گوادر کی تاریخی عمارت "چار پادگو"



عبدالحلیم حیاتان
گوادر شہر کے مشرقی ساحل (دیمی زِر) پر استادہ برطانوی دور کی عمارت جسے مقامی لوگ "چارپادگو" کے نام سے پکارتے ہیں، اِس عمارت کا شمار گوادر کے قدیم عمارتوں اور تاریخی ورثہ میں ہوتا ہے۔ اِس عمارت کے منفرد اور تاریخی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ عمارت سمندر کے پُر فضا مقام پر واقع ہے اور اِسی عمارت کے اندر گوادر کا پاکستان سے الحاق کے معاملات طے پائے گئے تھے۔  

یہ عمارت ڈبل اسٹوری پر مشتمل ہے اور اِس کے کل چار کمرے ہیں۔ عمارت اور اِس کے کمروں کے در و دیوار پتھر اور سمنٹ سے بنائے گئے ہیں جبکہ چھتوں کی تعمیر میں لکڑیوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ بالائی منزل پر چڑھنے کے لئے لکڑیوں کی سیڑھیاں بنائی گئی ہیں۔ 

عمارت کا بالائی منزل چاروں طرف سے کھلا ہوا اور ہوا دار ہے۔ بالائی منزل کی بالکونی میں بیٹھکر مشرق سے ساحل سمندر کا خوبصورت نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ عمارت کے بالائی منزل سے تین اطراف سے پورا گوادر شہر دکھائی دیتا ہے۔ جنوب میں کوہ باتیل کی چھوٹی اور گوادر پورٹ نظر آتے ہے۔ شمال میں کوہ مہدی کا مختصر پہاڑی سلسلہ بھی نظر آتا ہے۔ 

گوادر اور مکران کے حوالے سے مستند اور تاریخی مراسلوں کا مطالعہ اور اُن کو انگریزی سے اُردو میں ترجمعہ کرنے والے ڈاکٹر شبیر رند کا کہنا ہے کہ "اِس عمارت کی موجودگی 1935ء سے ریکارڈ پر موجود ہے۔ تاریخی دستاویزات کے مطابق اِس عمارت کو پولیٹیکل بنگلہ کا نام دیا گیا تھا۔ اُس وقت بنگلہ کی تعمیر کا تخمینہ لاگت 17،375  ہندوستانی روپے لگایا گیا تھا"۔ 

"آر سی ڈی کونسل گوادر کے صدر اور گوادر کے ثقافتی ورثہ پر گہری نظر رکھنے والے ناصر رحیم سہرابی کا کہنا ہے کہ "چارپادگو" کی عمارت انگریز دور کی نشانی ہے. وہ کہتے ہیں کہ اِس عمارت کا شمار بھی گوادر شہر کے تاریخی ورثہ کے عامل عمارتوں میں ہوتا ہے۔

یہ عمارت گوادر میں وقتاً فوقتاً آنے والے برٹش نیوی کے اہلکاروں کی قیام گاہ بھی رہی ہے۔ گوادر میں ٹیلگراف امُور کی انجام دہی یا ٹیلگراف لائن کے مرمتی کام سے وابستہ اہلکار اور انجینئر بھی اِس عمارت کو اپنی رہائش کے لئے استعمال کرتے تھے۔ جب کہ یہ عمارت یہاں پر تعینات برٹس ایڈمنسٹریٹر مسٹر وین کی رہائش گاہ بھی رہی ہے"۔ 

اِس عمارت کے شمال میں کچھ فرلانگ کے فاصلے پر بلوچ وارڈ گوادر میں ایک کلیسائی قبرستان کے بھی آثار موجود ہیں جِس کے متعلق خیال کیا جاتا یے کہ اِس قبرستان میں اُن برٹش اہلکاروں یا کارندوں کی قبریں موجود تھیں جو اِسی عمارت میں قیام پذیر تھے جنکی موت واقع ہونے کے بعد اُن کی تدفین اِسی قبرستان میں کی گئی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب اِس قبرستان کی قبریں مٹ چکی ہیں۔ تاہم بلوچ وارڈ میں ابھی بھی سلیب کی نشان کا ایک پِلر موجود ہے جسے کلیسائی قبرستان کی نشانی کہا جاتا ہے۔ 

ناصر رحیم سہرابی مزید کہتے ہیں کہ "اِس عمارت کی تاریخی اہمیت اِس حوالے سے بھی اہم ہے کہ جب پاکستان کا گوادر کے ساتھ الحاق ہوا تھا تو گوادر کا انتظام پاکستان کو دینے کے لئے اومان کے والی اور برٹش ایڈمنسٹریٹر مسٹر وین نے اِس عمارت میں پاکستانی نمائندے کے ساتھ گفت و شنید کی اور گوادر حوالگی کی سیرومنی بھی اِسی عمارت کے اندر منعقد کی گئی تھی جب کہ گوادر کے شہریوں نے پاکستانی نمائندے کو ٹیلیگراف آفس کے ٹینس کورس پر خُوش آمدید کہا تھا جو اِس عمارت سے جنوب کی طرف موجودہ ڈاک گھر کے ساتھ واقع ہے"۔ 

واضح رہے کہ یہ عمارت نہ صرف تاریخی اہمیت کا حامل ہے  بلکہ یہ اپنے منفرد طرز و تعمیر اور سی ویو پوائنٹ پر واقع ہونے کی وجہ سے بھی دلچسپی کا محور ہے۔ ایک عرصہ میں یہ عمارت اسسٹنٹ کمشنر کی رہائش گاہ بھی رہی تھی جو "ناظم بنگلہ" کے نام سے مشہور تھا اور بعد میں اِسے دیگر سرکاری ضرورت کے لئے بھی استعمال میں لایا گیا تھا لیکن مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اب یہ عمارت شکستہ حال ہے لیکن بالائی منزل کے دو کمرے اب بھی محکمہ مال کے افسران اور اہلکاروں کے دفتر کے لئے استعمال ہورہا ہے۔  

لیکن حال ہی میں ادارہ ترقیات (جی ڈی اے) گوادر نے گوادر کے تاریخی اور ثقافتی ورثہ کے حامل عمارتوں کو محفوظ بنانے کے لئے اُن کی بحالی، تعمیر نو اور تزئین و آرائش کا منصوبہ شروع کیا ہے جس میں اِس عمارت کی بحالی کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ جی ڈی اے حکام کے مطابق اِس عمارت کی بحالی کا کام عنقریب شروع کیا جائے گا۔  

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں