گوادر: پانی کا بحران اور منصوبہ بندی کا فقدان
عبدالحلیم حیاتان
گوادر شہر اور اِس کے نواحی علاقے، بشمول پشکان، پلیری اور جیونی شدید پانی بحران کی لپیٹ میں ہیں۔ واضح رہے کہ گْوادر شہر اور متاثرہ علاقوں کی آبادیوں کے پینے کے پانی کا انحصار سوڈ ڈیم اور آنکاڑہ ڈیم پر تھا، مگر شدید قحط سالی کے باعث پہلے آنکاڑہ ڈیم خشک ہوگیا اور اب سوڈ ڈیم کے بھی سوکھ جانے کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔
سوڈ ڈیم میں پانی کا ذخیرہ ختم ہونے کے بعد متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے شادی کور ڈیم سے پانی کی فراہمی شروع کی ہے جب کہ ایک طرف ٹینکروں کے ذریعے میرانی ڈیم سے پانی سپلائی کیا جارہا ہے۔ تاہم اِن متبادل اقدامات کے باوجود گْوادر شہر میں پانی کے بحران پر قابو نہیں پایا جاسکا، جس کے نتیجے میں عوامی احتجاج بھی شروع ہوچکے ہیں۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ترقی کے اُفق پر ابھرتے ہوئے شہر گْوادر میں پانی کا بحران کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ شہری اِس بحران کی تقریبا پانچویں لہر سے گزر رہے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر گْوادر شہر بار بار پانی کے بحران کی زد میں آتا ہے تو اِس سے نمٹنے کے لئے پائیدار منصوبہ بندی کیوں نہیں کی گئی؟ صرف عارضی اور وقتی اقدامات پر ہی کیوں اکتفا کیا جاتا رہا ہے جو شہریوں کی پیاس بجھانے کے لیے ناکافی ہیں۔
جب قحط سالی ختم ہوجاتی ہے تو متعلقہ ادارے غفلت برتتے ہیں، لیکن جیسے ہی طویل خشک سالی کا آغاز ہوتا ہے، ڈیمز سوکھ جاتے ہیں اور پانی کا بحران شدت اختیار کرلیتا ہے، جو شہریوں کی روزمرہ زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے۔
گْوادر ایک ابھرتا ہوا شہر ہے۔ یہاں ایک طرف سمندر موجود ہے اور دوسری جانب تقریباً 150 کلومیٹر کے فاصلے پر میرانی ڈیم واقع ہے، مگر اِن وسائل سے فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔ حکومت بس قحط سالی کے خاتمہ کا انتظار کرتی ہے، جو اگر طویل ہو جائے تو اِس کا بوجھ شہریوں کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔
گْوادر میں ایک ارب روپے سے زائد کی لاگت سے انڈسٹریل ایریا (کارواٹ) کے مقام پر سمندری پانی کو میٹھا بنانے کے لیے desalination پلانٹ تعمیر کیا گیا تھا، مگر یہ منصوبہ عوام کو دو گھونٹ پانی بھی فراہم نہ کرسکا اور ناکارہ بن گیا۔ عوامی پیسے کے اِس زیاں کا کسی نے نوٹس لیا؟
2017 میں ڈان اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 2008 میں گوادر، پسنی اور جیوانی میں شدید پانی کے بحران کے پیشِ نظر صوبائی حکومت نے سمندر کے پانی کو پینے کے قابل بنانے کے لیے چار desalination پلانٹس لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اِن پلانٹس کی تنصیب کا مقصد ضلع گْوادر میں پانی کی قلت کے مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنا تھا۔
ڈان اخبار لکھتا ہے کہ چار desalination پلانٹس کی تنصیب کا کام بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی یعنی (بی ڈی اے) کے سپرد کیا گیا تھا، بی ڈی اے نے جلد ہی اِس منصوبے پر کام شروع کر دیا۔ گْوادر کے انڈسٹریل ایریا (کارواٹ) میں نصب کیئے جانے والے پلانٹ کے تعمیر کا تخمینہ لاگت ایک ارب روپے تھی۔ اِس پلانٹ کی یومیہ پانی کی پیداواری صلاحیت 20 لاکھ گیلن پانی تھی۔ جب کہ پسنی، جیونی اور سنگار ہاؤسنگ اسکیم میں نصب کئے گئے پلانٹس میں پانی کی یومیہ پیداواری صلاحیت دو لاکھ گیلن رکھی گئی تھی۔ ہر ایک پلانٹ پر 20 کروڑ روپے کی لاگت آئی تھی۔
ڈان اخبار کے مطابق گوادر، پسنی اور جیونی کے desalination پلانٹس میں مشنری کی تنصیب میں تاخیر پر قومی احتساب بیورو (نیب) نے تحقیقات شروع کی تھیں، لیکن اِس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ گوادر شہر کو ویسے یومیہ پانی کی فراہمی کی ضرورت چالیس سے پچاس لاکھ گیلن تک ہے لیکن بحران سے قبل روزانہ پینتیس لاکھ گیلن فراہم کیا جاتا رہا ہے۔ بحران شروع ہونے کے بعد روزانہ پانی کی فراہمی 25 لاکھ گیلن رہ گئی ہے جس میں سے جیونی اور پشکان کو بھی پانی فراہم کیا جاتا ہے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ اس وقت دس لاکھ گیلن پانی شادی کور ڈیم اور پانچ لاکھ گیلن گوادر پورٹ پلانٹ سے فراہم کی جارہی ہے جب کہ دس لاکھ گیلن واٹر ٹینکرز کے زریعے فراہمی کی توقع ہے۔ جیونی اور پشکان کو آگے چل کر علیحدہ سے میرانی ڈیم سے واٹر ٹینکرز کے ذریعے پانی کی فراہمی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
گوادر کے باسیوں کی قسمت بس احتجاج اور "پانی دو، بجلی دو، ورنہ کرسی چھوڑ دو" کے نعروں تک محدود ہوگئی ہے۔ یہ وہ صدائیں ہیں جو نسل در نسل سنائی دے رہی ہیں اور جن کی گواہ کوہِ باتیل ہے، جو اپنے دامن میں ہونے والے ہر احتجاج کی گونج کو محفوظ کیے ہوئے ہے۔
ایک بزرگ بتا رہے تھے کہ وہ 80 کی دہائی سے "پانی دو، بجلی دو، ورنہ کرسی چھوڑ دو" کا نعرہ لگا رہے ہیں، اور اب ان کے بچے بھی یہی نعرہ دہرا رہے ہیں۔
گوادر میں پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے مستقل اور جامع منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں اب صرف ڈیمز پر انحصار ممکن نہیں رہا۔ اس سے آگے بڑھ کر سوچنے اور جدید وسائل بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو گوادر میں "پانی دو، بجلی دو، ورنہ کرسی چھوڑ دو" کا نعرہ آنے والے وقتوں میں بھی اسی طرح گونجتا رہے گا۔

Comments
Post a Comment