بلوچی افسانہ: دِلپُل ءِ اَکس


تحریر: اسلم تگرانی

مترجم: عبدالحلیم حیاتان   

آج پھر اُس کو سبق یاد نہ تھا۔ جب میں کلاس میں داخل ہوا تو اُس کی پیشانی پر پریشانی کے آثار نمایاں طورپر نظر آرہے تھے جسے میں ایک ایک کرکے پڑھنے لگا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ میں اُس کا یہ راز طالب علموں کے سامنے ظاہر کروں کیونکہ میں بھی اپنے وقت میں اِس کیفیت کا شکار رہا ہوں۔ مجھے بھی سبق یاد نہیں تھا جس پر مجھے استاد نے مرغا بنایا تھا۔ میں نے اُس دن سے پڑھائی کو خیر آباد کہا اور کھیتوں میں کام کرنے لگا۔ 

میں دبئی چلا گیا۔ میرے دامن میں جیسے آگ لگی ہوئی تھی۔ میں بے چین ہوگیا تھا۔ کبھی کبھار مجھے خیال آیا کہ پستول لیکر استاد کا کام تمام کروں۔ میرے ہم عصر طالب علم انجینئر اور ڈاکٹر بن گئے۔ جب وقت مہربان ہوا اور میرے چچا وزیر بن گئے تو میں اِس درسگاہ کا استاد بن گیا۔ مجھے اپنے اِس طالب علم کے لئے کوئی راستہ نکالنا تھا۔ اُس کی ماں علی الصبح نیند سے اٹھ کر اُس کے میلے کپڑے تبدیل کرتی، توے کے سامنے بیٹھ کر انگاروں کو منہ سے پھونکتی جس سے اُس کی آنکھیں سرخ اور لال ہوجاتیں۔ وہ روٹی پکاکر اُسے کھلاتی اور اُس کو ہمارے پاس بیھج دیتی۔ 

اُس کا باپ زمیندار کے ہاں کھیتوں میں کام کرتا تھا جو ہمیشہ زمیندار کی ڈانٹ ڈپٹ کھاتا۔ وہ اپنے بیٹے کی ٹھنڈی چھاؤں میں زندگی گزارنے کی خواہش رکھتا تھا اور اِس چھاؤں کو تیار کرنے والا میں تھا۔ میں سوچھ میں پڑگیا۔ 

دِلپُل بلیک بورڈ کے سامنے آؤ اور اپنی پسند کی کوئی تصویر بناؤ۔ یہ رہا چاک جہاں گھمانا چاہتے ہو اِسے گھمائیں۔

چاک کا ٹکڑا لیکر اُس نے اپنے لزرتے ہوئے ہاتھوں سے ایک کھجور کا درخت بنایا جس پر کسان رسی  باندھ کر اس پر چڑھنے کی تیاری میں تھا۔ کجھور کے نیچے کسان کی بیوی اور چرواہے کا بیٹا پہرا دے رہے تھے اور وہاں پر موجود کجھور لینے والوں کی آنکھیں کسان پر جمی ہوئی تھیں۔

سب طالب علم اِس تصویر کو دیکھ رہے تھے اور جو بھی وہاں آیا وہ اِس تصویر کو دنگ سے دیکھنے لگا۔ 

استاد اپنے طالب علموں کو چھوڑکر اس تصویر کو دیکھنے لگے۔ بچے ڈرل چھوڑکر اِس تصویر کو دیکھنے کے لئے امنڈ آئے۔ اسکول کے سامنے ریڑھی لگانے والا ریڈی بان بھی اِس تصویر کو دیکھنے کے لئے آگیا۔ تصویر کی خبر پورے محلے میں پھیل گئی تھی۔ ھیڈ ماسٹر نے حکم نامہ جاری کیا کہ کوئی بھی اِس تصویر کو نہیں مٹائے گا۔ جو بھی تصویر دیکھنا چاہتا ہے پہلے وہ اپنے نام کا اندراج کرائے۔ سب تصویر کو دیکھ رہے تھے۔ سب دیکھنے والوں نے تصویر کو بے حد پسند کیا۔

آج دِلپُل کی شادی کے شادیانے سارے محلے میں گونج رہے تھے۔ میں اب بھی بیٹھ کر انہماک سے دلپل کے ہاتھ سے بنی ہوئی تصویر کو غور سے دیکھ کر اِس میں موجود گہرائی کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہوں کہ شاید میں اس تصویر کی گہرائی کو سمجھنے اور اِس کی تہہ تک جانے میں کامیابی حاصل کروں۔ 

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں