مردم شماری میں گْوادر ٹاؤن کی آبادی میں کمی

 


عبدالحلیم حیاتان 

ملک بھر میں ہونے والے ساتویں اور پہلے ڈیجیٹل مردم شماری کے دوران گْوادر ٹاؤن سے مایوس کن نتائج موصول ہوئے ہیں۔ 2017ء کی مردم شماری میں میونسپل کمیٹی گْوادر یا ٹاؤن کی آبادی 90,762 شمار کی گئی تھی لیکن ساتویں مردم شماری میں یہ آبادی گَھٹ کر ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق تقریبا 77,592 ہوگئی ہے۔ ہر مردم شماری میں آبادی میں اضافہ ہوتا ہے لیکن گْوادر ٹاؤن کی آبادی میں مزید 13,170 کمی واقع ہو گئی ہے۔ کیا گْوادر میں خدانخواستہ کوئی ایسی وبا پھیلی تھی یا گْوادر شہر میں کوئی قحط پڑا تھا کہ جس کی وجہ سے گْوادر ٹاؤن کی آبادی ہجرت کرنے پر مجبور ہوئی اور یوں آبادی میں کمی واقع ہوئی ہے؟۔ 

نہیں، ہرگز نہیں۔ ایسی کوئی انہونی نہیں ہوئی تھی گوادر ماشاءاللہ ترقی کے افق پر نمودار ایک شہر ہے، سی پیک کا مرکز ہے اور دنیا کے سب سے بڑے بندرگاہوں والے شہروں میں اِس کی درجہ بندی کی جاتی ہے. یہاں پر غیر معمولی چہل پہل ہے جس کے نتیجے میں گْوادر شہر کوہ باتیل کے دامن سے شروع ہوکر کوہ مہدی تک پھیلا ہوا ہے۔ شمال مشرق میں آبادی کا ایک بہت بڑا حجم گْوادر شہر کا حصہ اور زینت بن گئی ہے۔ اُمید کی جارہی تھی کہ گْوادر ٹاؤن کی آبادی سابقہ مردم شماری کے ریکارڈ توڈ ڈالے گا لیکن حالیہ مردم شماری کے نتائج نے سب کو حیران کردیا۔ 

   مردم شماری میں سیاسی جماعتوں کا کردار

گْوادر شہر کی سیاست پر اِس وقت بلوچستان کی اہم قوم پرست جماعت بی این پی مینگل ایک اہم اسٹیک ہولڈر ہے کیونکہ یہاں کے ایم پی اے کا تعلق بی این پی مینگل سے ہے۔ سب سے بڑھ کر گْوادر شہر ایم پی اے کا اپنا آبائی شہر بھی ہے جہاں سے وہ مسلسل تین بار ایم پی اے کی نشست جیت کر آرہے ہیں۔ بی این پی مینگل وفاقی حکومت کا اتحادی ہے اور وزارتیں بھی اُن کے پاس ہیں۔ 

بی این پی مینگل ہمیشہ سے ہی گْوادر کی اقلیت میں جانے پر معترض رہا ہے یہاں تک بی این پی مینگل کی جانب سے قانون سازی کی بھی کوشش کی گئی تھی تاکہ ملک کے دیگر شہریوں کو گْوادر میں ووٹ ڈالنے کا حق نہ ملے۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں بی این پی مینگل یا ایم پی اے گْوادر کا وزیر اعلٰی بلوچستان کے ساتھ دوستانہ مراسم بھی ہیں۔ ایم پی اے گْوادر کو بظاہر مردم شماری کے دوران متحرک ہوتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔

نیشنل پارٹی بھی بلوچستان کی ایک اور اہم قوم پرست جماعت ہے اِس کا بھی گْوادر میں ایک حد تک اسٹیک مانا جاتا ہے کیونکہ ماضی میں بلدیاتی اداروں میں نیشنل پارٹی کا ہی حصہ رہا ہے۔ نیشنل پارٹی کی قیادت اجتماعی طورپر گوادر ٹاؤن کے مردم شماری میں سرگرم نہیں رہی تھی۔ حق دو تحریک ایک بڑے پریشر گروپ یا سیاسی تحریک کی صورت میں ابھری ہے جس نے میونسپل کمیٹی گْوادر کے بلدیاتی انتخابات میں کلئین سویپ کیا ہے۔ حق دوتحریک کو بی این پی مینگل کا سب سے بڑا سیاسی حریف بھی سمجھا جاتا ہے۔

