گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں

 عبدالحلیم حیاتان

ملا فاضل چوک گْوادر اس وقت سوشل میڈیا پر گْوادر کا اہم ترین مسئلہ بن گیا ہے جو مسلسل سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ ملا فاضل چوک گْوادر کو بلوچی زُبان کے معروف کلاسیکل شاعر ملا فاضل کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ ملا فاضل مند ضلع کیچ کے رہنے والے تھے جِن کا انتقال 1270ھ میں ہوا ہے۔ کہتے ہیں کہ ملا فاضل ذرائع معاش کی تلاش میں ایک مرتبہ گوادر آئے تھے لیکن جلد ہی واپس اپنے دیار کو لوٹے اور ساتھ ہی ملا فاضل نے یہ شعر بھی کہا تھا۔ 

"مند ءَ سر بہ بیت احوالے 
فاضل گوادر ءَ ھمّالے"

ملا فاضل چوک گْوادر شہر کا تجارتی حب بھی ہے جو شہر کے وسط میں واقع ہے اِس کے علاوہ یہ ٹرانسپورٹ کا بھی مرکز رہا ہے۔ لیکن عہد رفتہ میں یہاں ٹرانسپورٹ کی سہولت موجود نہیں لیکن محدود پیمانے پر ہے۔ سربندن، پشکان اور جیونی کی سواریاں یہاں سے نکلتی ہیں۔ اب کئی عرصہ ہوا ہے کہ ملا فاضل چوک تجارتی حب اور ٹرانسپورٹ مرکز کی بجائے ایک اور وجہ سے شہرت کا منبع بن گیا ہے اور وہ وجہ یہاں پر سیوریج کے پانی کا تالاب بن جانا ہے جب کہ بارشوں کے سیزن میں یہ جھیل بھی بن جاتا ہے جہاں بچے چھوٹی کشتیوں کہ سواری کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

ملا فاضل چوک کی اہمیت کے پیشِ نظر اسے ایک مثالی جگہ ہونا چاہیئے تھا لیکن ملا فاضل چوک الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سمیت سوشل میڈیا پر بند سیوریج اور ابلتے گٹر اور بارشوں کے سیزن میں تالاب کی وجہ سے خبروں میں گردش کرتا ہے۔ گوکہ جی ڈی اے نے ملا فاضل چوک کو مثالی منصوبہ بنانے کے لئے منصوبہ بندی کی ہے لیکن تاحال اس پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے جس کہ وجہ شہدائے جیونی چوک سے لے کر ملا فاضل چوک تک سڑک کی تعمیر حائل ہے جسے حال ہی میں شروع تو کیا گیا ہے لیکن کب مکمل ہوگا یہ معلوم نہیں۔ 

ملا فاضل چوک پر سابقہ مقامی حکومتوں نے خطیر عوامی فنڈز بھی خرچ کئے لیکن وہ پائیدار ثابت نہ ہوسکے کیوں کہ ملا فاضل چوک کی حالت تاحال ابتر ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہی ملا فاضل چوک ہے جہاں قومی سیاسی و مذہبی جماعتوں اور قوم پرست سیاسی جماعتوں کے چوٹی کے رہنماء اپنی اپنی اسٹیج سجاکر عوام سے کئی عہد پیمان کرچکے ہیں۔ یہ جماعتیں شریک اقتدار بھی رہے مگر ملا فاضل چوک پر شاید قسمت کی دیوی مہربان نہ ہوسکی اور سیوریج کا جن مسلسل آسیب بن کر ملا فاضل چوک کو گندا کررہا ہے۔ 

گْوادر شہر ایک ابھرتا شہر ہے یہاں پر اربوں روپے کے فنڈ خرچ کئے گئے اور تاحال منصوبے پروان چڑھ رہے ہیں۔ گوادر پورٹ سے لے کر ایکسپریس وے اور میرین ڈرائیو بھی بن چکے ہیں۔ ایکسپریس وے گوادر پورٹ کو ساحلی شاہراہ سے جوڈ رہا ہے جب کہ میرین ڈرائیو پر لگے برقی لائٹس اور پارک کی خوبصورتیاں بھی موجود ہیں لیکن ملا فاضل چوک جوکہ تجارتی حب ہے یہ شہریوں کا منہ چھڑا رہا ہے۔  

ملا فاضل چوک کب سیوریج اور گٹر کی آسیب سے نکل کر رونقوں کی بہار ثابت ہوگی وہ گوادر کے ہر شہری کے لئے تشنہ سوال ہے۔ یہاں پر جب ہوٹلوں اور دکانوں کی بَلب کی روشنیاں اُبلتے گٹر پر پڑتی ہیں تو مچھر ہی بھنبھناتے ہوئے نظر آتی ہیں۔ وہ دور کب آئے گا جب خوبصورت ملا فاضل چوک کی غیر معمولی پہچان ہوگی جس کے چرچے بھی خوبصورتی کی بنیاد ہونگے۔ الیکٹرانک اور فرنٹ میڈیا سمیت سوشل میڈیا پر ملا فاضل چوک کا بھی نام ہوگا جس طرح کوہِ باتیل کے دامن میں خوبصورت کرکٹ گراؤنڈ گوادر کی پہچان ہے اور وہ سرخیوں میں ہے مگر ملا فاضل چوک گندگی کی وجہ سے سُرخیوں میں ہے جس سے ذہنوں میں دو گْوادر کا تصور ابھرتا ہے اور ساتھ ہی اداروں کی ناقص منصوبہ بندی کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔

ملا فاضل چوک خوبصورت بنانے کے لئے کوئی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جو کہ چنداں مشکل کام نہیں لیکن ملا فاضل چوک کو بنانے میں غیر معمولی تاخیر نے ملا فاضل چوک کو مزید ابتر بنایا ہے۔ ملا فاضل چوک عظیم شاعر ملا فاضل کے نام سے منسوب ہے اگر ملا فاضل بقید حیات ہوتے تو وہ ضرور اپنے نام سے منسوب چوک پر کوئی شعر کہتے جو شاید اس طرح ہوتا،

 مند ءَ سر بہ بیت احوالے  
گْوادر ءَ فاضلے چوک بد ھالے 

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