بلوچ لائبریری
بلوچی: وہاب مجید
مترجم: عبدالحلیم حیاتان
1980 کی دہائی میںں جب ہم ماڈل اسکول میں مڈل کے طالب علم تھے تو اُس وقت ہم نے بی ایس او کی تازہ تازہ ممبرشپ حاصل کیا ہوا تھا۔ اُس زمانہ میں گوادر میں کالج اور یونیورسٹی موجود نہیں تھے اِس لئے لڑکوں کا سب سے بڑا تعلیمی ادارہ ماڈل اسکول ہوا کرتا تھا جہاں میٹرک تک تعلیم دی جاتی تھی۔ آگے پھر جدید اسکول کو ہائی کا درجہ دیا گیا۔ بی ایس او میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد نئے ممبروں کو تاکید کی جاتی تھی کہ وہ صبح اسکول میں پڑھنے کے بعد شام کو بلوچ لائبریری بھی آیا کریں۔ بلوچ لائبریری 1980 میں بلوچ وارڈ میں ایئرپورٹ روڑ موجودہ سید ظہورشاہ ہاشمی ایونیو پر قائم کیا گیا تھا۔ جو آج میزان بنک کے بالمقابل امام بخش کی الیکٹرک کی دکان ہے۔
جب میں پہلی مرتبہ بلوچ لائیبریری میں داخل ہوا تو میں نے وہاں درمیان میں ایک بڑی گول میز دیکھی جس کے اطراف کرسیاں لگائی گئی تھیں۔ بی ایس او کے ممبران اور دو بڑی عمر کے افراد اِن کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے جو خاموشی سے کتابوں اور اخبار کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھے۔ اِسی بڑی گول میز سے پَرے ایک اور چھوٹی ٹیبل اور کرسی بھی لگی ہوئی تھی جو لائیبرین کی تھی۔ لائبریری میں کتابوں کی الماریاں بھی موجود تھے جن کے سامنے کچھ لوگ کھڑے ہوکر کتابوں کے اوراق ٹٹول رہے تھے۔ اگر کسی کو کوئی کتاب پسند آتی تو وہ کتاب کا لائیبرین کے پاس اندراج کراکے گھر لے جاتا اور 15 دن پڑھنے کے بعد وہ یہ کتاب واپس لوٹا دیتا۔
بلوچ لائبریری کے پاس بلوچ ہوٹل بھی واقع تھا جب بھی دوست پڑھنے کے بعد تھکن محسوس کرتے تو اِسی ہوٹل میں چائے پینے چلے جاتے۔ لائبریری کے عقب میں ایک چھوٹا کمرہ بھی موجود تھا جہاں کبھی کبھار کابینہ اور سینئر دوست اِجلاس منعقد کرتے تھے اور یہاں سرکل اسٹڈی کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ اُس زمانہ میں جو دوست سرکل اسٹڈی دیا کرتے تھے شاید کے اُن کے پاس سیاسی آئیڈیالوجی، مارکسی فلسفہ، جدلیاتی اور تاریخی مادیت سمیت قومی سوال کے بارے زیادہ آگاہی یا Conceptual Understanding موجود نہیں تھی۔ لیکن یہ بھی غنیمت تھی کہ اُن سرکل اسٹڈی کی بدولت بی ایس او کے ممبروں کے درمیان ڈیبیٹ، کریٹیکل تینکھنگ اور مکالمہ کا ماحول ڈیولپ ہوگیا تھا۔
صبح اسکول اور شام کو لائبریری جانا میرا معمول بن گیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ پہلی مرتبہ میں نے بلوچ لائیبریری میں سبطِ حسن کی موسٰی سے مارکس تک، نویدِ فکر، فرانز فینن کی اُفتادگانِ خاک، رسول حمزہ توف کا میرا داغستان اور مارکسی فلسفہ کی موٹی موٹی کتابیں دیکھی۔ میں نے اِن کتابوں کو پڑھنے کی کوشش کی لیکن اُس زمانہ میں اِن کتابوں کے زیادہ تر آئیڈیاز میرے لئے الجھاؤ کا سبب بنے اور میں بہت سے چیزوں کو سمجھنے سے قاصر بھی رہا۔
اُس زمانہ میں بی ایس او سوویت یونین کی لیفٹ کی سیاست سے متاثر تھا اِس لئے بلوچ لائبریری میں ترقی پسند، لیفٹ اور مارکسی فکر سے وابستہ لکھاریوں اور شاعروں کی کتابیں دستیاب ہوتے تھے جیسا کہ کارل مارکس، لینن کی لکھی گئی کتابوں کے اردو تراجم، سبط حسن، ڈاکٹر مبارک علی، منٹو، فیض، فراز اور اِسی طرح کے بہت سے ادیب اور شعراء کی کتابوں کو پڑھنے کے لئے بی ایس او کے ممبران کوشش کرتے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ بھی میری طرح کتابوں کی اہمیت اور اِس میں موجود خیالات سے کماحقہ طورپر آگاہ نہیں تھے لیکن اُس زمانہ میں سرخوں اور ترقی پسند ادیبوں کی کتابوں کو ہاتھ میں پکڑ کے رکھنا ایک فیشن بھی بن گیا تھا۔
جنرل ضیاء کی موت کے بعد 1988 میں ملک میں انتخابات ہوتے ہیں۔ بی ایس او کے سینئر دوست انتخابات میں حصہ لیتے ہیں اور وہ مکران میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ اِس دوران بی ایس او ایک مرتبہ پھر تقسیم کا شکار ہوجاتا ہے۔ سینٹر دوست بی این وائی ایم اور پی وائی ایم کا قیام عمل میں لاتے ہیں۔ ووٹ کی سیاست نے بی ایس او کو شکست و ریخت کا شکار بنایا اور لائبریری کلچر بھی معدوم پڑنا شروع ہوگیا۔ اب سیاسی رہنماؤں اور ورکر کو سیاسی اور نظریاتی بننے اور کتاب پڑھنے کی ضرورت نہیں رہی تھی کیونکہ اُنہوں نے پی ایس ڈی پی کی کتاب پڑی ہوئی تھی۔ ویسے پی ایس ڈی پی کا اَزبَر ہونا اچھی بات ہے لیکن پی ایس ڈی پی کو وہ سیاسی رھبر اور پارلیمنٹیرین ہی بنا سکتے ہیں جن کو "پولیٹیکل اِکانومی" کی سمجھ ہو۔ وہ آج کے عہد کے سیاسی اور مالی تھیوری اور اِس کے پریکٹس سے آگاہ ہوں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ موجودہ صوبائی پی ایس ڈی پی اور کم وسائل سے بلوچستان کے تعلیم، صحت عامہ اور روزگار کے مسائل سے نمٹنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
لیکن وہ پارلیمنٹیرین یا سیاسی رھبر کہ جن کے پاس سیاسی اور مالی وژن موجود ہوتی ہے۔ اُسے تعلیم اور کتابوں سے دوستی ہے تو وہ اسی پی ایس ڈی پی میں بھی ہرسال ایک یا دو بڑے تعلیمی ادارے یا یونیورسٹی اور صحت کے ادارے کے قیام کا منصوبہ اِس کا حصہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ بلوچ کا مستقبل بچ جائے کیونکہ قوموں کو ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ کے ادارے ہی ترقی یافتہ بناتے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے پارلیمنٹیرین پی ایس ڈی پی کو صرف بلڈوزر گھنٹہ اور دو کمروں والے پرائمری اسکول سمجھتے ہیں جو ٹھیکہ اور کمیشن خوری کے بعد چار یا پانچ سال بعد بارشوں کی نذر ہوجاتا ہے۔
آج بلوچستان کے قوم دوست سیاسی جماعتیں لنک روڈ اور بلڈوزر گھنٹہ کی سیاست کے علاوہ اور کیا کررہے ہیں؟۔ ہمارے سیاسی رھبر "شعوری سیاست" کے بارے میں بہت سی باتیں کرتے ہیں مجھے کوئی یہ سمجھائے کہ بلوچستان بھر کے اضلاع میں سے وہ کونسا ضلع یا علاقہ ہے جہاں قوم دوست سیاسی جماعتیں اور اُن کے طلباء تنظیموں نے اپنے سیاسی جماعت کے دفتر کے علاوہ ایک لائبریری بھی قائم کی ہے؟۔ شام کو اُن کے سیاسی ورکر وہاں جاکر کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں؟۔نئے دور کے مالی تھیوری پر ڈسکشن کرتے ہیں؟۔ میرے خیال میں جب تک آپ کا مرکزی لیڈر شپ نئے دور کے سیاسی، مالی اور سماجی آئیڈیاز کو نہ سمجھے اور وہ اکسویں صدی کے بڑے علاقوں میں جاکر نہ پڑھیں اور اگر وہ جماعت اسمبلی میں موجود ہو تو وہ اپنے عوام کے لئے صحت، تعلیم اور دیگر مضبوط اداروں کے قیام کی پالیسی نہیں بنا سکتا۔
گوادر میں 80 کی دہائی میں طالب علموں میں سیاسی شعور کی بیداری اور علم و آگہی میں اضافہ کے لئے جب میں بلوچ لائبریری کے کردار کا تجزیہ کرتا ہوں تب دیکھتا ہوں کہ بلوچ لائبریری نے اُس زمانہ میں طالب علموں کی ذہن سازی اور ان کو سیاسی اور نظریاتی پختگی کی طرف لیجانے میں اپنا کردار بخوبی ادا کیا تھا۔ طالب علموں کو یہ بھی موقع میسر تھا کہ وہ اپنے اسکول کی کتابوں کے علاوہ سوشل سائنس اور دوسرے موضوعات کی کتابوں کا بھی مطالعہ کرکے اپنے "ورلڈ ویو" کو وسیع بنائیں۔ بلوچ لائبریری کو یہ بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ اُس زمانہ میں اُس نے اسکول کے طالب علموں میں مطالعہ اور کتاب کلچر کو بھی ڈیولپ کیا تھا۔ دوسری طرف تحقیق سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ ہر معاشرے میں کتاب پڑھنے والے کم ہوتے ہیں۔ بلوچ سماج ویسے بھی اَزل سے کتاب اور قلم سے دور رہا ہے۔ اگر بلوچ لائبریری سو میں سے دس طالب علموں کو بُک ریڈنگ کلچر کی طرف لیجانے میں کامیاب ہوگیا تھا تو یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔
میرے خیال میں اُس زمانہ میں گوادر شہر کی آبادی پچاس ہزار سے زیادہ نہیں تھی لیکن اُس وقت دو اچھے لائبریری موجود تھے۔ بلوچ لائبریری اور آرسی ڈی سی گوادر کلب کی لائبریری۔ دونوں لائبریریوں میں شام کے اوقات رش دکھائی دیتا تھا۔ آج جب کہ گوادر شہر کی پروجیکڈڈ آبادی تقریبا ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے اور اس شہر میں دو سے تین پبلک لائیبریریاں موجود ہیں جس میں جیوز، آرسی سی ڈی سی اور ظہورشاہ ہاشمی ڈیجیٹل لائبریری شامل ہیں جہاں کتابوں کا مطالعہ کرنے والے انگلیوں میں گھنے جاتے ہیں۔ یہ دھیرے دھیرے کتاب پڑھنے کے کلچر کے ختم ہونے کی نشانی ہے۔
اِس کی اہم اور بڑی وجہ آج کے دور کی موبائل انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ہے جس نے نہ صرف بلوچ سماج بلکہ پوری دنیا کو متاثر کیا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو یہ ادراک رکھنا ہوگا کہ قومی ترقی اور سماجی تبدیلی کے لئے پہلی شرط نوجوانوں اور عام آدمی کی فکری تبدیلی کا ہوتا ہے۔ جب تک آپ اپنے سماج کے سیاسی، معاشرتی اور مالی مسائل کی بابت فکری طورپر آگاہی نہیں رکھتے ہونگے کہ اِن مسائل کے بنیادی اَسباب کیا ہیں، اور آپ ان کو حل نہیں کرسکتے تب تک آپ ایک بہتر سیاسی، سماجی اور انفرادی فیصلہ بھی نہیں کرسکتے۔ تب آپ خودساختہ اور پاپولسٹ رہنماؤں کے ہاتھوں کا کھلونا بن جائینگے۔ اس لئے مادی اور سماجی تبدیلی سے قبل نوجوان اور عام آدمی اپنے آپ کو فکری، سیاسی اور نظریاتی طورپر ایجوکیٹ کریں تاکہ وہ درست فیصلہ کرنے کے اہل بن جائیں اور دھوکہ نہ کھائیں۔
۔
نئے فکر کی آبیاری اور فروغ زمانہ قدیم سے کتابیں ہی رہی ہیں اور آج کے فکری اور سماجی تبدیلی کا ذمہ بھی نئے دور کے لکھاریوں اور دانشوروں نے لیا ہے۔ اکیسویں صدی میں تیزی سے بدلنے والے سیاسی اور سماجی حالات سے آگاہ ہونے اور بلوچ کے آنے والی نسل کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لئے لازم ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو ایک مرتبہ پھر کتاب سے دوستی بنائے رکھنے کی تلقین کریں۔ ضروری نہیں کہ وہ ہارڈ کاپی پڑھیں۔ وہ اپنے موبائل پر کتابوں کا پی ڈی ایف ورژن بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اپنے ٹیب اور لیپ ٹاپ پر بھی کتابیں پڑھ سکتے ہیں۔
گوگل اور یوٹیوب کو بھی کتابیں پڑھنے اور اپنے علم میں اضافہ کرنے کے مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ TEDx کی دنیا اور دنیا کے دیگر مشہور یونیورسٹیوں کے پروفیسرز کے لکچرز کو بھی سن سکتے ہیں۔ بقول پروفیسر ہرارے "اکسویں صدی میں وہی قومیں اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہیں جو انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا علم حاصل کرتے ہیں اور اس ٹیکنالوجی کے تہیں وہ اپنے علم اور ہنر میں اضافہ اور اسے قومی ترقی کے لئے استعمال کرتے ہیں"۔
Comments
Post a Comment