ایران کا سیاحتی سفر (2)


عبدالحلیم حیاتان 

کُنارَک میں رات کو قیام کرنے کے بعد ہم اگلے روز تہران کے سفر کے لئے روانہ ہوئے۔ تہران کے سفر کے لئے ہم نے ہوائی جہاز کے سفر کا انتخاب کیا کیونکہ تہران کا چاہ بہار سے زمینی فاصلہ تقریبا 1900 کلومیٹر ہے۔ طویل سفر کی دقت سے بچنے کے لئے ہم نے ہوائی جہاز کے سفر کو ترجیح دی۔ کُنرک انٹر نیشنل ایئرپورٹ سے ایران کے مختلف شہروں کے لئے فضائی سروس دستیاب ہے جب کہ بیرون ملک (خلیجی ممالک) کے سفر کے لئے بھی یہاں سے فلائٹ دستیاب ہے۔ شہر کا نام کُنرک ہے اور بلوچ اسے کُنرک کہتے ہیں مگر فارسی میں اسے بھگاڑ کر کُنارَک رکھ دیا گیا ہے۔ 


فارسی میں ایئرپورٹ کو فرودگاہ کہتے ہیں۔ کُنرک کا ہوائی اڈہ چابہار کی بندرگاہ سے تقریباً 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ہوائی اڈہ امریکیوں نے 1950 کی دہائی میں تعمیر کیا تھا۔ ایرانی وقت کے مطابق ہماری پرواز نے صبح 9 بجے اڑان بھری اور دو گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد ہماری پرواز تہران امام خمینی انٹر نیشنل ایئرپورٹ لینڈ کرگیا۔ تہران اسلامی جمہوریہ ایران کا دارالحکومت اور ایران کا آبادی کے حجم کے حوالے سے بڑا شہر بھی ہے۔ تہران کے معنی "Hot Place" یعنی گرم مقام ہے۔ افشاری دور میں ایران کا دارالحکومت مشھد شہر تھا۔ پہلی مرتبہ 1786ء میں قاجار دور میں آغا محمود خان نے تہران کو ایران کا دارالحکومت منتخب کیا۔


لیکن 1907ء میں تہران شہر باضابطہ طور پر ایران کا درالخلافہ بن گیا۔ 1907ء میں تہران کا باضابطہ طورپر دارالخلافہ بننے کے پیش نظر تہران سٹی کونسل نے 6 اکتوبر 2016ء کو تہران کا دن منانے کا اعلان کیا۔ تہران کہ موجودہ آبادی نو ملین سے زائد ہے۔ 2016 میں کنسلٹنٹ مرسر کی 230 شہروں کے سروے کے دوران تہران کو بہتر معیار زندگی کے اعتبار سے 203 ویں درجہ پر رکھا گیا ہے۔ 2016 کے گلوبل ڈسٹینیشن سٹیز انڈیکس میں تہران کو سر فہرست دس تیزی سے ترقی کرنے والے مقامات میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی 2018 کے ایک رپورٹ میں تہران کو آبادی کے عجم کے اعتبار سے دنیا کا 34 واں اور مغربی ایشیاء کا سب سے بڑا شہر قرار دیا گیا ہے۔ تہران ایران کا انتظامی، اقتصادی اور ثقافتی مرکز کے ساتھ ساتھ خطے کا بڑا صنعتی اور ٹرانسپورٹ مرکز بھی ہے۔ تہران سطح سمندر سے تقریباً 1,173 میٹر کی بلندی پر کوہ البرز کے دامن میں واقع ہے۔


تہران کے لوگوں کی 99% آبادی فارسی زبان بولتی اور سمجھتی ہے۔ تہران میں فارسی بولنے والوں کے علاوہ دیگر نسلی گروہ بھی آباد ہیں جن میں آذربائیجانی، آرمینیائی، لورس اور کرد شامل ہیں۔ ان نسلی گروہوں کی دوسری زبان فارسی ہے۔ تہران میں لوگوں کا لائف اسٹائل ماڈرن ہے۔ سفر کے آغاز سے قبل ہم سمجھ رہے تھے کہ ایران میں سخت گیر حکومت کے سایہ میں پھلنے والی قوم مختلف پابندیوں کا شکار ہوگی بالخصوص عجاب اور پردے کے حوالے سے ایرانی لازمی طورپر اس پر عمل پیرا ہونگے کیونکہ 13 ستمبر 2022ء کو ایک کرد نامی خاتون مہسا امینی کو تہران میں ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی پر اخلاقی پولیس نے گرفتار کیا اور دورانِ حراست مہسا امینی کی مبینہ تشدد سے ہلاکت کا واقعہ بھی رونما ہوچکا تھا۔


