سید نمدی
مترجم: عبدالحلیم حیاتان
بحرین
20 دسمبر 1961ء
لالی! سلامت رہیں!
آپ کا 18 دسمبر کا بھیجا گیا خط مجھ تک ابھی پُہنچا ہے۔ میں نے دو مرتبہ پڑھا ہے۔ ویسے میں ایک مرتبہ پڑھنے کے بعد اِس کا مفہوم سمجھ گیا تھا لیکن دوسری مرتبہ پڑھنے کے بعد آپ میرے سامنے کھڑے نظر آئے اور ایک لمحہ کے لئے ماضی کے یادوں کی فلم میرے سامنے چلنے لگی۔
آپ کہتے ہوئے میں بوڈھا ہوگیا ہوں لیکن آپ کی آگ کی تپش اب بھی وہی ہے جو جوانی میں رہی تھی۔ اگر آپ میرے تحریر کئے گئے خط کو دو سے تین مرتبہ سرد مہری کے ساتھ پڑھتے تو آپ میرے لئے بہترین جواب کا انتخاب کرکے ارسال کرسکتے تھے۔
میری یہ بات کہ "بلوچستان کے سوال کی ترغیب آپ کو کس نے دی ہے" اِس کا جواب اِنہی باتوں میں سے بعد کے باتوں میں نے خود دیا ہے۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ آپ "ترغیب" کے لفظ سے اُلجھ گئے۔
میری دوسری بات کہ "آپ کے دِل میں یہ بات کیسے اٹھی؟" اِس متعلق بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
اسی طرح "لالی آپ کیا کرسکتے ہو؟" یہ بھی ایک روایتی سوال ہے کہ میں نے کیا ہے۔ یہ تین باتیں آپ نے کسی اور زوائیے سے لی ہیں! اِس لئے آپ کے خط نے اور رنگ لیا ہے۔
سنیں لالی! آج پوری دنیا کِس انمول چیز کا متلاشی ہے۔ ہر ایک قوم اپنے آپ کو دنیا کے دیگر زندہ قوموں کے ساتھ ہم پلہ کرنا چاہتی ہے۔ لیکن سوئی ہوئی یہ قوم زیادہ تر روزگار کی تلاش میں ہے۔ روزگار کی تلاش اِس قدر کی جارہی ہے کہ ایک نوالے چاول کے لئے لوگوں کی انتقال کی بھی پرواہ نہیں رکھتے۔ ہماری مری ہوئی قوم میں زندگی اِس قدر گم گشتہ ہے کہ جو زمین پر گرے ہوئے کھجور کی پیڑ سے بھی کم تر ہے۔ اگر اِس طرح کی قوم کا ایک آدمی زندگانی کے بارے میں بات کرے تو یہ کرامات ہوگی!
دیار سے دور ، ملک سے دور، رشتہ داروں اور عزیزوں سے دور رہنے والا وہ شخص کہ جس نے جھلسا دینے والی آگ کی تپش سے دور اپنے لئے اوروں کے ٹھنڈے گھنے سائے میں وقتی طورپر جگہ بنالی ہے، اُن کا یوں پردیسی بن جانے کے بعد اپنے سامنے دیگر زندہ قوموں کی زندگانی کو دیکھنا خود ایک ترغیب کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر اسے ہم ترغیب کہتے ہیں تو لازم نہیں کہ اور ترغیب کی ضرورت پیش آئے۔ میرے نزدیک یہ کسی اور کی ترغیب دینے سے اور بھی بہتر ہے اگر یہ اصول کے تحت ہو۔ "ترغیب دینا" آج ہماری اولین، بنیادی اور لازم ترین کام ہے کہ ہاتھ تھاما جائے کیونکہ اِس قوم کے لوگ اِس قدر دانا نہیں ہیں کہ اپنے لئے کوئی چیز سمجھ پائیں اِس لئے اُن کو ترغیب دینا اور اُن کو دِل سے اور شعُوری طورپر آگاہ کرنا ناگزیر بن گیا ہے۔ بعض دفعہ چار لوگ اکٹھے بیٹھتے ہیں اور اچانک گفتگو کا آغاز ہوتا ہے اور یہ ایک بڑا کام ہاتھ میں لینے کی :ترغیب" بن جاتی ہے۔
بعض دفعہ ایک فرد بغیر ترغیب اور نہ جھنجھوڑنے والی مجلس یا حالات میں یکدم اپنے آپ میں بہتری اور تبدیلی لانے کی یاد میں پڑتا ہے اور اِس کے دل میں ایک بات اٹھتی ہے جو کہ اُس کے اور اُس کی قوم کی زندگانی کے لئے نیا پیغام بن سکتا ہے!۔
اوپر کی یہ دوباتوں کے بعد تیسری بات یہ ہے کہ آدمی اپنے حالات سے آگاہ رہے اپنے لئے اور اپنے قوم کے لئے دلسوز ہونے کے بعد راستے کی تلاش پر جانے سے قبل اپنے آپ کو دیکھے کہ اگر دیگر چار بھائی بھی اِس اُصول کے تحت نکلیں۔ میں کیا کام کرسکتا ہوں۔ کیونکہ اِس رستے پر ہر کسی کو ایک وزنی بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانا پڑے گا۔
میرے وہ تین سوال جو کہ آپ کو ناگوار لگے ہیں وہ ایسے سوال نہیں تھے جو کہ آپ نے اپنے خط میں بکھیرے ہیں۔ میں اب بھی اُن سوالوں کا مکمل جواب چاہتا ہوں۔ اُمید کرتا ہوں کہ آپ اِن سوالوں کے معنی سمجھ گئے ہو آج آپ کی قوم کو کام کرنے والے لوگوں کی ضرورت ہے۔
یہ یہی تین سوال ہیں کہ آپ پرانے زخم کرید رہے ہو آپ کے خط کی باتوں کا جواب نہیں دینا ہے یہ آمنے سامنے بیٹھکر کرنے والی باتیں ہیں۔
آپ کا
سید
Comments
Post a Comment