میں داخل ہوتے ہی قدرت کے حسین نظارے اور پہاڑی کے دامن میں پیلی رنگ کے گھر اور آبشار ماسوله کی پرکشش ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ ماسوله کی زیادہ تر عمارتوں کے بیرونی حصے پیلی مٹی سے بنائے گئے ہیں۔ پیلی مٹی سے گھر بنانے کا مقصد یہی ہے کہ یہ دھند میں بہتر طورپر دکھائی دے سکیں۔ اوپر کی عمارت کا صحن نیچے واقع عمارت کے چھت کے نام سے مشہور ہے۔ تمام عمارتیں پہاڑ پر بنائی گئی ہیں جو ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ ماسوله کے گھروں کا یہ شاندار فن تعمیر دیکھنے کے لاحق ہے۔ ماسوله کے قابل دید نظارے دیکھنے کے بعد ہم صوبہ گیلان کے ایک اور سیاحتی مقام قلعہ رودخان کے لئے نکل گئے جس کے لئے ہم پہلے فومن شہر آئے اور یہاں پر دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد رودخان قلعہ کے لئے روانہ گئے۔
رودخان قلعہ:
تاریخی حوالہ جات کے مطابق رودخان قلعہ فارس پر مسلمانوں کی فتح کے دوران عرب حملہ آوروں کے خلاف دفاعی مقاصد کے لئے ساسانی دور (224-651ء) میں تعمیر کیا گیا ہے۔ رودخان قلعہ فومن شہر سے 25 کلومیٹر دور جنوب مغرب میں واقع ہے۔ قلعہ پر پہنچنے کے لئے ایک ہزار کے قریب سیڑھیاں بنائی گئی ہیں۔ یہ سیڑھیاں گھنے اور سر سبز و شاداب جنگل میں واقع ہیں۔ جنگل کے درمیان ایک ندی بھی بہتی ہے جسے رود خان ندی کہتے ہیں۔ قلعہ اور یہاں کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے لئے پیدل سفر کرنا ہوگا جو کہ بڑا کھٹن کام ہے کیونکہ یہ سیڑھیاں مسلسل طور پر اونچائی کی طرف بنائی گئی ہیں۔ دُرّا اور مسعود ہمت کرکے قلعہ پر پہنچ گئے لیکن میں ہمت نہ کرسکا کیونکہ میرے پیر مزید سیڑھیاں چڑھنے کے لئے میرا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ قلعہ میں 65 برج بنائے گئے ہیں، قلعہ کی دیوار کی لمبائی 1550 میٹر ہے۔ قلعہ کی تعمیر میں چٹانوں سمیت قدرتی پہاڑی خصوصیات کا استعمال کیا گیا ہے۔ رودخان قلعہ کی سطح سمندر سے بلندی 655 سے 715 میٹر تک ہے جو پہاڑ کی دو چوٹیوں پر واقع ہے۔ رودخان قلعہ کا رقبہ (6.4 ایکڑ) پر محیط ہے۔ تاہم رودخان قلعہ کا راستہ قابل دید نظاروں کا مجموعہ، سر سبز پہاڑ، خوبصورت جنگل اور بہتے ہوئے ندی کا حسین امتزاج ہے جو انتہائی لطف اندوز بھی ہے۔ ماسوله اور قلعہ رودخان جیسے پر فضاء، سیاحتی اور تاریخی مقامات کا سیر کرنے پر کوئی بھی خوش گوار حیرت میں مبتلا اور لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
Comments
Post a Comment