جس کے بعد ایران بھر میں بھر پور رد عمل دکھنے میں آیا اور ملک میں بغاوت اور آشوب جیسی صورتحال پیدا ہوگئی۔ مظاہرے تھم جانے کے بعد ایرانی حکومت نے کاروائی کرکے متعدد لوگوں کو موت کی اور بہت سوں کو جیل کی سزا سنا دی۔ اِن واقعات کے پیشِِِ نظر ہماری بھی یہی خیال تھا کہ تہران کی سڑکوں پر عجاب اور لباس کی مکمل پابندی کی جائے گی لیکن تہران میں ہمیں صورتحال اس کے برعکس دیکھنے کو ملی۔ تہران کے بیشتر سڑکوں اور پارک میں رنگ و نور کی بہار تھی۔ نوجوان لڑکیاں جینس پہن کر اور اپنا چہرہ ڈھانپے بغیر آزادانہ طورپر گھومتے پھرتے دکھائی دیئے۔ اور تو اور نوجوان جوڑے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر یا کندھے سے کندھا ملاکر چلتے ہوئے دکھائی دیئے۔ پارک اور دیگر تفریحی مقامات پر نوجوان جوڑے اٹکیلیاں کرتے ہوئے بھی نظر آئے۔ بوس و کنار کے منظر بھی دکھائی دیئے۔ تفریحی مقامات پر برقہ یا عجاب میں صرف چند خاتون نظر آئے مگر ماڈرن لباس زیب تن کرنے والوں کی تعداد زیادہ تھی۔


مہسا امینی کی ہلاکت اور اس کے ردعمل میں کریک ڈاؤن کے باوجود ایرانی حکومت لوگوں کے لائف اسٹائل پر شاید نظر انداز نہیں ہوسکی ہے۔ ایرانی شہریوں کا کہنا تھا کہ گوکہ حکومت اپنے قدامت پرست اقدامات کا نفاذ چاہتی ہے مگر شہری اپنی طرز پر جینے کی راہ پر گامزن ہیں جس کا مظاہرہ بالکل ہم نے تہران میں دیکھا۔ تہران میں ہمارا قیام ایک دن رہا اس دوران ہم برج میلاد (میلاد ٹاور) بھی دیکھ آئے۔ ایران کے دارالخلافہ تہران میں واقع برج میلاد دنیا کا چھٹا لمبا ٹاور ہے۔ برج میلاد کی لمبائی 435 میٹر ہے۔ برج میلاد کی تعمیر کا آغاز 1997 میں شروع کیا گیا تھا جو 2007 میں پائیہ تکمیل کو پہنچا ہے۔ برج میلاد کے ہر منزل میں شاپنگ مال، دکانیں اور کھانے پینے کی ریسٹورنٹ قائم کئے گئے ہیں۔ برج میلاد پر چڑھنے کے بعد تھران شہر کا ہر طرف سے نظارہ کیا جاسکتا ہے بالخصوص رات کو برج میلاد پر کھڑے ہونے کے بعد روشنیوں سے جگمگاتا ہوا تہران شہر کا نظارہ دلفریب منظر پیش کرتا ہے۔


تہران میں دیکھنے کے لاحق بہت سے تاریخی اور تفریحی مقامات موجود ہیں جو نہ صرف پرکشش ہیں بل کہ یہ ایران کے قدیم تہذیب و تمدن، تاریخی اور ثقافتی ورثہ کی بھی عکاسی کرتی ہیں۔ تہران شہر میں واقع آزادی ٹاور بھی وہاں جانے والوں کی توجہ اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اس یادگار کو ایران کے آخری شاہ محمد رضا پہلوی نے پہلی فارس سلطنت کی 2500 ویں سالگرہ کی یاد میں تعمیر کیا تھا۔ ٹاور کا ڈیزائن ایران کے مشہور آرکیٹکٹ حسین امانت نے ڈیزائن کیا تھا۔ آزادی ٹاور 1971ء کو مکمل کیا گیا ہے جسے 14 جنوری 1972ء کو عوام کے لئے کھولا گیا تھا۔ آزادی ٹاور ایک وسیع و عریض سبزہ زار میں واقع ہے۔ آزادی ٹاور کے اندر میوزیم بھی بنایا گیا ہے۔ آزادی ٹاور تقریباً 45 میٹر (148 فٹ) اونچا ہے اور اس کا احاطہ 17 ایکڑ رقبہ اراضی پر محیط ہے۔ تہران شہر اپنے لائف اسٹائل اور خوبصورتی کی وجہ سے اپنے سفر کرنے والوں کے لئے بھرپور تفریح پہنچانے والا شہر ہے۔ ُ


تہران کے تاریخی اہمیت و مقامات، جدید انفراسٹرکچر اور بلند و بالا عمارتیں شہر کی رعنائیوں کو دوام بخشتی ہیں اور یہاں گھومتے ہوئے ایسا گمان ہوتا ہے کہ یہ پورپ کے کسی شہر کا ہم پلہ شہر ہے۔ بڑا شہر ہونے کی وجہ سے تہران میں مہنگائی کا تناسب بھی زیادہ ہے۔ شام ڈھلتے ہی تہران جاگ جاتا ہے اور رنگینیوں میں نہانے لگتا ہے۔ تہران کے بعد ہم ایران کے شمال میں واقع سْیاحتی مقام کی طرف روانہ ہوئے۔ 

جاری ہے۔۔۔۔۔۔


Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں