بلوچی افسانہ: اُوشتاتگیں موسم

 

تحریر: یونس حسین  

مترجم: عبدالحلیم حیاتان    

آج میں پھر پیاسا ہوں۔ میرے بال بکھر ہوئے ہیں اور میرے ہونٹ خشک۔ اِس تپتی ہوئی ریت پر جب میں پیچھے مُڑکر دیکھتا ہوں تو صرف میرے پاؤں کے نشان موجود ہیں۔ آب و سراب نے مجھے پھسلا کر کھلے میدان میں چھوڑ دیا تھا۔ پھر جب رات ہوتی تو جن کے چراغ مجھے پھسلاتے رہے اور ایک ایسی سمت کی طرف لے آئے کہ میں اُس طرف جب بھی جانے کی کوشش کرتا تو جا نہیں سکتا۔ جب میں نے اونچے کیکر کی درخت کو دیکھا تو میں حیران رہ گیا کہ میں کہاں آکر پہنچا ہوں۔ میرے پیر مجھے آگے جانے نہیں دے رہے تھے۔ یہ وہی کیکر کا درخت ہے جس کے گھنے سایہ کے نیچے میں نے اپنا کمزور سایہ چھپانے کے بعد اُن آنکھوں کی تلاش میں نکلا تھا کہ جن آنکھوں میں، میں نے قطرہ قطرہ جگہ بنائی تھی۔ مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے کہ جس گلی میں اس کا رستہ تھا میں نے وہاں اپنی پلکیں بچھائے تھے اور پھر اُس کی آنکھوں میں جھانکنا اور ان کو دیکھنا جیسے میرے خوابوں کا ضامن بن گیا تھا۔ میں اُس کے آنکھوں کے سمندر میں اتر گیا لیکن میرا حلق پیاس سے خشک ہوگیا تھا۔ میں تسکین کا متلاشی تھا لیکن آج میں دیکھ رہا تھا کہ یہ اونچے کیکر کا درخت میری طرح پیاس نے خشک شاخوں سے جھکڑ لیا ہے۔ 

میں خراماں خراماں کیکر کے نیچے آکر کھڑا ہوگیا۔ میں نے دیکھا کہ میرا سایہ میرے قدموں پر پڑا ہے اور وہ کہہ رہا تھا "میرے سر کا سوگند کھائیں کہ پھر مجھے نہیں چھپاؤگے اور خود کو تنہاء نہیں کروگے"۔ وہ مجھ پر ترس کھا رہا تھا۔ اُس نے اُس دن بھی مجھ سے کہا تھا کہ تم نے ڈر کی چادر اوڑھ رکھی ہے تم اِس رستے پر مت جاؤ، ہوسکتا ہے تم سے یہ نہ ہوسکے۔ لیکن میں نے اُس کی بات نہیں مانی۔ میں نے اپنے ہاتھ جوڈ کر اُس سے کہا کہ اِس مرتبہ مجھے معاف کردو آئندہ اِس طرح نہیں کرونگا۔ اُس نے مسکراتے ہوئے اپنا رستہ لیا۔ میں اُس کے پیچھے پیچھے جارہا تھا۔ کبھی میں آگے نکل جاتا تو کبھی وہ۔ وہ کوئی چیز دیکھتا تو مجھے بتا دیتا۔ میں بھی کوئی چیز دیکھتا تو اُس کو بتا دیتا۔ کبھی کبھی مجھے گمان ہوتا ہے کہ میں پاگل ہوں کہ اپنے ہی سائے سے باتیں کررہا ہوں۔ لیکن پھر کہتا ہوں نہیں۔۔۔۔

میں اور میرا سایہ اب ایسے دوست بن گئے تھے کہ اب ہم ایک دوسرے کے بناء نہیں رہ سکتے۔ اب ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ کوئی بھی اپنے آپ کو تنہاء نہیں کرے گا۔ اب میں جب بھی بازار گھومتا ہوں تو ایک چراغ میرے  کندھے پر ہوتا ہے۔ پہلے مجھ سے لوگوں نے بہت پوچھ تاچھ کی لیکن بعد میں، میں محمد چراغی کے نام سے مشہور ہو گیا۔ ایک دن میرا سایہ مجھ سے کہنے لگا "تم نے میری خاطر اپنے آپ کو چراغی کے نام سے کیوں بدنام کیا ہے"۔ 
میں نے اُس کے سر پر پنچ لگانے کا انداز اپناتے ہوئے کہا "اڑے بے عقل! میں اگر ایک لمحہ تم کو نہ دیکھ پاؤں مجھے ڈر لگنے لگتا ہے۔ مجھے اپنے آپ کی فکر ہے۔ میں تمھاری کانوں کو دیکھنے کا یارا نہیں رکھتا۔ پھر وہ پرانی باتیں دہرانے لگا اور کہنے لگا کہ "مجھے پتہ ہے کہ تم کس کی صورت پر فدا ہو، شاید اُس کو بھی تمھارا خیال ہوتا۔ کاش اُس کو بھی پتہ ہوتا کہ تم نے اپنے آپ کو اُس کے لئے بے خواب کیا ہے"۔ 
مجھ پر اِس بات کا خوف طاری ہوا کہ  کہیں کوئی ہماری باتیں نہ سنے۔ کیا تم بنا گفتگو کے نہیں رہ سکتے؟

پھر ڈر گئے۔۔۔۔ کل بھی ڈرے ہوئے تھے اور آج بھی ڈر رہے ہو۔۔۔۔۔ تم۔۔۔۔۔ اسی طرح کل بھی ڈر جاؤگے؟۔
"کیا میں اِس بات پر خوش ہوں کہ میں۔۔۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ڈر میری وجود کا کیسے حصہ بن گیا ہے،،،
"تم کو یاد دلاؤں کیا؟،،
میں خاموشی سے اُس کے منہ کو تھک رہا تھا۔ 
"جب تم کم سن تھے تو کسی نے کہا کہ آگ کو ہاتھ مت لگائیں جل جاؤگے۔ درخت پر مت چڑو گِر جاؤگے۔ پھر کیکر کی درخت کے نیچے مت جائیں وہاں جن کا بسیرا ہے۔ سمندر میں مت نہائیں ڈوب کر مرجاؤگے۔ جہنم کی آگ جسم کی گوشت کو پگھلا دے گی۔ پھر اپنے ننگ و ناموس کا ڈر"۔ 
"میں نے اوروں کے ننگ و ناموس کا بھی پاس رکھا ہے اس بات کو بھی دہرائیں"۔ 
لیکن وہ بھی اپنی بدنامی کے ڈر سے"۔
"اپنی بدنامی کے لئے بھی ڈرتا ہوں"۔ 
"ہاں۔ اپنی بدنامی کے ڈر سے کہ کہیں لوگ مجھے بُرا بَلا نہ کہیں۔ لیکن آج چار سال کا عرصہ بیت چکا یے لیکن تم نے یہ کہنے کی جسارت تک نہیں کی کہ میں تمھارے بغیر اب تنہائی کا شکار ہوں۔ میں تمھارے بغیر نا مکمل ہوں۔ جاؤ جاکر اُسے کہے دو۔ اِس بات کی پرواہ مت کرو کہ دنیا تم کو بُرا کہے گی لیکن میں تم کو اپنا مانتا ہوں"۔  

"تم خود کہو اُس سے بات ہوسکتی ہے۔۔۔۔ لوگ کہتے ہیں وہ کتیئے کی طرح کاٹنے پر دوڑ پڑتی ہے"۔ 
"لوگ کہتے ہیں وہ کتیا ہے، تم اِس بات پر ڈرتے ہو؟۔۔۔۔
کتا وفاداری کے لئے بھی مشہور ہے اِس بات کو بھی مت بھولنا"۔ 
"وفا اور میرا کتا۔۔۔۔۔ اُس کو اپنی پیاری سہیلی کا مان نہیں تھا کیا میرے لئے ہوسکتا ہے؟"
"عیب تلاش کرنے والے دوستی کا نام مت لیں۔"
"اُس کے شوہر کا بھی یہی ماننا ہے کہ وہ کتیا ہے، بات نہیں سنتی ہے"۔ 
"اس کا شوہر اسے بات چاہتا تھا اِس لئے اس نے اُسے طلاق دے دی"۔ 
"تم مجھے کیا سمجھانا چاہتے ہو؟"
"میں کہتا ہوں ہمت کرو اور آگے بڑھو۔ وہ محبت سے محروم ہوکر چھڑ چھڑا پن کا شکار ہوگئی ہے، وہ کتیا نہیں ہے"۔ 
"اگر وہ میری بات سنے تو پھر آپ دل میں۔۔۔۔؟"
"میں کیوں دل میں لاؤنگا"۔ 
نہیں۔۔۔ نہیں میں تم کو تنہاء نہیں چھوڑ سکتا۔ لوگوں کے ہجوم میں بھی میں تمھارے بغیر ڈرتا ہوں"۔ 
"میری باتیں مانو آج مت ڈرو۔۔۔ اُس طرف دیکھو وہ رہی ماہ جان کی پیاری سہیلی۔ جاؤ اُس سے جاکر کہو میں ماہ جان کے بارے میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں"۔ 
ارے ہماری پٹائی مت کرائیں"۔ 
"آج مت ڈریں، میں تمھارے ساتھ ہوں"۔ 
"اگر وہ بُرا منائے اور شُور کرے تو پھر؟"
"وہ ایسا نہیں کرے گی۔ تم اُس کو بُرا نہیں کہہ رہے ہو۔ ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھ رہے ہو جو اُسے اپنی ذات سے بھی زیادہ عزیز ہے"۔ 
اِس لمحہ پر میں اپنے سایہ کی باتوں میں آگیا اور پھر میں اُس کے سامنے کھڑا ہوگیا"۔ 
"کیا میں ماہ جان کے بارے میں کچھ کہہ سکتا ہوں۔"
وہ میری آنکھوں میں جھانک رہی تھی مجھے گمان ہوا کہ ایک لمبے عرصے کے بعد اُسے ماہ جان کی یاد دلائی گئی تھی۔ وہ میری آنکھوں میں ماہ جان کا عکس دیکھ رہی تھی اور مسکراہٹ اُس کے ہونٹوں پر بکھرنے لگی۔
"آج نہیں کل رات۔۔۔۔ میری کھڑکی پہ آجاؤ۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔۔"

پھر وہ اپنا رستہ لے کر روانہ ہونے لگی۔ 
سایہ کے ہونٹ ہلنے لگ رہے تھے، اب اگر تم سوگند توڑ بھی دو میں دل میں نہیں لاؤنگا۔ اگر مجھے چھپاؤ بھی میں اُف تک نہیں کرونگا"۔ 
"تم خود مجھے تھپکی دے رہو اور پھر کہتے ہو میں دل میں نہیں لاؤنگا۔ میرا کوئی ہمسفر نہیں کہ میں تم کو مجبور کروں، اگر ماہ جان کا ساتھ مجھے نصیب ہو شاید میرا ڈر رفع ہوجائے اور شاید میں تم کو بھی بھلا دوں تو مجھے معاف کردو"۔  
"اگر اِس طرح ہوا بھی تو میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھونگا۔ بس تمھارا ڈر نکل جائے۔ چراغ تمھارے کندھوں پر سے اتر جائے لیکن دن کے اجالے میں مجھے اپنے ساتھ لیکر جاؤگے۔ کروگے نا؟"۔ 
پھر میں کیا دیکھتا ہوں اُس کی آنکھیں نم ہیں۔ اب میں سوچ میں پڑ گیا تھا کی اگر میں ماہ جان کی سہیلی سے ملوں تو اُس سے کیا کہوں؟۔ اب ہم دونوں ایک جیسے ہیں۔ ہم دونوں ماہ جان کی وجود کی خوشبو سے محروم ہیں۔ ہم دونوں اُس کی دوستی کے طلب گار ہیں۔ ہماری رائیں جُدا جُدا ہیں لیکن ہماری منزل ایک ہے۔ یہ اُس منزل کی چمکتے کل کی روشنی کا نتیجہ ہے کہ وہ اُس کے گھر کی چورنگی پر میری آنکھوں میں دیکھ رہی تھی اور میری باتوں کا بُرا نہیں مان رہی تھی۔  
"تم آگے ہوجاؤ؟"
"نہیں! تم آگے ہوجاؤ"۔ 
"چراغ تمھارے پاس ہے پہلے تم آگے ہوجاؤ"۔ 
"تم جانتی ہو مجھے ڈر لگتا ہے"۔
"ابھی تک رات کا پہلا پہر ہے لوگ جھاگ رہے ہیں اور تم کو ڈر لگ رہا ہے؟"
"رات کے پہلے پہر کا ڈر ایک اور ڈر ہوتا ہے"۔
"پھر کچھ مت کہو"۔
اُس نے اپنی انگلی اپنے ہونٹوں پر رکھ دی۔ پھر خاموشی چھا جانے لگی۔ کچھ لمحہ بعد ایک سرگوشی سر اٹھانے لگی۔ 
"اُس کا گھر؟"
" یہی ہے، کھڑکی کھلی ہوئی ہے؟"
"ہاں۔ اب میں چراگ بجھا دیتا ہوں"۔
وہ دوڑتی ہوئی کھڑکی پر لٹک گئی اور روشنی کا پیمانہ ناپنے لگی۔ میں نے چراغ بُجھاکر پتھروں کے پاس رکھ دیا پھر کھڑکی کے سامنے کھڑا ہوگیا اور سایہ کے کانوں کو دیکھنے لگا۔ ڈر میری آنکھوں کے سامنے ناچ رہی تھی۔ رات کی خاموشی میں صرف میری سانسوں کی آواز ابھر رہی تھیں۔ کچھ لمحہ بعد کوئی اپنے بیٹے کو سہلا رہی تھی۔ میں نے اپنے آپ کو روشنی سے پھرے کردیا پھر تمھاری طرف سے آواز اٹھی:

"مت جائیں تھوڑا ٹہریں، میں آرہی ہوں۔ میں سمجھ  گیا یہ ماہ جان کی سہیلی کی آواز ہے۔ پھر دروازہ کھلا اور اُس نے اپنا سر باہر نکالا اور نحیف آواز سے کہنے لگی آجاؤ، ڈرو مت"۔ اُس کی نحیف آواز تھی کہ میں نے اپنے سایہ کو سہلایا پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھر کے اندر لے گیا۔ گھر کے اندر میرا سایہ میرے سامنے کی طرف لیٹا ہوا تھا اور گویا نیند کی تیاری کررہا تھا۔  
وہ باتیں کرنے لگی،، یاسمین کے ابٌا یہاں پر نہیں ہیں۔ سال ہوا ہے کہ وہ نہیں لوٹا ہے لیکن اب لوٹنے والا ہے۔ وہ میری ماں ہے جو سو رہی ہے"۔ 
"اگر تمھاری ماں نے مجھے یہاں دیکھ لیا تم کو پتہ ہے کیا ہوگا؟۔ 
"تمھارا ارادہ کیا ہے؟۔ وہ مجھ پر غصہ ہونے لگی۔
"اگر تم کو ماہ جان کے متعلق باتیں کرنا یے پھر میری ماں اِس کے لئے مجھے کیا کہے گی؟۔ 
میں اپنا سوال پوچھنے پر پشیماں ہوا۔ وہ مسکرانے لگی۔ 
"تمھارے چراغ کو نہیں دیکھ رہی ہوں؟۔ 
"میں نے چراغ باہر رکھ دیا ہے"۔ 
"شاید روشن نہیں ہے اِس لئے میں نہیں دیکھ پائی" 
"واپسی پر روشن کرونگا"۔
"وہ سمجھ گئی تھی کہ میں ڈر رہا ہوں"۔
"دل بڑا کریں میں اور تم کوئی گناہ کا کام نہیں کررہے ہیں"۔ اُس نے مجھے چارپائی پر بٹھایا اور پھر ایک گلاس کا شربت میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ میں خاموشی میں دو ہلکی گھونٹ میں اِسے پی گیا۔ ماہ جان نے تم کو بھیجا ہے؟۔ میں چھونک گیا۔  
"نہیں۔۔۔۔ وہ مجھے کیوں بیجھے گا؟۔ 
"لوگ کہتے ہیں کہ ماہ جان کے علاوہ تم کو اور کوئی زیادہ نہیں جانتا۔ کیا یہ سچ ہے؟۔
"اگر مجھ میں اِس طرح کی اچھائی ہوتی تو کیا اچھا ہوتا۔
"لوگ کہتے ہیں تم دو بہنوں کی طرح سہیلیاں تھیں پھر بعد میں ۔۔۔۔۔"
"میں اب تک بھی اُسے اپنا بہن مانتی ہوں۔ لیکن وہ نادان ہے اور لوگ کہتے ہیں وہ کتیا ہے"۔ 
"وہ خود لوگوں کی باتوں میں آگئی اور آج یہی لوگ اُسے کتیا کہتے ہیں"۔ 
پھر ہم دونوں خاموش ہوگئے۔ کچھ لمحوں کے بعد وہ پھر سے باتیں کرنے لگی۔ "اُس وقت جب اس نے شادی نہیں کی تھی وہ تم پر پاگل تھی"۔ 
جب میں نے اپنے بارے میں سُنا تو میں اپنے سایہ کی طرف دیکھنے لگا۔ میرا منہ خوشی کے مارے بند نہیں ہونے پا رہا تھا۔ 
"جب بھی ہم بازار آئے تھے تم کو وہاں دیکھا تھا۔ اگر وہ ایک پل بھی تم کو نہیں دیکھتی تو میرے بھی نیند خراب ہوجاتی۔ پھر جب شادی ہوگئی تو دوسرے مہینے میں ہی مجھ سے اُلجھ گئی۔ میں نہیں چاہتا تھی کہ اُس کی زندگی خراب ہو۔ میں نے اپنے آپ کو ایک طرف کردیا پھر اُس نے طلاق لے لی۔۔۔۔ 

وہ میرا ہمسایہ ہے لیکن جب کبھی بھی اُسے دیکھتی ہوں تو وہ مجھ سے نظریں نہیں ملا پاتی۔ وہ میرے بناء نہیں رہ سکتی لیکن آگے بڑھ پانے کی ہمت بھی نہیں کرسکتی۔ مجھے یہی گمان ہوتا ہے کہ وہ نظر نہ آنے والی زنجیروں سے جھکڑی ہوئی ہے۔ اُس نے جان بوجھکر اپنے آپ کو اس طرح بنایا ہے تاکہ لوگ اُس سے دور رہیں۔ ایک عید پر جب اُس نے میرے بچوں کو دیکھا تو اس نے اُن کو عیدی بھی دی۔ پھر وہ خیالوں کی دنیا سے واپس لوٹ کر پوچھنے لگی:
"اچھا یہ بتائیں کیا تم بھی اُس کو پسند کرتے ہو؟"
"اچھی لگتی ہے اِس لئے باتوں کا دفتر کھولا یے۔ لیکن تم کو بھی آفرین ہے کہ تم اُس کی جدائی کو برداشت کررہے ہو۔ مجھے دیکھو میں اُس کے ڈر کے برآمدے کے نیچے سورہا ہوں۔ میرا چراغ صرف وہ چھین سکتی ہے۔ مجھے ڈر سے خالی زندگی صرف وہی دے سکتی ہے"۔ 
"تم اُس سے شادی کروگے؟"۔ 
"میں اُس کے لئے کچھ بھی کرسکتا ہوں"۔
"اب مجھے آگے بڑھنا تھا تمھاری خاطر"۔ 
میں جانتا تھا کہ وہ میرا بَرم رکھنے کے لئے ایسا کہہ رہی ہے لیکن ماہ جان اُسے مجھ سے زیادہ عزیز ہے اور وہ ماہ جان کی تنہائی پر خوش نہیں تھی۔ پھر وہ میرے سایہ کی طرف دیکھنے لگی۔
"اب تم جاسکتے ہو۔ ایک یا دو دن بعد حال پرسی کریں"۔
اب مجھے ڈر سے ڈرنے لگ رہا تھا کیونکہ میں اپنا چراغ اسی محلے میں بھول آیا تھا۔ پھر دو روز تک میں نے اپنے سایہ کو بھی نہیں دیکھا۔ میں نے اپنے دل سے کہا کہ یہ دوسری مرتبہ ہے کہ میں اپنے سایہ کو چھپا رہا ہوں۔ وہی ایک ہی ہے جو ہمیشہ میرا خیال رکھتا ہے۔ 
وہ مجھے عزیز رکھتا ہے اور اُس کو بھی آفرین ہے۔ میں اپنے خیالوں کے جال بُن رہا تھا کہ دروازے کی طرف ایک آہٹ سنائی دی۔ میں نے اپنی دونوں آنکھیں بھیج دیئے کہ جاکر دیکھیں کون ہے۔ میرے سامنے میرا سایہ کھڑا تھا اور میرا چراغ بھی اس کے ہاتھوں میں تھا۔ اُس کے چہرہ پر ناامیدی کھیل رہی تھی۔ اُس کی آنکھیں خوف کی وجہ سے پتھرا گئی تھیں۔  
''میرا چراغ تم کیوں لیکر آئے ہو؟"۔ 
"تمھارا چراغ ماہ جان نے اٹھایا تھا۔ آج دوپہر کو دونوں سہیلیاں کا آمنا سامنا بھی ہواہے"۔ 
"ہاں بتاؤ کیا کہتی ہے؟"۔ 
"ماہ جان کہتی ہے اُس سے جاکر کہو میرا دامن تم کو خوف سے نہیں بچا سکتی۔ وہ کہتی ہے اُس کا وجود خود ڈر کے گھر میں مقید ہے۔ وہ کہہ رہی تھی کہ چراغ کی اُس نے آج صفائی کی ہے اور تیل بھی ڈالا ہے۔ تجھے یہ چراغ ڈر سے محفوظ رکھ سکتا ہے لیکن میں نے بذات خود تنہاء رہنا سیکھ لیا ہے۔ مجھے اپنے دوسرے وجود سے ڈر لگتی ہے۔ تمھاری قربت کیسے میرے باطن کی شکست و ریخت کو روک سکتی ہے۔ وہ کہتی ہے تمھاری ہمیشہ میری آنکھوں میں جگہ بنی رہے گی۔ تمھارے لئے اِس دل میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ جب تک میں زندہ ہوں تم کو چاہتی رہونگی"۔ 
پھر سایہ نے ایک برتن میری طرف بڑھایا اور کہنے لگا" اِس میں مٹی ہے۔ وہ کہہ رہی تھی اِس مٹی کو پہچان"۔ 

میں مٹی کو سونگھنے لگا تب مجھے گمان ہوا کہ ماہ جان میری وجود میں اتر گئی ہے۔ پھر میں اپنے کمزور سایہ کے پیر ڈھونڈنے لگا۔ 

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں