گوادر کتاب میلہ کا تیسرا دن

 

عبدالحلیم حیاتان 

آر سی ڈی سی گوادر کے زیر اہتمام جاری کتاب میلہ تیسرے روز بھی دلچسپی کا مرکز رہا۔ اس موقع پر مباحثوں کا اہتمام کیا گیا۔ ادبی اور دیگر موضوعات پر تحریر کئے گئے کتب کی رونمائی کی گئی۔ 
"بلوچستان، مواقع، چیلنجز اور پائیدار حل" کے سیشن پر گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی رفیع اللہ کا کڑ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لئے حقیقی معنوں میں کسی بھی قسم کی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا اٹھارویں ترمیم ایک مستند دستاویز ہے جو چھوٹے صوبوں کے حقوق کے تحفظ، وسائل پر اختیار اور حقِ ملکیت کی گارنٹی دیتی ہے لیکن اس پر دیدہ دانستہ طورپر عمل درآمد کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان وہ واحد ملک نہیں جس میں ایک یونیک وفاقی و پارلیمانی نظام رائج ہے دنیا کے دیگر 35 ممالک میں بھی یہی نظام جاری ہے جو مثالی ہیں مگر بدقسمتی سے یہاں طاقت اور اختیارات کے حصول کے لئے چھوٹے صوبوں کو حقِ حکمرانی سے محروم رکھا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی سیاسی اکابرین جنکا تعلق نیپ سے رہا ہے اُنہوں نے حتی الوسع کوشش کی کہ وہ وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کے اندر رہتے ہوئے کردار اداکریں لیکن اختیارات کے مرکز نے ان کی رائے کا احترام نہیں کیا۔ ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں حقیقی نمائندوں کی بجائے مصنوعی حکمرانی کے روش کو فروغ دیا گیا ہے یہ وہی لوگ ہیں جو بلوچستان میں جاری مزاحمت یا جنگ کی بنیفشری ہیں جو نہیں چاہتے کہ بلوچستان کا مسئلہ حل ہو۔ بلوچستان کا مسئلہ ایک حد تک اس وقت حل ہوگا جب وفاقی پارلیمانی سیاسی نظام میں اصلاحات لائی جائیں، سنیٹ کے انتخابات براہ راست منعقد کئے جائیں تاکہ لوگوں کے حقیقی نمائندے سامنے آسکیں۔ ستر کی دہائی میں بلوچستان کے اہم سیاسی رہنماؤں میر غوث بخش بزنجو اور ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے اپنی اسمبلی تقاریر میں سنیٹ کے بارے میں خدشہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ "جو طریقہ سنیٹ کے انتخابات کے لئے وضع کئے جارہے ہیں اس سے یہ ایک ڈیبیٹ کلب ثابت ہوگی"۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب تک مظلوم اور محکوم عوام کا معاملہ طاقت ور کے رحم و کرم پر رہے گا بلوچستان میں جو ہورہا ہے وہ جاری رہے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سی پیک منصوبے سے بلوچستان اور گوادر کو مشکل ہے فائدہ ملے، بلوچستان میں اقتصادی اور معاشی ترقی کے لئے کمردین کاریز ژوب سے لیکر گوادر تک بارڈر ٹریڈ کو فروغ دینا ہوگا جس کے لئے بارڈر ٹاؤن، بارڈر گیٹ، کامن بارڈر مارکیٹ اور بارڈر گیٹ ٹاؤن سے لوگوں کو بغیر شرائط آنے جانے کی اجازت دینا ہوگی جب بارڈر اکنامک ڈور کھلینگے مقامی لوگوں کو فائدہ ملے گا۔ سیشن کی میزبانی اصغر رمضان نے اداکی۔ 

کے بی فراق کی میزبانی میں ثقافتی ہم آہنگی میں متعلقہ اداروں کے کردار پر بات کرتے ہوئے انجمن ترقی اردو پاکستان کی فاطمہ حسن اور سابقہ ڈائریکٹر ادارہ ثقافت بلوچستان عبداللہ بلوچ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ملک کے لئے ثقافت اور دفاع اہم ہوتے ہیں جب ثقافت ہی باقی نہ رہے تو دفاع کیسے ہوگا۔ پاکستان ایک کثیرالثقافتی ملک ہے یہاں 80 زبانیں بولی جاتی ہیں نہ صرف بولیں جاتی ہیں بلکہ اس میں لکھا اور پڑھا بھی جاتا ہے۔ زبانوں کو بچانے کی ضرورت ہے جب ادب تخلیق ہوگا تو زبان کو مہمیز ملے گی۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ زبان ثقافت کا مظہر ہیں ہر زبان میں ادب تخلیق ہونا چاہیئے۔ ہم آہنگی کے فروغ کے لئے متعلقہ اداروں کا کردار اہمیت کا حامل ہے نہ صرف ادارے بلکہ انفرادی کاوشیں بھی اس کے لئے کارگر ثابت ہوسکتی ہیں۔ اولڈ گوادر کا ثقافتی ورثہ ایک قدیم عہد کی ترجمانی کرتی ہے یہاں کے ثقافتی ورثہ کو محفوظ بنانے سے ثقافت کو روشناس کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں زبان، مذہب اور فرقے کے نام سے تقسیم سے بچنا ہوگا جس کی واضح مثال بنگلہ دیش ہے جس نے اپنی ثقافت سے ابھی تک سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔ 

اس موقع پر جن کتابوں کی رونمائی کی گئی اُن میں گلزار گچکی کی کتاب "اشرف درا زند ءُ ازم" ڈاکٹر سلیم کرد کی کتاب "روزن زندان" شرف شاد کی کتاب "منیر احمد بادینی ءِ گدار نویسی" اور عامر رانا کی ناول "میرجان" شامل تھے۔ شام کے سیشن میں بیت بازی اور اردو بلوچی مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔ مشاعرہ میں بلوچی اور اردو زبان کے معروف شعراء نے اپنا کلام سناکر زبردست داد وصول کی۔  

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں