Posts

Showing posts from September, 2022

گوادر کی تاریخی عمارت "چار پادگو"

Image
عبدالحلیم حیاتان گوادر شہر کے مشرقی ساحل (دیمی زِر) پر استادہ برطانوی دور کی عمارت جسے مقامی لوگ "چارپادگو" کے نام سے پکارتے ہیں، اِس عمارت کا شمار گوادر کے قدیم عمارتوں اور تاریخی ورثہ میں ہوتا ہے۔ اِس عمارت کے منفرد اور تاریخی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ عمارت سمندر کے پُر فضا مقام پر واقع ہے اور اِسی عمارت کے اندر گوادر کا پاکستان سے الحاق کے معاملات طے پائے گئے تھے۔   یہ عمارت ڈبل اسٹوری پر مشتمل ہے اور اِس کے کل چار کمرے ہیں۔ عمارت اور اِس کے کمروں کے در و دیوار پتھر اور سمنٹ سے بنائے گئے ہیں جبکہ چھتوں کی تعمیر میں لکڑیوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ بالائی منزل پر چڑھنے کے لئے لکڑیوں کی سیڑھیاں بنائی گئی ہیں۔  عمارت کا بالائی منزل چاروں طرف سے کھلا ہوا اور ہوا دار ہے۔ بالائی منزل کی بالکونی میں بیٹھکر مشرق سے ساحل سمندر کا خوبصورت نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ عمارت کے بالائی منزل سے تین اطراف سے پورا گوادر شہر دکھائی دیتا ہے۔ جنوب میں کوہ باتیل کی چھوٹی اور گوادر پورٹ نظر آتے ہے۔ شمال میں کوہ مہدی کا مختصر پہاڑی سلسلہ بھی نظر آتا ہے۔  گوادر اور مکران کے حوالے سے مستند اور تاریخ...

بلوچ لائبریری

Image
    بلوچی: وہاب مجید مترجم: عبدالحلیم حیاتان  1980 کی دہائی میںں جب ہم ماڈل اسکول میں مڈل کے طالب علم تھے تو اُس وقت ہم نے بی ایس او کی تازہ تازہ ممبرشپ حاصل کیا ہوا تھا۔ اُس زمانہ میں گوادر میں کالج اور یونیورسٹی موجود نہیں تھے اِس لئے لڑکوں کا سب سے بڑا تعلیمی ادارہ ماڈل اسکول ہوا کرتا تھا جہاں میٹرک تک تعلیم دی جاتی تھی۔ آگے پھر جدید اسکول کو ہائی کا درجہ دیا گیا۔ بی ایس او میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد نئے ممبروں کو تاکید کی جاتی تھی کہ وہ صبح اسکول میں پڑھنے کے بعد شام کو بلوچ لائبریری بھی آیا کریں۔ بلوچ لائبریری 1980 میں بلوچ وارڈ میں ایئرپورٹ روڑ موجودہ سید ظہورشاہ ہاشمی ایونیو پر قائم کیا گیا تھا۔ جو آج میزان بنک کے بالمقابل امام بخش کی الیکٹرک کی دکان ہے۔  جب میں پہلی مرتبہ بلوچ لائیبریری میں داخل ہوا تو میں نے وہاں درمیان میں ایک بڑی گول میز دیکھی جس کے اطراف کرسیاں لگائی گئی تھیں۔ بی ایس او کے ممبران اور دو بڑی عمر کے افراد اِن کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے جو خاموشی سے کتابوں اور اخبار کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھے۔ اِسی بڑی گول میز سے پَرے ایک اور چھوٹی ٹیبل ا...

بلوچی افسانہ: اُوشتاتگیں موسم

Image
  تحریر: یونس حسی ن   مترجم: عبدالحلیم حیاتان      آج میں پھر پیاسا ہوں۔ میرے بال بکھر ہوئے ہیں اور میرے ہونٹ خشک۔ اِس تپتی ہوئی ریت پر جب میں پیچھے مُڑکر دیکھتا ہوں تو صرف میرے پاؤں کے نشان موجود ہیں۔ آب و سراب نے مجھے پھسلا کر کھلے میدان میں چھوڑ دیا تھا۔ پھر جب رات ہوتی تو جن کے چراغ مجھے پھسلاتے رہے اور ایک ایسی سمت کی طرف لے آئے کہ میں اُس طرف جب بھی جانے کی کوشش کرتا تو جا نہیں سکتا۔ جب میں نے اونچے کیکر کی درخت کو دیکھا تو میں حیران رہ گیا کہ میں کہاں آکر پہنچا ہوں۔ میرے پیر مجھے آگے جانے نہیں دے رہے تھے۔ یہ وہی کیکر کا درخت ہے جس کے گھنے سایہ کے نیچے میں نے اپنا کمزور سایہ چھپانے کے بعد اُن آنکھوں کی تلاش میں نکلا تھا کہ جن آنکھوں میں، میں نے قطرہ قطرہ جگہ بنائی تھی۔ مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے کہ جس گلی میں اس کا رستہ تھا میں نے وہاں اپنی پلکیں بچھائے تھے اور پھر اُس کی آنکھوں میں جھانکنا اور ان کو دیکھنا جیسے میرے خوابوں کا ضامن بن گیا تھا۔ میں اُس کے آنکھوں کے سمندر میں اتر گیا لیکن میرا حلق پیاس سے خشک ہوگیا تھا۔ میں تسکین کا متلاشی تھا لیکن آج میں...

بلوچی افسانہ: بَس یَک برے

Image
  تحریر: اسلم تگرانی  مترجم: عبدالحلیم حیاتان جانگُل کے ابا اِس مہینے جانگل کے لئے بازار سے ساتواں کھلونا خرید کر لایا تھا۔ کھلونا پرانی ہوجانے پر جانگُل ہر دو دن بعد اپنا کھلونا تبدیل کرتی ہے۔ رنگ برنگی نئے  کھلونوں سے جانگُل کا گھر بھرا ہوا تھا۔ جب دوستین دیکھتا ہے کی جانگُل کے ابا ہر روز جانگل کے لئے نئے کھلونے لاتا ہے تب اُس کے دل میں بھی خواہش جنم لینے لگا۔  دوستین اور جانگُل اکھٹے مِل کر مٹی کے کھلونے بنارہے تھے کہ اسی اثناء میں جانگُل کے ابا بازار سے جانگُل کے لئے کھلونا لے کر وہاں آگیا۔ جانگُل مٹی کے کھلونے چھوڑکر بھاگتی ہوئی اپنے ابا کے پاس چلی گئی۔ دوستین رِیت کے گھرُوندے توڑ کر اپنی نم آنکھوں کے ساتھ اپنی اماں کی گود میں بیٹھ گیا۔  میرے لال کیا ہوا۔ کس نے تم کو مارا ہے دوستَل؟۔ اماں! جانگُل کے ابا جانگُل کے لئے کھلونے لایا ہے۔ میرے ابا کب واپس لوٹ کر میرے لئے کھلونے لائے گا؟۔ دوستَل جان! تمھارے ابا نے پیغام بھیجا ہے کہ وہ جلد واپس لوٹ رہے ہیں اور وہ اپنے دوستَل کے لئے رنگ برنگی کھلونے بھی اپنے ساتھ لائے گا۔  اماں! ابا کو یہ بھی کہنا کہ وہ میرے لئ...

ریڈیو کا زمانہ

Image
  عبدالحلیم حیاتان  ریڈیو انیسویں صدی کی انقلابی ایجاد تصور کی جاتی ہے۔ ریڈیو اٹلی کے ایک سائنسدان اور الیکٹریکل انجینئر گگلیلمو مارکونی کی ایجاد ہے۔ ریڈیو وہ ٹیکنالوجی ہے جس میں ریڈیائی لہروں کا استعمال کیا جاتا ہے جس کے ذریعے آواز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کی جانب سے ہر سال 13 فروری کو ریڈیو کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے۔  کسی زمانہ میں معلومات تک رسائی کے لئے ریڈیو ہی واحد ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ معلومات کے دیگر ذرائع دستیاب نہ ہونے یا اس ضمن میں وسائل نہ رکھنے والوں کا انحصار ریڈیو پر ہوا کرتا تھا جس سے دنیا بھر میں رونما ہونے والے حالات اور واقعات اور ملکی حالات جاننے اور تفریحی پروگرام سننے کے لئے ریڈیو پر انحصار کیا جاتا تھا بالخصوص دیہی اور دور دراز علاقوں میں ریڈیو سننا لوگوں کے معمولات زندگی کا حصہ تھا۔  غروبِ آفتاب کے بعد جب لوگ اپنے کام کاج سے فارغ ہوتے تھے تو وہ اجتماعی طورپر ریڈیو سنتے اور اکثر لوگوں کا ریڈیو سننا ان کے مشغلے میں بھی شامل تھا۔ ریڈیو سننے کے شوقین لوگوں کو ہر جگہ ریڈیو اپنے بغل میں ...

بلوچی افسانہ: دِلپُل ءِ اَکس

Image
تحریر: اسلم تگران ی مترجم: عبدالحلیم حیاتان    آج پھر اُس کو سبق یاد نہ تھا۔ جب میں کلاس میں داخل ہوا تو اُس کی پیشانی پر پریشانی کے آثار نمایاں طورپر نظر آرہے تھے جسے میں ایک ایک کرکے پڑھنے لگا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ میں اُس کا یہ راز طالب علموں کے سامنے ظاہر کروں کیونکہ میں بھی اپنے وقت میں اِس کیفیت کا شکار رہا ہوں۔ مجھے بھی سبق یاد نہیں تھا جس پر مجھے استاد نے مرغا بنایا تھا۔ میں نے اُس دن سے پڑھائی کو خیر آباد کہا اور کھیتوں میں کام کرنے لگا۔  میں دبئی چلا گیا۔ میرے دامن میں جیسے آگ لگی ہوئی تھی۔ میں بے چین ہوگیا تھا۔ کبھی کبھار مجھے خیال آیا کہ پستول لیکر استاد کا کام تمام کروں۔ میرے ہم عصر طالب علم انجینئر اور ڈاکٹر بن گئے۔ جب وقت مہربان ہوا اور میرے چچا وزیر بن گئے تو میں اِس درسگاہ کا استاد بن گیا۔ مجھے اپنے اِس طالب علم کے لئے کوئی راستہ نکالنا تھا۔ اُس کی ماں علی الصبح نیند سے اٹھ کر اُس کے میلے کپڑے تبدیل کرتی، توے کے سامنے بیٹھ کر انگاروں کو منہ سے پھونکتی جس سے اُس کی آنکھیں سرخ اور لال ہوجاتیں۔ وہ روٹی پکاکر اُسے کھلاتی اور اُس کو ہمارے پاس بیھج دیتی۔ ...