لیکن اِس تحریک کی عمر اتنی زیادہ نہیں اور اِس وقت اِس تحریک کے قاعد پسِ زنداں ہیں۔ توقع کی جارہی تھی کہ یہ تحریک جس نے مختصر عرصے میں عوامی حمایت سمیٹی ہے یہ مردم شماری میں پیش پیش ہوگی لیکن ایسا دکھائی نہیں دیا جس کی توقع کی جارہی تھی۔ لگتا ہے کہ اپنے قاعد کے جیل چلے جانے کے بعد یہ تحریک اپنے دم خم میں کمزوری کا شکار بن گیا ہے۔ اس کے علاوہ مردم شماری میں دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کا بھی اجتماعی کردار نظر نہیں آیا۔ تمام سیاسی جماعتوں کے صرف گنتی کے رہنماؤں اور کارکنوں نے انفرادی طورپر مردم شماری میں حصہ لیا۔

مردم شماری کے حوالے سے سیاسی رہنماؤں کا موقف

نیشنل پارٹی کے سابقہ ضلعی صدر فیض نگوری مردم شماری میں گوادر ٹاؤن کی آبادی میں کمی کے حوالے سے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں "مردم شماری میں گْوادر ٹاؤن کی آبادی میں کمی واقع ہونا سیاسی جماعتوں کی ناکامی ہے۔ سیاسی جماعتوں کا کام عوام کو شعور و آگاہی پہنچانا ہوتا ہے لیکن مردم شماری کے دوران عوام کو ایجوکیٹ نہیں کیا گیا اور نہ ہی عملی کوشش کی گئی۔ سیاسی جماعتیں محض سطحی بیانات کے علاوہ مزید آگے نہ بڑھ سکے۔ میں (فیض نگوری) مردم شماری میں گوادر ٹاؤن کی آبادی میں کمی کے ریکارڈ کو سیاسی جماعتوں کی ناکامی سمجھتا ہوں۔ یہ سیاسی عدم پختگی اور شعوری سیاست میں کمی کے رجحانات کی عکاسی کرتی ہے اگر اس پر ریلائیز نہیں کیا گیا یہ روش آگے چل کر سیاسی جماعتوں کے غیر اہم ہونے کی وجہ بھی بن سکتی ہے"۔ 

بی این پی (مینگل) کے سینئر رہنما سابقہ تحصیل ناظم ماجد سہرابی کہتے ہیں " اگر بنیادی طور پر دیکھا جائے تو مردم شماری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا سیاسی جماعتوں کا ہی کام ہے۔ وہ اس طرح سے کہ گْوادر میں جن جن علاقوں میں سیاسی جماعتوں کے کارکن سرگرم رہے تھے تو وہاں مردم شماری کا رزلٹ بہتر آیا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہاں پر سیاسی عمل کو سبوتاژ کرنے میں ابھی سے نہیں کچھ ادوار قبل ہی بہت زیادہ سازشیں کی جارہی ہیں کیونکہ سیاسی کارکنوں کی سیاسی بیگانگی یہاں کی مقتدرہ کو سوٹ کرتی ہے۔ اس کو روبہ عمل میں لانے کے لیے مختلف ٹولز استعمال ہوئے۔ جنرلی آپ دیکھ لیں اس سیاسی و سماجی بیگانگی نے سیاسی کارکن کو غیر ذمہ دار بنایا ہے جس کا نتیجہ مردم شماری کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ ماجد سہرابی مردم شماری میں آبادی کا پہلے سے بھی کم ہونے کی ایک وجہ سیاسی جماعتوں کی ایک دوسرے کو کم تر دکھانے کی روش کو بھی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے سبب بھی گْوادر میں مردم شماری کا عمل متاثر ہوا ہے۔

ماجد سہرابی مزید کہتے ہیں کہ اس پراسس میں کمزوریاں سیاسی جماعتوں کی وجہ سے ہوئی ہیں۔گوادر ٹاؤن میں مردم شماری میں آبادی گزشتہ سے کم ھونا ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ اس گناہ میں ھم سب شریک ہیں۔ ہونا یہ چاہیئے تھا کہ مردم شماری کے پراسیس میں انفرادیت کی بجائے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر قومی سوچ کی بنیاد پر حصہ لینا چاہیئے تھا جو ھم نہ کرسکے جس کی نتائج ھمیں ملنا شروع ہو جائیں گے"۔ 

حق دوتحریک کے ترجمان حفیظ کھیازئی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ "ایک ادارے کی جانب سے مردم شماری کے عملے کو ھدایات جاری کئے گئے تھے کہ مردم شماری کے دوران حق دوتحریک کے کونسلران سے کسی بھی قسم کا تعاون نہ کیا جائے جس کے سبب گْوادر ٹاؤن کی آبادی کم شمار ہوئی ہے"۔

گْوادر ٹاؤن کی آبادی کا کم ہونا لمحہ فکریہ ہے کیونکہ ملک میں آبادی کے لحاظ سے وسائل تقسیم کیئے جاتے ہیں اور جب آبادی میں کمی واقع ہو تو وسائل کی تقسیم میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ مردم شماری میں گْوادر ٹاؤن کی آبادی میں کمی کا ریکارڈ ہونا سیاسی جماعتوں کے سیاسی عمل سے عاری یا اُن کا عوام کے اندر غیر مقبول ہونے کا بھی اشارہ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے سیاسی جماعتیں مردم شماری کے عمل کے دوران عوام تک رسائی حاصل نہ کرسکے۔

سیاسی جماعتیں بالخصوص بلوچ قوم پرست سیاسی جماعتیں جو گْوادر کو بلوچستان کی شہہ رگ سمجھتے ہیں، اس کو لیکر اقلیت میں جانے کا خدشہ ظاہر کرتے ہیں۔ ساحل اور وسائل کے تحفظ کا دعوٰی کرتے ہیں۔ اُن کے ناک کے نیچے گْوادر ٹاؤن کی آبادی کا کم ہونا اُن کے لئے سوالیہ نشان ہے۔ اگر آبادی میں اضافہ ہوتا تو سیاسی جماعتیں گْوادر کی اقلیت میں جانے کے خدشات اور سازش کے اثرات کو شاید زائل کرسکتے تھے جیسا کہ وہ ہمیشہ اس کا اظہار کرتے چلے آرہے ہیں لیکن وہ اس کو اپنے حق میں استعمال کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔

اِس سے یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ سیاسی جماعتیں آگے چل کر کیسے عوام کے سماجی، معاشی اور بنیادی حقوق کے تحفظ کو ممکن بنائینگے؟۔

تاھم سماجی کارکن مردم شماری میں گْوادر ٹاؤن کی آبادی میں کمی کو سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ ادارہ شماریات کو بھی گردانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے آپ اسے سیاسی جماعتوں کی ناکامی کہہ سکتے ہیں لیکن سماج کے دیگر طبقات جس میں سماجی تنظیمیں، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور میڈیا بھی شامل ہیں وہ بھی اپنا وہ کردار ادا نہ کرسکے جو ان کو ادا کرنا چاہیئے تھا۔ اگر لوگ مردم شماری میں دلچسپی نہیں لے رہے تھے تو ادارہ شماریات، اس کا نگران اور اس کا عملہ بھی ذمہ دار ٹہرائے جاسکتے ہیں۔ 

بہرحال میونسپل کمیٹی گْوادر کی آبادی میں پر کسی ایک کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا، اس کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز اور ہر ذی شعور شہری ذمہ دار ہیں۔ مردم شماری کے نتائج پر گْوادر کے تمام اسٹیک ہولڈرز جس میں قوم پرست اور مذہبی و سیاسی جماعتوں سمیت حق دوتحریک شامل ہیں کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔  

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں