سید نمدی

 


مترجم: عبدالحلیم حیاتان 

بحرین 

سینوٹوریم 

9 جون 1962ء 

!واجہ مپتاھی سلامت رہیں

آج جب ڈاکٹر مریضوں سے پوچھنے آیا تھا تو میں نے اُس کے جیب میں ایک لفافہ دیکھا۔ نہیں پتہ کہ میرے دل نے کہا کہ ہوسکتا ہے یہ لفافہ میرے نام کا ہے لیکن میں اُن سے دریافت نہیں کرسکا اور اِس طرح کرنا مناسب نہیں کیونکہ اِس کے معنی یہ نہیں کہ جو بھی خط یا لفافہ ڈاکٹر کی جیب میں ہو "میرا" ہی ہے۔ لیکن کچھ توقف کے بعد ایک کام کرنے والا یہی لفافہ لیکر آیا اور مجھے سونپ دیا۔ لفافہ کے پیچھے ارسال کرنے والا کا نام دیکھنے پر یہ میرے نزدیک حیرانگی کی بات تھی کیونکہ پتہ نہیں کتنے سال ہوئے ہیں کہ اِس ناتواں زندگی کے لئے ایسے زندہ متحرم کے خط نہیں آئے تھے۔ 

لفافہ کھولا، سچی بات یہ ہے کہ ایک مرتبہ لفافے کو سیدھا کرکے ہلایا تاکہ اُس میں شامل خط خود کو ایک طرف روکے۔ پھر اِس کے کنارے باریکی سے پھاڑے۔ دیکھا کہ ہاں! تحریر آپ کی ہے۔ 

عید مبارک باد کارڈ ارسال کرنے کی ضرورت ایک خواب تھا جو کہ میں نے عید سے قبل دیکھا تھا اور اِس خواب کو دیکھنے کے بعد کوئی اور وجہ نہیں دیکھ پایا۔ اِس لئے دو چار عید مبارکباد کے کارڈ پرانے یادوں کے ساتھ آپ لوگوں کے لئے ارسال کیا۔

ترانگ ءُ تھتالاں ترھیناں ترکّ اِیت جگر

برتکگیں بیرانی بِرج ءُ بریجاں نرتکگ اَت

لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ عید کی خوشیوں کے کارڈ کا جواب 1382 ھ کے ابتدائی مہینے میں اُس دن مجھ تک پہنچا کہ تقریباً 1340 سال قبل ایسے ہی دن خدا تعالٰی کے بڑے پیغمبر کے نواسہ کی قتل کی تیاری ہورہی تھیں حالیہ دِنوں میں ایسا کوئی بھی نہیں کہ وہ آہ و فغاں میں نہ ہو۔ ھر حوالے سے میں آپ کے جواب کو مانتا ہوں۔ اِس بات کے ساتھ ساتھ آپ کی مصروفیت کو بھی مانتا ہوں۔ میں اِس بات پر کوئی سوال نہیں پوچھتا کہ یہ مصروفیت "امتحان" تھا یا کہ "حیدر آباد" کا۔ 

میں کہاں ہوں؟ مردہ کہاں ہوتا ہے؟ اگر مردہ ہے تو اُس کی جگہ قبر ہے پھر بیمار کی جگہ ھسپتال ہے۔ البتہ اِس بات کو ہر کوئی جانتا ہے کہ "زندہ" مردے کو نہیں پوچھتا اور اسی طرح "سب لوگ" بیمار کی اُس وقت حال پرسی کرتے ہیں کہ جب تک وہ خود بیمار نہ پڑجائیں۔ آپ کو کوئی پرواہ نہ ہو۔ 

مپتاھی! اِس بات پر گلہ کرنا میرے نزدیک بے معنی ہے لیکن پھر بھی ایک چھوٹا گلہ آپ سے کرتا ہوں اور جب تک زندہ ہوں یہ گلہ رہے گا لیکن اِس سے میں کسی بھی صورت دِل گیر اور مایوس نہیں رہونگا۔ پھر بھی میں یہ کہتا ہوں کہ

چمّن ءَ دل پروش ئے اگاں، دلپروش نہ باں

چو اگاں دل پرشتیں منی، سد بر پرشتگ اَت

جدائی اور دوری اختیار کرنے کے بعد بھی آپ نے ایک کام میرے لئے کیا ہے جس سے مجھے بے حد خوش ہوں کہ "سستگیں دستونک" کے وہ اشعار جو لکھنے والے نے غلط کیئے تھے آپ نے پھر اُس کی رہنمائی کی ہے۔ لیکن مپتاھی! اگر واجہ زھیر جیسے دیگر دس زبان دوست نکلیں ایسے سو نہیں بلکہ ھزار "سستگیں دستونک" شائع ہوسکتے تھے۔ زھیر کا خط جو اُس نے دوسال قبل میرے لئے لکھکر ارسال کیا تھا ابھی تک میرے شعری مجموعے میں لپٹا ہوا پڑا ہے۔ تھوڑا رکیں! میں ابھی ڈھونڈتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔

میری یادداشت نے مجھے دھوکہ نہیں دیا۔ یہ وہ خط ہے جو میں نے نکالا ہے۔ زھیر نے یہ خط 5۔7۔1960 کو لکھا تھا جو مجھے 9۔7۔1960 کو ملا ہے۔ ویسے زھیر کے ایک یا دو خط جو اور طرح سے تحریر کئے گئے تھے مجھے موصول ہوئے ہیں لیکن 5۔7۔1960 کا خط اُن سے الگ تھا شاید اُسے یاد نہ ہو لیکن یہ وہی خط ہے جو اُس نے "اردو" زبان میں آغاز کیا تھا کچھ چیزیں "بلوچستان جدید" جیسے روزنامہ کی طرح پے پرواہ باتیں شامل ہیں۔ "اردو" لکھنے کے بعد اپنے بلوچی کی طرف لوٹا ہے۔ کبھی دل کہتا ہے کہ زھیر کا یہ خط آپ کے نام ارسال کروں آپ اسے دیکھیں اور واپس ارسال کریں۔ لیکن پھر مجھ تک کبھی نہیں پہنچ سکے گا۔ مجھے آپ پر بھروسہ ہے لیکن بعض دفعہ لوگ اپنے دلی دوست سے لاچار بھی ہوتے ہیں۔ 

اِن باتوں کو چھوڑ دینا ہی بہتر ہے کہ ایک چھوٹی سی بات دور تک جاسکتی ہے کہ جس سے ناخوشگواری جنم لے سکتی ہے۔ 

ھاں! میں ابھی تک ھسپتال میں ہوں۔ ھاں! بیمار ہوں کہ ھسپتال میں ہوں۔ صحت مند شخص ھسپتال میں نہیں سوتا لیکن میں اِس بیماری کا مشکور ہوں کیونکہ اِس ھسپتال میں، میں نے بلوچی کے زبان کے لئے اپنے تہیں بہت کوشش کی ہے۔ "سستگیں دستونک" اسی ھسپتال میں مکمل ہوا ہے۔ اِس کے علاوہ اپنے تین شعری مجموعے بھی مکمل کرچکا ہوں جس میں ایک کا نام آپ جانتے ہیں کہ "انگرو ءُ ترونگل" ہے اور دیگر دو کے نام "برتکگیں بیر" اور "تراپکنیں ترمپ" ہیں۔ اِس کے علاوہ بلوچی کی رسم الخط کی ایک کتاب بھی مکمل کی ہے کہ جس کا نام "بلوچی سیاھگ ءِ راست نبیسگ" ہے۔ اور ایک "بلوچی بنگیجی" بالغان کے لئے بھی تیار ہے۔ اِن چھ کتب کے علاوہ کلام اللہ کا ایک حصہ (جزءعم) بھی بلوچی میں ترجمہ کیا ہے جو مکمل ہے۔ لیکن اِن میں سے سب سے بڑھ کر ایک بڑا کام "سید گنج" یعنی بلوچی لغت (ڈکشنری) کا ہے کہ مجھے گمان ہے کہ اِس کے مکمل ہونے تک میری سانسیں میرا ساتھ نہ دیں کیونکہ اِن دِنوں میں اپنے آپ کو زندوں میں شمار نہیں کرتا۔ اگر مجھے اپنے متحرم بھائی کی پروا نہیں ہوتی میں آج سے بہت پہلے اپنے نام کے ساتھ "مرحوم" کا لفظ تحریر کرتا۔ 

میرا سب سے بڑا غم یہی ہے کہ میری کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی ہے کیونکہ ایسا کام اگر زندگانی میں نہ ہوپائے تو موت کے بعد صیح سمت میں نہیں ہوسکتے اور بے ترتیب اشاعت سے اشاعت کا نہ ہونا بہتر ہے۔

میں نہیں جانتا کہ میں کیوں یہ باتیں کررہاہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اگر آپ کا دل چاہے بھی تو آپ میری مدد نہیں کرسکتے اور دیگر دوست و احباب کو بھی آزماء چکا ہوں۔ 

اِس خط کو زھیر بھی پڑھے کہ آج میں اُس کے لئے خط تحریر نہیں کررہا شاید کل یا پرسوں اُس کے سوال کا جواب دوں۔ ویسے میں نہیں جانتا کہ زھیر کے لئے کیا تحریر کروں کیونکہ آج کل اُس کی آگ کی تپش بہت تیز ہے نہیں جانتا وہ کیسے اعلٰی عہدے کی کرسی سے نیچے اترے گا اور دو باتیں طریقے سے کرے گا۔ کوئی بھی صورت ہو اِس خط کو اُن کو دکھائیں۔  

مپتاھی! اگر آپ جانتے ہیں کہ آپ کا خط یکم جولائی سے پہلے پہنچ سکتا ہے تو میرے لئے جواب ارسال کریں نہیں تو یکم جولائی کے بعد میں بحرین میں نہیں رہونگا۔ ایسا بھی نہیں جانتا کہاں جاؤنگا۔ اگر زندہ رہا اور کسی جگہ پہنچا تو آپ کو آگاہ کرونگا۔

کہ ترپ اِیت پمّن دُژمن ءِ الماسیں تپر 

گم نہ اِنت، دردوں آئی ءِ دوستیں دستگ اَت

آپ کا 

سید 

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں